تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     14-11-2024

سائنس کی غلامی

ابتدا ہی میں مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ اسے ایک سنجیدہ کالم سمجھا جائے‘ طنزیہ نہیں۔
یوں بھی مجھے طنز لکھنا نہیں آتا کہ یہ ایک مشکل کام ہے۔ یہ ابنِ انشا کو ساجھے یا عطاالحق قاسمی صاحب کو۔ مجھے اپنی عزت عزیزہے۔ میں اسی میدان میں قدم رکھتا ہوں جہاں دو چار قدم چل سکوں۔ اس وضاحت کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ آج ایک ایسے مقدمے کے حق میں لکھ رہا ہوں‘ میں جس کا کبھی قائل نہیں رہا۔ مکمل قائل شاید اب بھی نہیں ہوں لیکن اسے ایک پہلو سے روا خیال کرتا ہوں۔ اس 'اثباتی‘ کالم کو امکان ہے کہ پڑھنے والے طنز سمجھیں‘ اس لیے اس وضاحت کی ضرورت پیش آئی۔ میں اس موضوع پر پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔ آج اس کی مزید شرح کر رہا ہوں۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کی ہوشربا پیش قدمی نے انسانی سماج کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔ مصنوعی ذہانت نے ایک ایسی دنیا پیدا کر دی ہے جس نے حقیقی ذہانت کو دفاعی جگہ پہ لا کھڑا کیا ہے۔ ابھی تک اس مصنوعی ذہانت کی باگ حقیقی ذہانت کے ہاتھ میں ہے۔ انسان کو مگر یہ خوف لاحق ہے کہ یہ باگ کسی لمحے اس کے ہاتھ سے نکل سکتی ہے۔ مصنوعی ذہانت نے ایسے مرد اور عورتیں بنا لیے ہیں جو صنفِ مخالف کی فطری ضروریات کے لیے کفایت کرتے ہیں۔ اس سے ازدواجی رشتہ خطرے میں ہے۔ مرد اور عورت ایک دوسرے سے بے نیاز ہو رہے ہیں۔
ترقی یافتہ دنیا میں شرحِ پیدائش تشویشناک سطح تک کم ہو رہی ہے۔ اب روس سے یہ خبر آئی ہے کہ لوگوں کو بچے پیدا کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ ایک تجویز یہ پیش کی گئی ہے کہ رات دس سے بارہ بجے تک انٹرنیٹ بند اور سب چراغ گل کر دیے جائیں۔ یہ اس تشویش کا اظہار ہے کہ ٹیکنالوجی انسانی رشتوں کا متبادل بنتی جا رہی ہے۔ انٹرنیٹ سے اگلا قدم مصنوعی ذہانت کی تخلیق ہے۔ میں اس موضوع پر پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ کیسے ٹیکنالوجی سماجی اقدار پر اثر انداز ہو رہی ہے اور زندگی گزارنے کے اسالیب ہم پر بالجبر نافذ کررہی ہے۔ اس سے ایک نیا معاشرہ وجود میں آ رہا ہے جو روایتی معاشرے کی جگہ لے لے گا۔ جو لوگ قدیم معاشرتی اقدار پہ یقین رکھتے ہیں‘ اس صورتحال میں وہ کیا کریں؟
اگر وہ اس ارتقائی عمل کا حصہ بنتے ہیں تو ان کے پاس راستے کے انتخاب کا حق نہیں ہے۔ انہیں اس بہاؤ کے ساتھ بہنا ہو گا۔ وہ مزاحمت کریں گے تو اپنا وجود داؤ پر لگائیں گے۔ یہ خطرہ کم لوگ ہی مول لیتے ہیں۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ وہ اس عمل سے الگ ہو جائیں۔ وہ اس راستے ہی کو چھوڑ دیں جس پر دنیا کا سفر جاری ہے۔ جو انسانی قافلے کے ہم رکاب ہو چکے‘ ان کے لیے تو الگ ہونا کم و بیش ناممکن ہو چکا۔ انہیں اب سوچنا ہے کہ کیا وہ اپنی مرضی سے کوئی قدم اٹھا سکتے ہیں اور اگر اٹھا سکتے ہیں تو انہیں یہ آزادی کب تک میسر رہے گی؟ ایسے لوگوں کے اپنے ہاتھ میں تو اب کچھ نہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا دوسرا راستہ ممکنات میں سے ہے؟ کیا انسانی قافلے سے الگ ہو کر کوئی راستہ تلاش کیا جا سکتا ہے؟ میں نے اسی سوال کا جواب تلاش کرتے ہوئے طالبان کا ذکر کیا تھا اور اس امکان کا اظہار کیا تھا کہ ان کے پاس یہ راستہ موجود ہے۔ آج ایسا نہیں ہے کہ افغانستان انسانی قافلے سے بچھڑا ہوا ہے۔ وہاں بھی نئے عہد کے رنگ موجود ہیں۔ میرا کہنا یہ ہے کہ طالبان نے کورانہ تقلید سے انکار کیا ہے۔ گویا اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ متبادل راستہ اپنا سکتے ہیں۔ میری تجویز ہے کہ انہیں اس کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے۔ آج طالبان شاید واحد قوت ہیں جو اس بارے میں سوچ سکتے ہیں۔ ان کے پاس کھونے کو کچھ نہیں۔ نہ ان پر کوئی قرض ہے اور نہ وہ کسی کے پابند ہیں۔ اگر کوئی بین الاقوامی ذمہ داری ہو بھی تو وہ یہ حوصلہ رکھتے ہیں کہ خود کو اس سے آزاد کر لیں۔ اس لیے اگر وہ چاہیں تو اس وقت دنیا کے سامنے ایک ایسے معاشرے کی تصویر رکھ سکتے ہیں جہاں انسان نے اپنی زندگی کی باگ سائنس کو پکڑانے کے بجائے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے۔
اس طرح کا تجربہ انفرادی سطح پر ہم بھی کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم میں سے کوئی یہ فیصلہ کر لے کہ وہ ایک ایسی جگہ جا بسے گا جہاں بجلی ہو گی نہ کوئی نئی ایجاد۔ وہ گرمی سردی کا اسی طرح سامنا کرے گا جیسے 30‘ 40برس پہلے ہماری اکثریت کیا کرتی تھی۔ میں نے اپنا بچپن لالٹین کی روشنی میں گزارا ہے۔ میں نے تختی لکھی ہے اور ابتدائی تعلیم میں کتاب سے بہت کم استفادہ کیا ہے۔ میرے والد گرامی کو زندگی کی سہولتیں مجھ سے بھی کم میسر تھیں مگر ان کی علمی سطح مجھ سے بلند تھی۔ میرے پاس آج بھی ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا 'ارمغانِ حجاز‘ کا نسخہ محفوظ ہے۔ گویا ان سہولتوں کے بغیر بھی ایک اچھی زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ کہنا یہ ہے کہ میں کسی یوٹوپیا کی بات نہیں کر رہا۔ یہ میرا اپنا تجربہ ہے۔ میں اپنے بچوں کو تو قائل نہیں کر سکتا مگر خود تو وہ زندگی گزار سکتا ہوں جو میں ایک بار پہلے بھی گزار چکا۔
طالبان اگر شعوری کوشش کریں اور زندگی کو اسی طرح سادہ بنا دیں جیسے وہ ایک صدی پہلے تھی تو میرا خیال ہے کہ وہ عالمِ انسانیت کو ایک متبادل ماڈل دے سکتے ہیں۔ سو سال پہلے کی زندگی متوازن تھی۔ جو مصنوعی ذہانت کے ہاتھوں تنگ ہے‘ وہ افغانستان جا آباد ہو۔ وہاں کے پبلک لاء کو قبول کرے اور عائلی معاملات میں امید ہے کہ طالبان اسے مکمل آزادی دیں گے جیسے امام ابوحنیفہؒ نے دی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی غیرمسلم اپنے علاقے میں شراب کا کاروبار کرتا ہے تو اسے اجازت ہے۔ ہماری روایتی فقہ میں شخصی احوال میں ریاست کو مداخلت کی اجازت نہیں ہے۔
میری تو خواہش ہوگی کہ ہمارے ہاں بھی ایک تحریک اٹھے اور ایسی بستیاں آباد کی جائیں جہاں نئی ٹیکنالوجی کا داخلہ ممنوع ہو۔ ایسی جگہ کا انتخاب کیا جائے جہاں موسم معتدل ہو۔ امیش (Amish) کی طرح‘ لوگ قدیم عہد کی زندگی گزاریں جو جدید ٹیکنالوجی سے نالاں ہیں۔ میں ایسی بستی میں رہنا پسند کروں گا۔ بچوں سے ملنے‘ جدید شہر میں کبھی کبھی آ جایا کروں گا۔ ممکن ہے لوگ اسے دیوانے کا خواب سمجھیں یا طنز۔ اس لیے میں نے ابتدا ہی میں واضح کیا ہے کہ اسے ایک سنجیدہ کالم سمجھا جائے۔ میں یہ تجویز سنجیدگی کے ساتھ پیش کر رہاہوں۔
طالبان مانیں نہ مانیں مگر ہم میں سے کوئی یہ جرأت کر سکتا ہے۔ میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جنہوں نے ہم خیال دوستوں کی بستی آباد کرنے کا خواب دیکھا اور پھر اس کی کوشش بھی کی۔ ایسی کوششوں میں مگر اس سوچ کا گزر نہیں تھا کہ دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے جاری عمل کے اثر سے پا ک بستی بسانی ہے۔ میرا احساس ہے کہ انسان سائنس کی غلامی سے بہت جلد اکتاہٹ محسوس کرتے ہوئے اس کے خلاف بغاوت کرے گا اور متبادل تلاش کرے گا۔ کیوں نہ ہم میں سے کوئی ابھی سے اس کی تیاری شروع کر دے۔ ایک طرف کچھ لوگ مریخ پر جا رہے ہوں اور دوسری طرف کچھ دیوانے زمین کو اس کی فطری حالت میں بحال کر رہے ہوں۔ انسانوں کے پاس انتخاب کا حق ہو کہ وہ جس طرف جانا چاہیں قدم بڑھا لیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved