تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     13-11-2024

کبیر بیدی‘ ماڈل ٹاؤن لاہور اور بمبئی

لاہور بھی ایک شہرِ بے مثال ہے۔ ایک زمانہ تھا جب متحدہ ہندوستان میں یہ آرٹ‘ ادب اور موسیقی کا گہوارا تھا۔ کیسے کیسے لعل و مرجان تھے جو لاہور کے گلی کوچوں سے وابستہ تھے۔ ادیبوں‘ شاعروں‘ نغمہ نگاروں‘ گلوکاروں‘ اداکاروں کی ایک کہکشاں تھی جس سے لاہور کا آسماں جگمگاتا تھا۔ لاہور کے اِنہی گلی کوچوں میں بابا پیارے لال سنگھ بیدی رہتا تھا۔ وہ عام لوگ سے بہت مختلف تھا۔ اسے فلسفے سے خاص دلچسپی تھی۔ بابا بیدی کا بائیں بازو کی سیاست کے ساتھ ایک رومانس تھا۔ پھر ایک دن وقت کا دھارا حصولِ تعلیم کیلئے اسے آکسفورڈ یونیورسٹی لے گیا۔ یہ 1930ء کے لگ بھگ کا زمانہ تھا جب آکسفورڈ یونیورسٹی میں دیسی طالب علموں کی تعداد بہت کم تھی۔ اس کی ایک ہم جماعت مسیحی لڑکی تھی جس کا نام فریدہ تھا۔ فریدہ جلد ہی بیدی کی طلسماتی شخصیت کے سحر میں گرفتار ہو گئی اور پھر دونوں نے ایک دوسرے سے شادی کا فیصلہ کر لیا۔ بیدی کا تعلق ایک پنجابی سکھ خاندان سے تھا‘ جہاں خاندان سے باہر شادی کا تصور بھی نہیں تھا‘ لیکن بیدی اور فریدہ کے ارادے کے سامنے سب مشکلیں آسان ہو گئیں۔
اُسے یاد ہے جب آکسفورڈ یونیورسٹی میں گاندھی آئے تھے تو وہ ان کے استقبال کیلئے پیش پیش تھا۔ پھر ایک دن اسے جرمنی کی ایک یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے سکالرشپ مل گیا۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد بیدی اور فریدہ لاہور واپس آگئے اور لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں رہنے لگے۔ اس گھر کی دیواریں مٹی کی تھیں۔ یہیں پر کشمیری رہنما شیخ عبداللہ آکر ٹھہرتے تھے۔ ان کی بابا بیدی کے ساتھ دوستی تھی۔ دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہو چکا تھا۔ اس کے ساتھ ہندوستان کی آزادی کی تحریک بھی زور پکڑ رہی تھی۔ بیدی اور فریدہ دونوں دل و جان سے آزادی کی اس تحریک میں شریک تھے۔ بیدی کو کئی بار گرفتار کیا گیا اور ایک بار تو فریدہ کو بھی جیل جانا پڑا۔ بیدی اور فریدہ کے گھر پہلا بیٹا رانگا پیدا ہوا۔ 1946ء میں ان کے ہاں ایک اور بیٹا پیدا ہوا جس کا نام کبیر بیدی رکھا گیا۔ وہی کبیر بیدی جس نے آگے جا کر فلم‘ ٹی وی اور تھیٹر کی دنیا میں نام کمانا تھا۔ 1947ء میں ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور بیدی اور ان کا خاندان کشمیر چلا گیا جہاں کچھ عرصے میں بابا بیدی کے دوست شیخ عبداللہ کشمیر کے حکمران بن چکے تھے۔ یوں کبیر بیدی کے بچپن کا ایک حصہ کشمیر میں گزرا۔ پھر بابا بیدی کا خاندان کشمیر سے ہندوستان منتقل ہو گیا۔ کبیر بیدی کو Aunty Gauba Schoolمیں داخل کرایا گیا۔ یہیں پر اس کی دوستی اندرا گاندھی کے بیٹوں راجیو گاندھی اور سنجے گاندھی سے ہوئی۔ کچھ عرصہ وہ ڈی پی ایس سکول میں پڑھتا رہا‘ پھر نینی تال کے معروف تعلیمی ادارے Sherwood College اور آخر میں St. Stephen Collegeمیں تعلیم حاصل کی۔ یہ اس وقت کے ممتاز تعلیمی ادارے تھے۔ کچھ عرصے کیلئے وہ رابندر ناتھ ٹیگور کے تعلیمی ادارے میں بھی پڑھتا رہا۔
کالج کے زمانے سے ہی اسے اد ب اور اداکاری سے خاص دلچسپی تھی۔ وہ اپنے کالج میں شیکسپیئر سوسائٹی کا سیکرٹری تھا۔ طالب علمی کے زمانے میں اس نے ایک کہانی Rambling on a Beach لکھی تھی جسے بعد میں معروف ادیب خوشونت سنگھ نے بہترین کہانیوں کے انتخاب میں شامل کیا۔ اسی طرح سکول کے دنوں میں اس کی ایک نظم When I was Small کو ایک مقابلے میں پہلا انعام ملا۔ کبیر بیدی نے عملی زندگی میں قدم رکھا تو ریڈیو کا انتخاب کیا۔ اس زمانے کی ایک یاد ساری زندگی اس کے ساتھ رہی۔اس نے اپنے زمانے کے معروف امریکی گلوکاروں کے گروپ The Beatlesکا انٹرویو کیا تھا۔ یہ کبیر بیدی کیلئے بڑا اعزاز تھا کیونکہ The Beatlesتک رسائی آسان نہ تھی۔ ریڈیو سے انٹرویو نشر ہونے کے ایک ہفتے بعد جب کبیر انٹرویو کی ٹیپ لینے پہنچا تو اسے بتایا گیا کہ اس ٹیپ پر کوئی دوسرا پروگرام ریکارڈ کردیا گیا ہے۔ اس واقعے نے کبیر کو ریڈیو کی دنیا سے بیزار کر دیا اور وہ فلموں میں قسمت آزمائی کیلئے دہلی چھوڑ کر بمبئی منتقل ہو گیا۔ جہاں اس نے ایڈورٹائزنگ کے شعبے میں ڈاکومینٹری فلمیں بنانا شروع کیں۔ پھر ایک دن اسے فلم ''ہلچل‘‘ میں بطور اداکار کام کرنے کی پیشکش کی گئی۔ یہاں سے اس کے فلمی سفر کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد کئی اور فلموں سچا‘ انوکھا دان‘ راکھی اور ہتھکڑی‘ سزا‘ کچے دھاگے‘ دو راستے‘ میرا گاؤں‘ منزلیں اور بھی ہیں‘ میں کام کرنے کا موقع ملا‘ لیکن ابھی اس کی زندگی میں ایک اہم موڑ آنا تھا۔
یہ 1974ء کی بات ہے‘ اُس سال اٹلی کی فلمی دنیا کے کچھ لوگ ہندوستان آئے ہوئے تھے۔ وہ ٹی وی سیریز Sandokanکیلئے کسی ایسے اداکار کی تلاش میں تھے جو اس کردار سے انصاف کر سکے۔ Sandokanایک ایسے ایشیائی ہیرو کا کردار تھا جو انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑتا ہے۔ کبیر بیدی ایک خوبصورت‘ وجیہ‘ دراز قد جوان تھا جس کی آواز میں ایک خاص تمکنت تھی۔ یوں کبیر بیدی کی شکل میں انہیں Sandokanکی جھلک نظر آئی۔ آڈیشن کیلئے اسے اٹلی جانا پڑا۔ آڈیشن میں کامیابی کے بعد اسے Sandokan کا کردار ملا جس نے اسے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور وہ اٹلی کے شہریوں کا مقبول اداکار بن گیا۔ 1975ء میں اسے وجے ٹنڈولکر کے ڈرامے Vultures میں کام کرنے کا موقع ملا۔ وہ جیمز بانڈ فلموں کی مقبولیت کا زمانہ تھا۔ یہ جاسوسی اور تھرلر فلمیں تھیں جن میں جیمز بانڈ کا کردار بہت مقبول تھا۔ اس کے بعد کبیر بیدی کو 1978ء میں The Thief of Bagdad میں کام کرنے کا موقع ملا۔ 1979ء میں Ashanti فلم میں اس نے معروف اداکاروں مائیکل کین اور عمر شریف کے ساتھ کام کیا۔ 1983ء میں کبیر بیدی کو جیمز بانڈ کی فلم Octopussy میں کام کرنے کی پیشکش ہوئی۔ یہ کبیر کی فلمی زندگی کا ایک اور اہم موڑ تھا۔ اس فلم میں کبیر بیدی کو معروف ہالی وڈ اداکار اج مور کے ساتھ اداکاری کا موقع ملا۔ ادھر لندن میں اسے The Far Pavilions میں کام کرنے کا موقع ملا۔ ہالی وڈ‘ اٹلی اور انگلینڈ میں دھوم مچانے کے بعد کبیر بیدی کو بالی وڈ میں ایک فلم میں کام کرنے کی پیشکش ہوئی۔ فلم کا نام تھا ''خون بھری مانگ‘‘۔ اس فلم نے کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کیے اور کبیر بیدی نے فلم میں Anti Hero کا کردار ادا کیا۔ کبیر بیدی نے تیس سے زائد ہندی فلموں میں کام کیا۔ کبیر بیدی نے Taj Mahal: An Eternal Loveمیں شاہ جہاں کا کردار ادا کیا۔ یوں کبیر بیدی نے بالی وڈ‘ ہالی وڈ‘ اٹلی اور انگلینڈ میں اداکاری کے جوہر دکھائے اور لوگوں میں مقبولیت حاصل کی۔
کبیر بیدی کے پاس دولت‘ شہرت اور لوگوں کے بے پناہ محبت تھی لیکن اس کی ازدواجی زندگی میں بہت سے اُتار چڑھاؤ آئے۔ اس نے اپنی خود نوشت Stories I Must Tell: The Emotional Life of an Actor میں اپنی چار شادیوں کا احوال لکھا ہے۔ اس نے پروین پالی کے ہمراہ بھی زندگی کا کچھ عرصہ گزارا لیکن ان کی شادی نہ ہو سکی۔
کبیر بیدی اب فلمی دنیا سے ریٹائر ہو چکا ہے۔ سرِ شام وہ بمبئی میں اپنے گھر کے ٹیرس پر بیٹھتا ہے تو اس کی نگاہوں کے سامنے اس کی زندگی کے گزرے ہوئے شب و روز آجاتے ہیں۔ کیسے کیسے منظر اس کے تصور میں روشن ہو جاتے ہیں۔ اُنہی میں ایک منظر لاہور کے ماڈل ٹاؤن میں اس Hut کا ہوتا ہے جس کے دیواریں کچی تھیں‘ جہاں بجلی کے بجائے لالٹین کی روشنی ہوتی تھی‘ جہاں دنیا کی آسائشیں تو نہیں تھیں لیکن محبت اور پیار کی فراوانی تھی۔ لاہور کا وہ گھر جہاں اس نے آنکھ کھولی تھی‘ وہی لاہور جو شہروں میں ایک شہر تھا جہاں سے اس کی زندگی کے سفر کا آغاز ہوا تھا لیکن جس کے آسمان کو دیکھنے کیلئے اس کی نگاہیں تمام عمر ترستی رہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved