ڈونلڈ ٹرمپ اور ایلون مسک کی دوستی کیا گل کھلائے گی؟ دنیا کیا ایک نئے طرزِ حیات کی دہلیز پر کھڑی ہے؟
ٹرمپ سیاست میں پاپولزم اور مسک مصنوعی ذہانت کی علامت ہیں۔ پاپولزم سیاست کے مروجہ آداب سے انحراف کا نام ہے۔ سیاست ایک منضبط عمل ہے جو کسی نہ کسی ضابطے کا پابند ہوتا ہے۔ جمہوریت ایک ضابطہ ہے اور بادشاہت بھی۔ بادشاہ بظاہر مطلق العنان ہوتا ہے۔ تاریخ مگر بتاتی ہے کہ بادشاہت بھی قائم نہیں رہ سکتی اگر اسے کسی نظم کا پابند نہ بنایا جائے۔ جمہوریت تو ہے ہی سراپا نظم۔ پاپولزم کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ یہ انسانی خواہشات کے بے مہار اظہار کا نام ہے۔ اس کا روایتی مظہر فلم کا وہ ہیرو ہے جو قوانین و ضوابط کی دھجیاں اڑاتا اور مقصد کو ذرائع سے اہم قرار دیتا ہے۔ ظالم کو اس کے انجام تک پہنچانا اگر مقصد ہے تو پھر یہ بات غیر اہم ہے کہ اس کے لیے قانونی راستہ چنا جائے یا غیر قانونی۔ پاپولزم حقیقی سیاست کا ایسا ہی واقعہ ہے۔
مصنوعی ذہانت نے سائنسی تحقیق کو ایک ایسی جگہ لا کھڑا کیا ہے جہاں کچھ بھی ممکن ہے۔ اس نے ایک اَن دیکھی دنیا کو جنم دیا ہے جس نے دکھائی دینے والی دنیا کو اپنا تابع بنا لیا ہے۔ ایک نظر آنے والا انسان‘ ایک اَن دیکھی قوت کے زیرِ اثر ہے یا یوں کہیے کہ ایک ایسی دنیا میں زندگی گزارتا ہے جو مادی اعتبار سے قابلِ دید نہیں۔ اس کے مشاغل‘ اس کی سرگرمیاں اسی دنیا سے متعلق ہیں۔ وہ اس دنیا کا باسی نہیں رہا جس میں وہ بظاہر زندہ ہے۔ وہ اسے حقیقی سمجھتا ہے جو حقیقی نہیں ہے۔ اب تو ورچوئل شہر آباد ہو رہے ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کو قابو میں لایا جا رہا ہے۔ لوگوں کو کیا سوچنا چاہیے‘ ان کو کیا پہننا چاہیے‘ ان کا طرزِ حیات کیا ہو‘ اس کا فیصلہ اب کوئی اور کرتا ہے۔ جس دنیا میں یہ فیصلے ہونے ہیں اس کا اقتدار ایلون مسک کے ہاتھوں میں جا رہا ہے۔ دیکھی دنیا کا اقتدار ٹرمپ کے پا س ہے اور اَن دیکھی دنیا کا مسک کے پاس۔ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دونوں کے اتحاد کا کیا نتیجہ ممکن ہو سکتا ہے۔
اَن دیکھی دنیا کا یہ تصور نیا نہیں ہے۔ تصوف میں اس دنیا کے وجود کو مانا گیا ہے۔ زمینی زندگی کے متوازی ایک روحانی نظام بھی چل رہا ہے۔ اس زمینی زندگی کے بارے میں فیصلے بھی دراصل وہ لوگ کرتے ہیں جن کے پاس روحانی دنیا کا اقتدار ہے۔ انہیں رجال الغیب کہا جاتا ہے۔ غوث‘ قطب‘ ابدال اسی دنیا کے مناصب ہیں جن پر فائز لوگ اس مادی یا زمینی دنیا کے بارے میں فیصلے کرتے ہیں۔ کسے اقتدار ملنا ہے‘ کہاں زلزلہ آنا ہے‘ زمین پر کیا تبدیلیاں آئیں گی‘ یہ فیصلے اس روحانی دنیا میں ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی زمینی اور روحانی اقتدار کے حاملین میں اتحاد بھی ہو جاتا ہے۔ جیسے کوئی ولی دنیا کا بادشاہ بن جائے یا بادشاہ کسی قطب ابدال کا مرید ہو۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے انسانوں کے لیے خیر پیدا ہوتا ہے۔ پھر روحانی اور زمینی کی تقسیم ختم ہو جاتی ہے۔ یہ وہ کیفیت ہے جسے اقبال نے منظوم کر دیا ہے:
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں‘ کارکُشا‘ کارساز
میں اس وقت اس تصور کے حق یا ردّ میں کچھ نہیں کہہ رہا۔ صرف ایک مثال سے اپنی بات واضح کر نا چاہتا ہوں کہ دو دنیاؤں کے تصورات ہماری روایت میں بھی موجود ہیں۔ ہماری ہی نہیں‘ یہ فلسفے کی مشترکہ روایت ہے‘ مابعد الطبیعیات جس کا حصہ ہے۔ ایک روحانی اور ایک مادی دنیا۔ عالمِ امثال کی بات افلاطون نے بھی کی ہے۔
اس وقت صورتحال کچھ ایسی ہی ہے۔ ایک نئی متوازی دنیا وجود میں آ چکی۔ اس کی باگ کسی دوسرے کے ہاتھ میں ہے۔ کچھ وقت پہلے یہ دکھائی دیتا تھا کہ جن کے ہاتھ میں اس مادی دنیا کا اقتدار ہے‘ وہ اس ورچوئل دنیا کی حدود کا تعین کر رہے ہیں۔ مصنوعی ذہانت اس دنیا پر جو اثرات مرتب کر سکتی تھی‘ اس کا راستہ بند کر دیا گیا تھا۔ مثال کے طور پر جب کلوننگ سے ایک بھیڑ کے سیلز سے اس جیسی بھیڑ بنا لی گئی تو انسانوں پر اس کے تجربے کو حکماً روک دیا گیا۔ اس سے سماجی نظام درہم برہم ہو جاتا۔ یہ انسانی اقدار کو بچانے کی ایک کوشش تھی۔ اب اگر دنیا کا اقتدار بھی ان لوگوں کے ہاتھوں میں چلا جائے جو ان اقدار کے بارے میں زیادہ حساس نہ ہوں اور ان کا ورچوئل دنیا کے ان ناخداؤں سے اتحاد ہو جائے تو پھر انسانی معاشرت کی ٹوٹ پھوٹ کو کیسے روکا جا سکے گا؟
ٹرمپ ریپبلکن نمائندے ہیں جو روایت کے حامی ہیں۔ ان کی افتادِ طبع مگر ایسی ہے کہ وہ روایت شکن ہیں۔ انہوں نے ریپبلکن سیاست کو یرغمال بنا لیا ہے۔ پاپولزم کسی روایت کا پابند نہیں ہوتا۔ وہ اگر روایت کی بات کرتے ہیں تو مقصد اس سے سیاسی مفاد کشید کرنے کی حد تک ہوتا ہے‘ جیسے ہمارے ہاں لبرل مزاج کے حکمران اسلام کی بات کرتے ہیں۔ ٹرمپ کا طرزِ سیاست بھی یہی ہے۔ ٹرمپ کی جیت سے مسک کے وسائل میں ایک دن میں 26.5 بلین ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ ٹرمپ کا مسک کے ساتھ اتحاد اور دوستی اگر نظام پر اثر انداز ہوتے ہیں تو امکان ہے کہ دنیا ایک نئے عہد میں داخل ہو جائے۔
یہ کہنا تو شاید مشکل ہو کہ چار برس میں دنیا بدل جائے گی مگر یہ امکان رد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ایک نئے دور میں داخل ہو جائے۔ روایت ظاہر ہے کہ کوئی کمزور قوت نہیں ہوتی۔ وہ مزاحمت کرتی ہے۔ یہ مزاحمت مگر روز بروز کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ اس وقت دنیا میں جنگ نظریات یا اخلاق کی نہیں ہے‘ یہ طاقت کی جنگ ہے۔ امریکہ‘ چین‘ روس‘ سب کی کوشش ہے کہ ورچوئل دنیا پر بھی ان کی حکمرانی ہو اور زمین پر بھی۔ عالمی قوتوں میں کوئی ایسی نہیں جو انسانی اقدار کے لیے کھڑی ہو۔ پہلے جو لڑائی زمین پر قبضے کے لیے لڑی جاتی تھی‘ اب وہ اس روحانی دنیا پر قبضے کے لیے ہو گی جسے مصنوعی ذہانت نے جنم دیا ہے۔
دنیا کے اس ابھرتے ہوئے منظر نامے میں ہم کہیں نہیں ہیں‘ اگرچہ ہمارے پاس ایک متبادل تصورِ حیات موجود ہے۔ ہماری ذہانتیں کسی اور کام میں صرف ہو رہی ہیں۔ ہمیں اس بدلتے موسم میں اپنا کردار متعین کرنا ہے۔ عالمِ اسلام بدقسمتی سے سطحی جذباتیت کا شکار ہے۔ اس کی سیاسی اور فکری قیادت مسلمانوں کی بربادی میں آسودگی محسوس کرتی ہے۔ اس قیادت نے ہمیں ایسی قوم بنا دیا ہے‘ نوحہ خوانی جس کا وظیفہ بن چکا اور جو موت کو گلیمرائز کرکے اپنی نفسیاتی تسکین کا سامان کرتی ہے۔ مسلمانوں نے انہیں آئیڈلائز کیا جنہوں نے اپنی سادہ لوحی میں غزہ کی بستی کو قبرستان بنانے میں اسرائیل کے ہر اوّل دستے کا کردار ادا کیا۔
دنیا کو ایک ایسے نظامِ فکر کی ضرورت ہے جو تسخیرِ فطرت کے عمل کو الٰہی سکیم سے ہم آہنگ بنا سکے۔ اس وقت یہ تصادم کی راہ پر ہے۔ تصادم کا انجام تباہی ہے۔ ٹرمپ‘ مسک اتحاد سے اس تصادم کو مہمیز ملے گی۔ اس کو روکنے کے لیے ایک اخلاقی مداخلت کی ضرورت ہے۔ یہ صلاحیت صرف مذہب کے پاس ہے‘ اگر وہ علم کے الہامی سرچشمے سے کشید کی جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اہلِ مذہب میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ یہ مقدمہ پیش کر سکیں؟
(پس تحریر: کالم مکمل ہوا تو یہ خبر پڑھی کہ ایلون مسک نے اقوامِ متحدہ میں ایرانی مندوب سے خفیہ ملاقات کی ہے۔ اس سے آنے والے دنوں کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ یہی ٹرمپ تھے جن کے پہلے دورِ اقتدار میں قاسم سلیمانی کوعراق میں قتل کیا گیا تھا)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved