مشرق وسطیٰ کو نئے امریکی صدر ٹرمپ سے کیا امیدیں وابستہ ہیں؟ اس خطے کے بڑے ایکٹرز یعنی ایران‘ عرب ممالک‘ حماس‘ حزب اللہ اور اسرائیل و امریکہ کی خواہشات ایک دوسرے سے مختلف ہی نہیں بلکہ متصادم ہیں۔ حماس‘ حزب اللہ‘ ایران اور عرب ممالک تو چاہیں گے کہ ٹر مپ غزہ اور لبنان میں اسرائیلی جارحیت کو روکیں‘ یعنی غیر مشروط جنگ بندی کے علاوہ غزہ سے افواج کے انخلا اور بے گھر ہونے والے لاکھوں فلسطینیوں کو اپنے گھروں میں بلا روک ٹوک واپس آنے کے راستے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ڈالیں۔ اپنی صدارتی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ متعدد بار اس ارادے کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ یوکرین کے علاوہ غزہ میں بھی جنگ بندی کرائیں گے لیکن اس سے مراد امن کا قیام یا فلسطینیوں کو انصاف کی بہم رسائی نہیں بلکہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو‘ جو نہ صرف پوری دنیا کی نظر میں جنگی مجرم بن چکے ہیں بلکہ انہیں اسرائیلی عوام اور خود اپنی کابینہ کی طرف سے بھی مخالفت کا سامنا ہے‘ کو وقفہ مہیا کرنا ہے تاکہ مخالفین وقتی طور پر خاموش ہو جائیں اور غزہ کی تباہی اور فلسطینیوں کے قتلِ عام میں جو کسر باقی رہ گئی ہے‘ اسے پورا کیا جا سکے۔ ڈونلڈ ٹرمپ سے توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ حلف اٹھاتے ہی اسرائیل کو سیز فائر کیلئے کہہ دیں بلکہ وہ نیتن یاہو کو غزہ میں حماس کے مکمل خاتمے اور غزہ پٹی کو فلسطینیوں کیلئے مکمل طور پر ناقابلِ رہائش بنانے کے اپنے مشن کو پورا کرنے دیں گے تاکہ تباہی اور بربادی کے ماحول میں اسرائیل کو ہوائی حملوں اور ٹینکوں سے گولہ باری کی ضرورت باقی نہ رہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ‘ فلسطینیوں کیلئے جوبائیڈن سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے پیشرو کی طرح کبھی بھی غزہ میں فوری سیز فائر کا مطالبہ نہیں کیا‘ نہ ہی اسرائیل اور فلسطین کی دو آزاد اور علیحدہ‘ خود مختار ریاستوں پر مبنی مسئلہ فلسطین کے مستقل اور پائیدار حل کی حمایت کی ہے بلکہ امریکی سفارتخانے کی تل ابیب سے بیت المقدس منتقلی کے جس اقدام کو امریکی صدور 50 سال سے زیادہ عرصہ تک مؤخر کرتے رہے‘ ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ اور عالمی رائے عامہ کی مخالفت کے باوجود 2018ء میں اس کا اعلان کر دیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ غزہ میں 1974ء والی ویتنام جنگ بندی کی مثال دہرانا چاہتے ہیں۔
1974ء میں پیرس کے امن مذاکرات کی کامیابی کے باوجود‘ امریکہ نے جنوبی ویتنام میں اپنی افواج کے خلاف لڑنیوالی ویت کانگ فورسز کی سپلائی لائن‘ ہوچی من ٹریل پر بھاری بمباری جاری رکھی۔ ایک اندازے کے مطابق اس سپلائی لائن پر امریکہ نے 40 لاکھ ٹن بارودی بم گرائے جو دوسری عالمی جنگ کے دوران گرائے گئے بموں سے دوگنا تھے۔ اس بمباری کا مقصد پیرس امن مذاکرات میں طے پانے والے جنگ بندی کے معاہدے پر باقاعدہ عمل درآمد سے قبل شمالی ویتنام اور جنوبی ویتنام میں امریکہ کے خلاف مزاحمت کرنے والی ویت کانگ افواج کا مکمل خاتمہ تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نیتن یاہو پر جو زور دے رہے ہیں اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کیلئے کوئی جائے پناہ نہ چھوڑی جائے تاکہ نیتن یاہو کے اس منصوبے پر عمل درآمد کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ رہے‘ جس کے تحت غزہ اور اس کے ساتھ مغربی کنارے پر آباد فلسطینیوں کو‘ فلسطین سے نکال کر اردن اور مصر میں آباد کر کے مسئلہ فلسطین کو مستقل طور پر حل کرنا ہے۔ اسرائیل اور مقبوضہ عرب علاقوں یعنی دریائے اردن کے مغربی کنارے اور غزہ میں صدیوں سے آباد فلسطینیوں کو اردن میں دھکیلنے کا منصوبہ بہت پرانا ہے مگر اسے نہ صرف فلسطینیوں اور عربوں نے سختی سے رد کیا بلکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں میں فلسطینی قوم کے علیحدہ وطن کے حق کو تسلیم کر کے ان کے نہ صرف غزہ اور مغربی کنارے میں رہنے بلکہ 1948ء میں پہلی عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں لاکھوں بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کے دوبارہ اپنے گھروں میں آباد ہونے کے حق کو بھی تسلیم کیا گیا۔ اسرائیل نے 1948ء اور 1967ء کی جنگوں کے بعد فلسطینیوں کے علیحدہ تشخص کو ملیا میٹ کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا‘ اس کے خیال میں فلسطینیوں کا وطن اردن ہونا چاہیے۔ صہیونی ریاست کی وزیراعظم گولڈا میئر سے جب فلسطینیوں کے قومی حقوق کا ذکر کیا جاتا تھا تو ان کا ترت جواب ہوتا تھا: فلسطینی کون ہیں؟ میں ان کو اردنی لوگوں سے علیحدہ نہیں سمجھتی۔
فلسطینیوں کو فلسطین سے نکال کر عرب ملکوں یا اس کے علاوہ باہر کسی اور خطے میں آباد کرنے کے منصوبے کا اب دوبارہ شد و مد سے ذکر ہو رہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل کے انتہا پسند‘ جن کی نمائندگی نیتن یاہو کر رہے ہیں‘ غزہ میں جاری جنگ کو ''گریٹر اسرائیل‘‘ کے خواب کو پورا کرنے کا ایک موقع تصور کر رہے ہیں۔ اس موقع کے حصول کی کوششیں شروع سے ہو رہی تھیں مگر 1967ء کی جنگ کے بعد‘ کہ جب اسرائیل نے مغربی کنارے‘ مشرقی بیت المقدس اور غزہ کے ساتھ شام میں گولان کی پہاڑیوں پر بھی قبضہ کر لیا تھا‘ پہلی دفعہ یہ موقع ہاتھ آیا ہے۔ 1967ء میں مزید عرب علاقوں پر قبضے کے بعد ہی بیت المقدس کو ہمیشہ کیلئے اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے کر اعلان کیا گیا کہ اسرائیل کبھی بھی 1967ء سے پہلے کی سرحدیں قبول نہیں کرے گا۔ حالانکہ پوری ریاست فلسطین میں اس وقت بھی یہودیوں کی تعداد فلسطینی عرب باشندوں سے خاصی کم تھی۔ اس میں اضافہ کرنے کیلئے اسرائیلی حکومت نے دنیا بھر کے یہودیوں کو اسرائیل میں آباد ہونے کی اپیل کی اور ان کے قیام کیلئے بیت المقدس کے اردگرد اور مغربی کنارے کے فلسطینی اکثریتی علاقوں میں یہودی بستیاں تعمیر کرنا شروع کر دیں تاکہ ان تمام علاقوں کو اسرائیل میں ضم کر دیا جائے مگر اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کی نظر میں یہ تمام اقدامات غیر قانونی تھے کیونکہ غزہ اور دریائے اردن کا مغربی کنارہ مقبوضہ علاقے ہیں اور اسرائیل ان میں یہودی آباد کاروں کیلئے بستیاں تعمیر نہیں کر سکتا۔
درحقیقت 1973-74ء کی جنگ میں اسرائیل مصر اور شام کے مشترکہ حملے میں شکست کھا چکا تھا مگر امریکہ نے اسے مکمل شکست سے بچایا اور اس جنگ نے ثابت کیا کہ مسئلہ فلسطین زندہ ہے اور ''صہیونی‘‘ گریٹر اسرائیل کا خواب پورا نہیں کر سکتے۔ اس لیے 1993ء میں اسے اسرائیل کے ساتھ ایک علیحدہ اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کے منصوبے پر متفق ہونا پڑا مگر وزیراعظم اضحاق رابن (Yitzhak Rabin) کے نومبر 1995ء میں قتل سے دو ریاستی فارمولے پر مزید پیشرفت نہ ہو سکی۔ اسی دوران اسرائیل کی سیاست پر انتہا پسند یہودیوں نے قبضہ کرلیا اور دریائے اردن کے مغربی کنارے پر یہودی بستیوں کی تعمیر تیز کر دی گئی۔ ایک اندازے کے مطابق ان غیر قانونی یہودی بستیوں میں پانچ سے سات لاکھ یہودی رہتے ہیں اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مغربی کنارے میں اتنی بڑی تعداد میں یہودی آباد کاری اور اب غزہ پر لگاتار حملوں سے فلسطینی آبادی کو نقل مکانی پر مجبور کر کے اسرائیل دو ریاستی منصوبے کو دفن کرنا چاہتا ہے لیکن سعودی عرب میں عرب اور اسلامی ملکوں کی حالیہ سربراہی کانفرنس کے اعلامیہ میں واضح کر دیا گیا کہ دو ریاستی فارمولے کے علاوہ‘ مسئلہ فلسطین کے کسی اور حل کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ یہ مشترکہ اعلامیہ دراصل نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے عالم اسلام کی طرف سے ایک پیغام ہے کہ غزہ اور لبنان میں اسرائیلی جارحیت کی حمایت سے مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہو سکتا اور دو ریاستی فارمولے کو ترک کر کے فلسطینیوں کو کسی اور علاقے میں آباد کرنے کے جو منصوبے تیار کیے جا رہے ہیں‘ فلسطین اور عرب ممالک انہیں کبھی قبول نہیں کریں گے۔ اس قسم کا پیغام اس لیے بھی ضروری تھا کہ اسرائیلی حکومت توقع کر رہی تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ صدر بائیڈ ن کے مقابلے میں اسرائیل کی زیادہ کھل کر حمایت کریں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved