ڈونلڈ ٹرمپ ایک بار پھر امریکہ کا صدارتی معرکہ جیت گئے ہیں‘ وہ جنوری 2025ء سے جنوری 2029ء تک دنیا کے طاقتور ترین ملک کے صدر ہوں گے۔ انتخابات سے قبل سیاسی مبصرین کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ کے مابین کانٹے دار مقابلے کی پیشگوئی کر رہے تھے تاہم ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی انتخابات میں اہم سمجھی جانے والی سات معلق ریاستوں میں کلین سویپ کے بعد 312 الیکٹورل ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے جبکہ ان کی حریف کملا ہیرس محض 226 الیکٹورل ووٹ حاصل کر سکیں۔ ٹرمپ 20 جنوری 2025ء کو 47ویں امریکی صدر کا حلف اٹھائیں گے۔
اگر ہم ڈونلڈ ٹرمپ کی ذاتی زندگی پر نظر ڈالیں تو وہ ارب پتی کاروباری شخصیت ہیں۔ ان کی زندگی کامیابیوں اور تنازعات سے بھرپور رہی۔ وہ پُرتعیش زندگی گزار رہے ہیں۔ ٹرمپ ٹاور میں موجود ان کی رہائش گاہ دنیا کی مہنگی ترین رہائش گاہوں میں سے ایک ہے۔ تین شادیوں سے ان کے پانچ بچے ہیں۔ وہ رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں ان کے تعمیراتی منصوبے رہائشی عمارتوں سے شروع ہوئے اور پھر انہوں نے کمرشل ٹاورز بھی بنائے جن میں ٹرمپ ورلڈ ٹاور اور ٹرمپ انٹرنیشنل ہوٹل اینڈ ٹاور قابلِ ذکر ہیں۔ وہ عالمی مقابلۂ حسن کے منتظمین میں بھی شامل رہے۔ یوں وہ خواتین کے بہت قریب رہے اور ان کا نام مختلف خواتین کے ساتھ جڑتا رہا۔ تاہم 2005ء سے وہ میلانیا ٹرمپ کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہیں جو خود بہت پُرکشش اور طاقتور خاتون ہیں۔ ایک بھرپور کاروباری زندگی گزارنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کا سیاسی سفر شروع ہوا۔ ان کی برجستہ گفتگو اور ٹویٹر وارز ان کی مقبولیت میں اضافے کا باعث بنیں۔ جہاں بہت سے سیاستدان سوشل میڈیا استعمال نہیں کرتے تھے‘ وہیں ٹرمپ اپنے دل کی بات فوری طور پر ٹویٹ کردیا کرتے تھے۔ اپنے ٹویٹس میں وہ مخالفین پر لفظی گولہ باری کیا کرتے تھے۔ ارب پتی اور عمر رسیدہ ہونے کے باوجود وہ سوشل میڈیا پر نئی نسل اور نئے ووٹرز کے ساتھ جڑ گئے۔ اپنے گزشتہ دورِ صدارت کے دوران انہوں نے خوب کامیابیاں سمیٹیں لیکن جب 2020ء کے صدارتی انتخابات میں جوبائیڈن نے ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دی تو ٹرمپ کو یہ شکست ہضم نہ ہوئی۔ اُنہوں نے اپنے حامیوں کو امریکی انتظامیہ کے خلاف خوب اُکسایا اور پھر چھ جنوری 2021ء کو ٹرمپ کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد نے اُس وقت کیپٹل ہل پر حملہ کر دیا جب وہاں صدر بائیڈن پر اعتماد اور ان کی فتح کی تصدیق کیلئے اجلاس جاری تھا۔ مظاہرین نے توڑ پھوڑ کی‘ ہنگامے کیے اور جلاؤ گھیراؤ کیا۔ کیپٹل ہل پر ہلہ بولنے کا ٹرمپ کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو اس حملے میں ملوث ہونے کی وجہ سے مقامی عدالت نے امریکی صدارت کیلئے نااہل قرار دے دیا‘ تاہم سپریم کورٹ نے ان کی نااہلی ختم کردی۔ یوں وہ ایک بار پھر صدراتی دوڑ میں شامل ہو گئے۔ صدارتی مہم کے دوران ان پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا تاہم انہوں نے ہار نہیں مانی اور اپنی مہم جاری رکھی۔
اس بار امریکہ کا روایتی میڈیا بھی ٹرمپ کے خلاف تھا اور بیشتر اینکرز اور کالم نگار ان کے بارے میں منفی رائے رکھتے تھے۔ بڑے میڈیا گروپس کی مخالفت نے ڈونلڈ ٹرمپ کو سوشل میڈیا سے مدد لینے کی راہ سُجھائی۔ ٹرمپ کی جیت میں ٹویٹر یعنی ایکس اور اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے مالک ایلون مسک کا بھی اہم کردار ہے۔ ایلون مسک ٹویٹر‘ سپیس ایکس‘ سٹار لنک اور ٹیسلا کے مالک ہیں۔ وہ دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک ہیں۔ اپنے زندگی کے اوائل سے ہی وہ توانائی کے شعبے‘ انٹرنیٹ اور خلائی سفر میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہوں نے ایک چھوٹی سی سافٹ ویئرکمپنی سے آغاز کیا اور اب وہ لگ بھگ 300ارب ڈالرز کے مالک ہیں۔ دو شادیوں سے ان کے بارہ بچے ہیں۔ جب سے انہوں نے ٹویٹر خریدا ہے انہوں نے اس کی ہیئت ہی بدل دی ہے۔ سب سے پہلے اُنہوں نے ڈالروں کے عوض صارفین کیلئے بلیو ٹک دینے کی آفر کی‘ جو اس سے قبل مخصوص شخصیات کو ہی دیے جاتے تھے۔ اس کے ساتھ ٹویٹر کو صارفین کی کمائی کا ذریعہ بھی بنا دیا۔ لوگ اب ٹویٹ کرکے پیسے کما سکتے ہیں‘ تاہم پاکستان کے صارفین اس سہولت سے محروم ہیں کیونکہ ایک تو یہاں ٹویٹر پر پابندی ہے‘ دوسرا یہاں پے پال اور سٹرائپ بھی موجود نہیں کہ صارفین ٹویٹر سے حاصل شدہ کمائی نکلوا سکیں۔ ایلون مسک اپنے مخالفین کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں یہاں تک کہ انہیں میمز سے ٹرول بھی کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ اور ایلون مسک میں خاصی مماثلت ہے۔ ایلون مسک نے حالیہ امریکی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم چلائی۔ یہ مہم روایتی مہم سے کافی ہٹ کر تھی۔ جہاں بڑے میڈیا گروپس ٹرمپ کے خلاف تھے وہاں ان کو ایکس کے مالک کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ اب سیاست اور صحافت میں سوشل میڈیا کی بہت اہمیت ہے۔ ان پلیٹ فارمز کو اب ذہن سازی کے ٹول کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں اسے ففتھ جنریشن وارفیئر کے خلاف استعمال کیا گیا جس میں کامیابی بھی ہوئی۔ عوام کی بہت بڑی تعداد اس جانب راغب ہوئی لیکن رجیم چینج کے بعد سے حکومت سوشل میڈیا سے نالاں نظر آتی ہے۔ اب حالات یہ ہیں کہ ملک میں ایکس پر پابندی ہے لیکن حکومتی نمائندے خود وی پی این لگا کر ٹویٹ کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔
اس کے برعکس امریکہ میں حالات قدرے مختلف ہیں‘ وہاں صدارتی امیدواروں نے اپنی اپنی انتخابی مہم میں روایتی میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا جس سے ووٹرز کو فیصلہ لینے میں آسانی ہوئی۔ ایلون مسک اور ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت اور حالاتِ زندگی میں بھی بہت مماثلت ہے‘ شاید اسی وجہ سے دونوں میں گہری دوستی ہے۔ انتخابی مہم میں ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ٹی وی چینلز یا اخبارات میں جو بھی منفی مہم چلائی جاتی ایکس کے ذریعے اس کا اثر زائل کر دیا جاتا۔ ٹرمپ کی تقاریر کو ایکس پر وائرل کرکے تقریباً ایکس کے ہر صارف تک ٹرمپ کا پیغام پہنچایا گیا۔ یوں صدر ٹرمپ کا انحصار بہت حد تک روایتی میڈیا سے ہٹ کر نئے سوشل میڈیا پر ہو گیا۔ یہ حربہ ان کی جیت میں بہت معاون ثابت ہوا۔ سوشل میڈیا پر بہت سے صارفین اس بات کا برملا اظہار کرتے نظر آتے ہیں کہ کاش ان کے پاس بھی ایلون مسک جیسا کوئی دوست ہوتا۔ الیکشن جیتنے کے بعد اب صدر ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ ایلون مسک اور سابق ریپبلکن صدارتی امیدوار ویوک راما سوامی ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی (DOGE) کی سربراہی کریں گے‘ جو حکومتی بیورو کریسی کی اجارہ داری ختم کرنے‘ فضول اخراجات ختم کرنے اور وفاقی ایجنسیوں کی ساخت کو دوبارہ بنانے کیلئے کام کریں گے۔ یہ حکومت سے باہر رہتے ہوئے ٹرمپ انتظامیہ کو مشورے اور مدد فراہم کریں گے۔
ایکس اب سیاست اور صحافت پر براہِ راست اثر انداز ہو رہا ہے۔ دیگر سوشل میڈیا فورمز فیس بک‘ انسٹا گرام‘ یوٹیوب اور ٹک ٹاک بھی کافی اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔ اب ٹیکنالوجی طاقت کے ایوانوں میں اور اقتدار کی غلام گردشوں تک سرایت کر چکی ہے۔ ایلون مسک صرف امریکہ ہی نہیں‘ دیگر ممالک کی سیاست میں بھی گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔ ان کی کمپنیاں ساری دنیا کی معلومات تک رسائی رکھتی ہیں اور سٹار لنک دنیا بھر میں براڈ بینڈ انٹرنیٹ بھی مہیا کرتی ہے۔ غزہ میں امدادی کارکنان کیلئے ان کے سٹار لنک سیٹلائٹ نے انٹرنیٹ فراہم کیا تھا۔ اسی طرح یوکرین کو بھی سٹارلنک نے انٹرنیٹ فراہم کیا۔ ایلون مسک کی سیاسی دلچسپی صرف امریکہ تک محدود نہیں وہ پوری دنیا تک رسائی کے خواہاں نظر آتے ہیں۔ ٹرمپ اور ایلون مسک دونوں ٹرانس جینڈر ایجنڈا کے بھی سخت خلاف ہیں۔ دونوں ہی جنگ کے بجائے امن کے خواہاں ہیں۔ دیکھتے ہیں اب یہ دونوں مل کرکیا انقلاب لاتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved