گزشتہ صدی کا دوسرا حصہ ایسے صنعتی دور میں داخل ہوا کہ لوگوں کی آبادیاں اِدھر اُدھر ہونے پر مجبور ہو گئیں۔ اندرونی نقل مکانی صنعتی ممالک میں اس سے بھی ایک صدی پہلے شروع ہو چکی تھی‘ جب دیہاتیوں کے لیے کاشت کاری منافع بخش نہ رہی تھی اور اکثر یورپ میں جاگیرداروں کی غلامی سے آزادی کے حصول کی جدوجہد میں نئے ابھرتے ہوئے آبادی کے دھڑے تجارتی قصبوں کا رخ کرنے لگے تھے۔ نو آبادیاتی ممالک‘ جیسے ہمارے خطے کے ممالک ہیں‘ ان سے اور افریقی ریاستوں سے آزادی کے بعد کچھ لوگ تعلیم‘ حصولِ روزگار‘ تجارت اور کچھ مغربی تہذیبی روایات سے متاثر ہو کر اپنا رخ مغرب کی طرف کرنے لگے تھے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے میں قیام کے دوران‘ 40 سال پہلے یہ پڑھ کر حیران ہو گیا کہ پنجاب سے کئی خواتین بھی انیسویں صدی کے آخری حصے میں وہاں تعلیم کے لیے گئیں‘ اور یہ صرف ایک یونیورسٹی کی بات ہے۔ روشن خیال پڑھے لکھے گھرانوں میں‘ برصغیر کے ہر حصے میں یہ عام بات تھی کہ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ اور امریکہ بھیجا کرتے تھے۔ اپنا اندازہ یہ ہے کہ بنگال اس سلسلے میں سب سے آگے تھا۔ وجہ یہ تھی کہ انگریزی دور کا آغاز اور اس ابھرتی سلطنت کا مرکز وہاں قائم تھا۔ ہماری اپنی آزادی کے بعد برطانیہ نے خصوصی طور پر امیگریشن کے دروازے کھول دیے تھے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد صنعتیں چلانے کے لیے انہیں افرادی قوت کی ضرورت تھی‘ دیگر سامراجی ممالک نے بھی اپنی اپنی کالونیوں کو ترجیح دی۔ ان لوگوں کو زبان اور مہارت سکھائی گئی تاکہ وہ نئی صنعتی ریاستوں کے متحرک اراکین بن سکیں۔ اب 80 سال کے بعد بھی یہ سلسلہ مغرب اور امریکہ میں بسنے کا جاری ہے مگر اب ایسا کرنا آسان نہیں رہا۔ آپ کے پاس ان کی نئی معیشتوں کو چلانے کے لیے اعلیٰ تعلیم ہونی چاہیے۔ امریکہ اور برطانیہ میں ہمارے ملک کے کئی دیہات سے ہزاروں کی تعداد میں ہر سال طلبہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں اور اکثریت وہاں اپنا ٹھکانہ بنا لیتی ہے۔ ان میں شاید ہی کوئی لوٹ کر واپس آتے ہوں۔ جنہیں میں خود اپنے طالب علمی کے زمانے میں اور بعد میں کئی بار کئی سال گزارنے کے دوران ملا‘ کسی کو واپس پاکستان میں بستے نہیں دیکھا۔ سب وہاں کے ہو کر رہ گئے ہیں۔
تارکینِ وطن دنیا کے ہر کونے سے مغرب میں بس رہے ہیں تو ان کی زندگیوں‘ سماجی اور نفسیاتی کیفیت‘ ثقافتی رنگوں اور ان کی مغربی معاشروں میں علیحدہ شناخت‘ زبان اور اپنی نسل کے حوالوں سے پورا ایک نیا علمی میدان کھل گیا ہے۔ اسے 'ڈیاسپورا سٹڈیز‘ کہتے ہیں‘ یعنی تارکین وطن کی حیاتِ نو کا مطالعہ۔ ڈاکٹر منظور اعجاز پنجابی تاریخِ ادب کا ایک بڑا نام ہے۔ ہم جامعہ پنجاب میں اکٹھے پڑھتے تھے اور ایک ہی ترقی پسند طلبہ تنظیم سے وابستہ تھے۔ وہ فلسفے اور سیاست کے شعبے میں تھے۔کسی کھلے میدان میں ان کی محفل روزانہ لگتی تھی اور سگریٹ اور چائے کے کئی ادوار پر محیط باتیں نظریات‘ فلسفوں‘ تاریخ اور ادب پر ہوتی تھیں۔ ان سے میں نے بہت کچھ سیکھا اور ہماری رفاقت بطور استاد جامعہ پنجاب میں بھی جاری رہی۔ ان کے بارے میں تفصیل سے‘ خاص طور پر ان کی نئی کتاب ''پنجاب کی عوامی تاریخ‘‘ کے حوالے سے انہیں تیسرے مارشل لا کے دور میں تارکِ وطن ہونا پڑا۔ وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور وہیں زندگی گزارنے لگے۔ جب بھی مجھے واشنگٹن ڈی سی جانا ہو‘ ان سے ملاقات ضرور ہوتی ہے اور اکثر جب وہ پاکستان آتے تو ان سے دعا سلام رہتی۔ اپنی وہاں ایک محفل میں رازداری سے پوچھا کہ یہاں خوش ہو؟ کہنے لگے: خوشحال ضرور ہوں لیکن خوش نہیں ہوں۔ پہلی نسل کے تارکینِ وطن کی ذہنی صورتحال چند لفظوں میں ہی انہوں نے بیان کر دی۔
ایک اور بات جو اکثر تارکینِ وطن میں دیکھی ہے وہ ایک دن میں واپس آ کر اپنے ملک میں زندگی گزارنے کی بابت ہے۔ یہ کیفیت ہمارے لوگوں کی نہیں‘ دنیا میں کسی بھی ملک میں تارکینِ وطن ہوں ان میں سے غالب اکثریت کے لیے واپسی ایک خواب ہی رہتی ہے کہ عملی زندگی کے تقاضے نئے ملکوں کی زنجیروں میں باندھ دیتے ہیں۔ شاید واپس بھی لوگ آتے ہیں‘ اپنے اس خواب کی تعبیر میں مگر یہاں ان کی سماجی دنیا ہی بدل چکی ہوتی ہے۔ اور پھر یہاں کی انتظامی بدحالی‘ سیاسی جنگ‘ کرپشن اور لاقانونیت میں چند ماہ میں ان کا دم گھٹنا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ صرف پہلی نسل کے تارکین کی بات ہو رہی ہے۔ اگلی نسل تو ہر جگہ اپنا مقام بنا لیتی ہے۔ اور پھر والدین وہاں پر ہوں‘ دوست اور نوکری بھی‘ تو بزرگوں کا ملک ایک تاریخی حوالے سے کچھ زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ اپنے وطن کی یاد اور اس سے محبت ایک فطری جذبہ ہے جو کچھ صورتوں میں دوسری اور تیسری نسل تک بھی جاری رہتا ہے۔ اگر پہلی نسل نے اپنے سماج‘ روایات اور اپنی سرزمین سے تمام رشتے توڑ نہ لیے ہوں‘ انہیں اپنے ملک کے حالات کے بارے میں ہمیشہ فکر مند دیکھا ہے۔ یہ ان کی حب الوطنی اور خلوص کا ثبوت ہے کہ وہ دیگر معنوں میں اسے مضبوط‘ مستحکم‘ باوقار‘ آزاد اور خوشحال دیکھنے کے متمنی ہیں۔ اپنے نئے ملک جیسا اسے دیکھنا چاہتے ہیں‘ اور یہ خیال سب لوگوں کے ذہنوں میں تواتر سے گزرتا رہتا ہے کہ ہم میں بحیثیت قوم‘ نسل اور تہذیب کسی دوسرے ملک‘ قوم اور لوگوں کی نسبت نہ کوئی کمی ہے اور نہ ہمارے ہاں قدرتی وسائل محدود ہیں‘ تو پھر ہم دنیا میں دھکے کیوں کھا رہے ہیں؟ کہیں ہماری عزت کیوں نہیں؟ اور اب ہر سال لاکھوں اپنا ملک چھوڑ دیتے ہیں۔ جہاں جگہ ملتی ہے‘ چلے جاتے ہیں۔ یہ لوگ کیوں تارکینِ وطن کی صفوں میں شامل ہو رہے ہیں؟ ہم نے نہ تارکینِ وطن کے موضوع کو سمجھا ہے اور نہ ہم نے ان کو وہ مقام اور عزت دی ہے جو ہمارے پڑوسی ملک دے رہے ہیں۔
مغرب میں تو زیادہ تر اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ گئے ہیں مگر لاکھوں کی تعداد میں ہمارے عام مزدور خلیج کی ریاستوں اور سعودی عرب میں محنت اور جاں فشانی سے زرمبادلہ کما کر پاکستان روانہ کر رہے ہیں۔ مجموعی طور پر تارکین وطن کی ترسیلِ زر اب ہماری تمام تر برآمدات کے قریب قریب ہے جو گزشتہ سال 30 ارب ڈالرز تھی۔ مغرب میں پاکستانی بہت مختلف ہیں۔ انہیں آزادی حاصل ہے‘ وہ خوشحال ہیں اور سب سیلف میڈ ہیں۔ اپنی محنت اور صلاحیتوں کو اجاگر کر کے انہوں نے اپنا مقام بنایا ہے۔ یقین جانیں‘ وہ ہمارے ملک کا بہت بڑا اثاثہ ہیں جو ہم ضائع کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ انہیں بھی اجتماعی سزا کا سامنا ہے کہ ایسے میں اکثریت ایک معتوب پارٹی اور اس کے بانی کو صحیح یا غلط‘ دوبارہ پٹڑی پر ڈالنے کا اہل خیال کرتی ہے۔ دوسروں سے‘ جو ان کے مطابق نصف صدی سے ہمارے اوپر ایک عذاب کی طرح مسلط ہیں‘ کوئی امید نہیں۔ وہ بہت ناراض ہیں۔ اس ناراضی کا اظہار ان میں سے کچھ ہمارے اعلیٰ ترین عہدے داروں کے ساتھ بدکلامی اور بدتمیزی کی صورت بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے ساتھ بھی وہی روایتی پکڑ دھکڑ‘ یہاں بیٹھ کر انہیں گرفتار کروا کر یہاں کے نظام انصاف‘ جو اَب تو اپنی شفافیت‘ خودمختاری اور غیر جانبداری میں بڑے بڑے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے‘ کے حوالے کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے مدبر اس سبز شاخ کو بھی کاٹنے پر مصر ہیں‘ جو اب رہ ہی کتنی گئی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved