تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     13-11-2024

پاکستان کا نیا اقتصادی وژن کیا ہے؟ … (2)

آئی ایم ایف سے مزید قرض نہ لینے کا فیصلہ پاکستانی عوام کیلئے ملے جلے نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ فیصلہ ایک طرف حکومت کو ایسی پالیسیاں اپنانے کی ترغیب دے سکتا ہے جو خود انحصاری اور پائیدار اقتصادی ترقی کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے شہریوں کے مفادات کو بہتر طور پر پورا کرتی ہوں۔ دوسری طرف یہ فیصلہ مہنگائی میں اضافے‘ عوامی اخراجات اور غیرملکی سرمایہ کاری میں کمی کا باعث بن سکتا ہے‘ یعنی اس فیصلے کے ایک عام شہری کی زندگی پر بھی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ عام شہری کیلئے اس فیصلے کے فوری اثرات قیمتوں میں اضافے اور سستی اشیا اور خدمات تک کم رسائی کے حوالے سے محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ مزید کسی آئی ایم ایف قرض پروگرام میں شامل نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایندھن‘ گندم اور بجلی جیسی بنیادی اشیا پر سبسڈی کم ہو جائے گی‘ جس سے گھریلو بجٹ پر اضافی دباؤ پڑے گا۔ مزید برآں اگر پاکستان اقتصادی ترقی اور شرح نمو میں کمی کا سامنا کرتا ہے تو ملازمتوں کے مواقع کم ہو سکتے ہیں‘ جو پہلے سے بلند بیروزگاری کی شرح کو مزید بڑھا سکتے ہیں۔تاہم‘ اگر حکومت آئی ایم ایف کی مداخلت کے بغیر معیشت کو مستحکم کرنے میں کامیاب رہتی ہے تو یہ فیصلہ ایک مضبوط اور زیادہ خودکفیل پاکستان کا باعث بن سکتا ہے جس پر عالمی اقتصادی دباؤ کا خطرہ کم ہو گا۔ طویل المدتی منظر نامے میں اس کا مطلب روزگار کے مزید مواقع‘ بہتر سماجی بہبود کا نظام اور آنے والی نسلوں کیلئے زندگی کا بہتر معیار ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے اہم چیلنج ابتدائی معاشی مشکلات پر قابو پانا اور ملک کے مالیاتی عدم استحکام کی بنیادی وجوہات کو دور کرنے والی اصلاحات کا نفاذ ہوگا۔
اس جرأت مندانہ وژن کو حقیقت بنانے کیلئے حکومت کو کئی اہم اصلاحات کرنا ہوں گی جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔ ٹیکس اصلاحات: بجٹ خسارے کو کم کرنے اور بیرونی قرضوں پر انحصار کیے بغیر عوامی خدمات کو وافر فنڈز مہیا کرنے کیلئے ٹیکس کے دائرہ کار کو بڑھانا اور ٹیکس وصولی کے نظام کو بہتر بنانا ہوگا۔مالیاتی نظم و ضبط: حکومت کو فضول خرچی ختم اور دیر پا اثرات کے حامل منصوبوں کو ترجیح دینا ہو گی‘ اور ایسی پالیسیوں سے گریز کرنا ہو گا جو مستقبل میں معاشی عدم استحکام کا باعث بنیں۔پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ: تعلیم‘ صحت کی دیکھ بھال اور بنیادی ڈھانچے جیسے شعبوں میں نجی شعبے کے ساتھ تعاون سرکاری مالیات پر غیرضروری دباؤ ڈالے بغیر ضروری خدمات فراہم کر سکتا ہے۔
پاکستان کا آئی ایم ایف قرضوں پر انحصار ہمیشہ سے ایک متنازع مسئلہ رہا ہے جس پر عوام اور پالیسی سازوں‘ دونوں کی جانب سے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا جاتا رہا۔ اگرچہ آئی ایم ایف کے قرضوں کو معاشی بحران میں ایک ضروری لائف لائن کے طور پر دیکھا جاتا ہے‘ لیکن یہ سخت مالیاتی تقاضوں کے ساتھ آتے ہیں جو ترقی کے عمل کو روکتے ہیں‘ سماجی اخراجات کو کم کرتے ہیں اور غربت میں اضافہ کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ملکی کرنسی ڈالر کے مقابلے کمزور ہوتی جا تی ہے۔ مہنگائی‘ ملازمتوں کی کمی اور غیر منصفانہ ٹیکس ڈھانچے کی وجہ سے ان قرضوں کے اثرات میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ مربوط معاشی پالیسیوں سے پاکستان معاشی آزادی اور زیادہ مساوی معاشرے کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے ہمیں ایک مربوط روڈ میپ کی ضرورت ہے۔پاکستان کے مسلسل معاشی بحران کی ایک اہم وجہ ٹیکس نظام کا متضاد ڈھانچہ ہے۔ امیر افراد اور کارپوریشنز اکثر ٹیکس میں چھوٹ اور خامیوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں جبکہ کم اور درمیانی آمدنی والے طبقات اس کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ ترقی پسند ٹیکس کا نظام‘ جہاں زیادہ آمدنی والے زیادہ ٹیکس ادا کریں‘ نچلے طبقے پر بوجھ ڈالے بغیر محصولاتی آمدن میں اضافہ کرے گا۔ رئیل اسٹیٹ‘ پُر تعیش اشیا اور کیپٹل گین کو نشانہ بنانے والا ایک مضبوط ٹیکسیشن فریم ورک حکومت کو بیرونی قرضوں کی طرف رجوع کیے بغیر ضروری فنڈز فراہم کر سکتا ہے۔ ٹیکس کوڈ کو آسان بنانا اور ڈیجیٹل مانیٹرنگ کے ذریعے ٹیکس چوری کو روکنا اس نقطہ نظر کو مزید تقویت دے سکتا ہے۔ اس وقت کرپشن کی وجہ سے ملک میں دولت کی تقسیم کا فرق گہرا ہوتا جا رہا ہے جو زیادہ تر وسائل کو صرف اشرافیہ تک محدود کر رہا ہے۔ انسدادِ بدعنوانی کے اداروں کی مضبوطی‘ سرکاری اخراجات میں شفافیت میں اضافہ اور بدعنوانی کیلئے سخت سزاؤں کا نفاذ اس حوالے سے ضروری اقدامات ہیں۔ ٹیکنالوجی اس حوالے سے بھی ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ سرکاری لین دین کیلئے بلاک چین کا استعمال اور عوامی ریکارڈ کو ڈیجیٹائز کرنے سے بدعنوانی کو چھپانا مشکل ہو جائے گا۔ یہ اصلاحات نہ صرف دولت کی منصفانہ تقسیم کیلئے بلکہ غیرملکی سرمایہ کاری اور ترقیاتی امداد کو ان لوگوں تک پہنچانے کو یقینی بنانے کیلئے بھی ضروری ہیں جنہیں ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
چھوٹے اور درمیانے کاروبار ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں جو روزگار اور جی ڈی پی میں نمایاں حصہ ڈالتے ہیں۔ ان کاروباروں کو مالی امداد‘ ٹیکس میں چھوٹ اور وسائل فراہم کرکے روزگار میں اضافہ‘ غربت میں کمی اور آئی ایم ایف کے قرضوں پر انحصار کو کم کیا جا سکتا ہے۔ وسائل کو بڑی کارپوریشنوں تک محدود رکھنے کے بجائے چھوٹے اور درمیانے کاروباروں کو ترجیح دینے سے ایک وسیع آبادی کو بااختیار بنایا جا سکتا ہے‘ دولت کو زیادہ یکساں طور پر تقسیم کیا اور ایک لچکدار معیشت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ مائیکرو لون‘ آسان لائسنسنگ اور انفراسٹرکچر کی بہتری جیسے اقدام چھوٹے کاروباروں کی ترقی کو مزید یقینی بنا سکتے ہیں۔
پاکستانی معیشت درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے جس سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھتا جا رہا ہے اور افراطِ زر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ زراعت‘ ٹیکسٹائل اور ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں خود کفالت پر توجہ دے کر درآمدات کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے‘ اس سے مقامی صنعتوں کو فروغ ملے گا جس سے ملکی آمدنی میں اضافہ ہو گا‘ قیمتی زرِ مبادلہ کی بچت ہو گی اور عالمی مالیاتی اداروں کے بیل آؤٹ پیکیج کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔ برآمدات کو متنوع بنانا‘ بالخصوص ٹیکنالوجی برآمدات میں اضافہ معیشت کو نمایاں طور پر مضبوط کر سکتا ہے۔پاکستان میں اس وقت سماجی تحفظ کے مضبوط نیٹ ورک کی کمی کی وجہ سے عدم مساوات اور غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ صحت کی دیکھ بھال‘ تعلیم اور خوراک کی حفاظت کے لیے ایک جامع فلاحی نظام کو نافذ کرنے سے غریب ترین افراد کا معیارِ زندگی بہتر ہو سکتا ہے۔ غیر مشروط نقد رقم کی منتقلی اور یونیورسل ہیلتھ کیئر جیسے پروگرام نہ صرف لوگوں کو غربت سے نکال سکتے ہیں بلکہ جرائم کو کم کرنے میں بھی معاون ثابت ہوں گے اور طویل مدت میں پیداواری صلاحیت میں اضافہ کریں گے۔تعلیم یافتہ اور ہنر مند افرادی قوت معاشی آزادی کیلئے ازحد اہم ہے۔ پاکستان کو تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت بالخصوص ٹیک اور جدید زراعت میں سرمایہ کاری کو ترجیح دینی چاہیے۔ ان مواقع کی فراہمی سے حکومت نوجوانوں کو زیادہ آمدنی والی صنعتوں میں حصہ لینے‘ برین ڈرین کو کم کرنے اور اپنے شہریوں کو مجموعی آمدن میں اضافے کیلئے اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کا موقع فراہم کر سکتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس سے غربت میں کمی آئے گی اور قرضوں پر انحصار کم ہو گا جس سے معاشی ترقی کی رفتار بڑھے گی۔
مالیاتی خود مختاری کے حصول اور ملک میں دولت کی تقسیم کے فرق کو کم کرنے کیلئے ایک مربوط اور کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے جو جمود کو چیلنج کرے۔ ٹیکسوں کا جدید نظام‘ انسدادِ بدعنوانی کے اقدامات‘ ایس ایم ایز کی حمایت اور تعلیم اور مقامی پیداوار میں سٹرٹیجک سرمایہ کاری کے ذریعے پاکستان ایک مساوی اور خود کفیل معیشت کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ بلاشبہ یہ سفر پیچیدہ ہے لیکن یہ اقدامات آئی ایم ایف کے قرضوں سے آزاد‘ پائیدار‘ خوشحال اور انصاف پسند پاکستان کیلئے ایک مکمل روڈ میپ پیش کرتے ہیں۔ اس طرح کا روڑ میپ معاشی آزادی کی طرف پہلا قدم ثابت ہو سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved