سموگ پر ہر کوئی ایکسپرٹ بنا ہوا ہے‘ ٹریفک پر کنٹرول ہونا چاہیے‘ بھَٹوں کو دور رکھنا چاہیے‘ غرضیکہ جتنے ایکسپرٹ اتنی باتیں۔ جسے جوئے کی لت پڑی ہو وہ نصیحتوں سے جوا چھوڑ دیتا ہے؟ سگریٹ پینے کے جو عادی ہوں اُنہیں لاکھ کہیں کہ سگریٹ نوشی صحت کیلئے تباہ کن ہے کیا سگریٹ پینا چھوڑ دیتے ہیں؟ جھوٹ بولنے والے جو کہ تقریباً ہم سبھی ہیں‘ رشوت لینے والے جن کی تعداد اس مملکتِ خداداد میں خاصی ہے اور شرفا کی وہ تعداد جو مختلف طریقوں سے لوٹ مار میں لگی رہتی ہے‘ یہ سب نصیحت کرنے سے صراطِ مستقیم پر آ سکتے ہیں؟ ایک عادی جواری کی طرح پاکستان اور اس کے باسیوں کی عادتیں پَک چکی ہیں۔ اپنی قومی زندگی میں جو رہن سہن اور معاملات کرنے کے طریقے ہم نے اختیار کیے ہوئے ہیں وہ ہمارے خمیر اور وجود کا حصہ بن چکے ہیں۔ آسمان میں سورج آلودگی سے چھپا ہو اوراس کیفیت میں یہ امید رکھی جائے کہ ریاست اور ریاست میں رہنے والوں کے طور طریقے بدل جائیں گے ویسا ہی ہے کہ کسی منشیات کے عادی سے توقع رکھی جائے کہ وہ یکدم منشیات سے نجات پا جائے گا۔
ہم ایسے بدبخت ہیں اور ہماری قسمت میں حکمران بھی ایسے لکھے گئے ہیں کہ بھلے چین کوئلے کے بجلی گھروں سے دور جا رہا ہو‘ ہم نے ساہیوال میں پنجاب کی زرخیز ترین زمین پر ہی کوئلے کا پاور پلانٹ لگانا ہے‘ اور وہ بھی ادھار کے کھاتے میں‘ قرض لے کر۔ یہ جو تین بڑے شہروں میں میٹرو بسوں کا سلسلہ بچھایا گیا ہے ان سے رَتی برابر بھی کوئی فائدہ پہنچا ہے؟ لاہور‘ ملتان اور اسلام آباد کی ٹریفک پر کوئی اثر پڑا ہے؟ لیکن ہمارے تب کے حکمرانوں کو جنون چڑھا ہوا تھا کہ میٹرو بس روٹ بچھانے ہیں‘ سب بیرونی قرض پر۔ شہروں کے حلیے تباہ کر دیے گئے‘ کمیشن اور کِک بیکس تو جیبوں میں جاتے ہی ہیں‘ ان سفید ہاتھیوں کے کمیشن پتا نہیں کن جیبوں میں گئے۔ صرف یہی نہیں کہ شریف زادے ہی ایسے تھے‘ عمران خان کا تصورِ ڈویلپمنٹ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ یہ جو دریائے راوی کے گرد ایک نئے شہر کا منصوبہ بنایا گیا ہے‘ یہ انہی کے دماغ کی اختراع تھی۔ ہمارے رئیل اسٹیٹ والے سرخیلوں کا عجیب کمال ہے کہ حکمران جو بھی ہوں ان کی مٹھی میں آ جاتے ہیں۔ خان کے گرد بھی کچھ ایسے ہی لوگ تھے‘ یہ راوی والا پروجیکٹ انہی تیز دماغوں نے پیش کیا اور خان نے اُسے ایسا نگلا کہ جیسے لاہور اور پنجاب کے تمام مسائل کا حل اسی نئے شہر میں ہے۔
پرانے والٹن ایئرپورٹ کا مسئلہ بھی دیکھ لیں‘ عین شہر کے وسط میں واقع تھا‘ اس زمین کو درختوں کے لیے چھوڑ دیتے‘ شہر کے باسیوں کا بھلا ہوتا‘ لیکن نہیں‘ ایک سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ بنانی تھی‘ دبئی کے کچھ سیٹھ اس کے پیچھے لگے ہوئے تھے اور خان نے اس پروجیکٹ کو اٹھا لیا۔ پی ٹی آئی حکومت نے چودہ نئے سیمنٹ پلانٹوں کی اجازت دی جبکہ ہم پہلے ہی سے سیمنٹ میں نہ صرف خودکفیل ہیں بلکہ اپنی ضروریات سے زیادہ پیدا کر رہے ہیں۔ اس سے کوئی انکار نہیں کہ سیمنٹ ایک ضرورت ہے لیکن لوگ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جب ایک سیمنٹ پلانٹ لگتا ہے تو ماحولیاتی تباہی بھی ہوتی ہے‘ پہاڑ کے پہاڑ سیمنٹ کی نذر ہو جاتے ہیں۔ پانی کا لیول گر جاتا ہے‘ جس زمین سے لائم سٹون نکالا جاتا ہے وہ ایسے لگنے لگتی ہے جیسے اُس پر کوئی نیوکلیئر حملہ ہوا ہے۔ لیکن چودہ نئے پلانٹوں کی اجازت دے دی گئی۔ تو پھر اگر کوئلے کا پاور پلانٹ ساہیوال میں لگ جائے اور ایک غیرضروری سیمنٹ پلانٹ چوآ سیدن شاہ کے پہاڑوں میں لگ جائے تو ان دو فعلوں میں کیا فرق ہے؟
جو جی ٹی روڈ پر سفرکرتے ہیں اُنہیں پتا ہے کہ روات سے دو سڑکیں جاتی ہیں‘ ایک پنڈی کی طرف دوسری اسلام آباد۔ ان دو سڑکوں کے درمیان یعنی راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان ایک تکون شکل کا علاقہ بنتا ہے جس کی کیفیت ایک جنگل کی طرح تھی۔ راولپنڈی اور اسلام آباد جاتے ہوئے یہ قدرتی حسن ساتھ ساتھ چلتا تھا۔ اب اس سارے علاقے میں ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے اپنا جال پھیلا لیا ہے۔ روات سے لے کر پنڈی اور اسلام آباد تک سوائے تعمیرات کے آپ کو اور کچھ نظر نہیں آئے گا۔ فضول قسم کے شاپنگ مال‘ بلند عمارتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ اور ٹریفک کی اتنی بھیڑ کہ جہاں ایک زمانے میں روات سے راولپنڈی خوبصورت سفر ہوا کرتا تھا آج وہ ایک عذاب بن چکا ہے۔ شہروں کی ترقی کا کوئی قانون ہوتا ہے‘ کوئی ریگولیشن ہوتے ہیں کہ کس چیز کی اجازت ہے اورکس کی نہیں۔ یہاں کچھ ہے ہی نہیں‘ شہروں کی بدنمائی دیکھیں تو لگتا ہے مادر پدر آزادی ہے‘ جس کا جو جی چاہے یہاں کر سکتا ہے۔
انگریز حاکم تھے‘ بڑی زیادتیاں اُنہوں نے کی ہوں گی لیکن شہر تو خوبصورت بنا کر گئے۔ راولپنڈی صدر کتنا خوبصورت علاقہ ہوا کرتا تھا اور ہم نے کس طریقے سے‘ کس بربریت سے‘ اُس خوبصورتی کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ جسے انگریزی میں استھیٹک سینس (Aesthetic sense) کہتے ہیں وہ بحیثیت قوم ہم میں تھوڑی سی بھی ہے یا نہیں؟ دارالحکومت کو ہم بڑی بے حیائی سے 'اسلام آباد دی بیوٹی فل‘ کہتے ہیں۔ قدرتی حسن اس کا واقعی لاجواب ہے لیکن اس میں ہمارا تو کچھ کرنا نہیں‘ اللہ کی دین ہے۔ ہمارے ہاتھ وہ قدرتی حسن چڑھا تو کیا حشر کرنا اُس کا شروع کر دیا۔ مارگلہ پہاڑو ں کے ایک طرف سیمنٹ پلانٹ کی اجازت جنرل ضیا الحق نے دی‘ لائم سٹون مارگلہ پہاڑوں سے نکلتا ہے۔ چالیس‘ پچاس سال پہلے اسلام آباد آئے تھے تو چھوٹا سا شہر تھا‘ بہت بھلا لگتا تھا۔ مسلم اخبار میں تھے تو کئی دفعہ رات کو آبپارہ سے راجہ بازار راولپنڈی میں کھانا کھانے جاتے۔ اُس زمانے میں یہ سفر طے کرنا کوئی مشکل نہ تھا۔ اب کرکے دکھائیں‘ ہوش ٹھکانے آ جاتے ہیں۔ چھوڑیں ان قصوں کو‘ اس موضوع پر رونا شروع کر یں تو داستان ختم ہونے کا نام نہ لے۔
دنیائے اسلام کی واحد نیوکلیئر طاقت سے پلاسٹک شاپر توکنٹرول ہوتے نہیں‘ کچھ اور اس کے باسیوں نے خاک کرنا ہے۔ ہندوستان سے دشمنی اپنی جگہ‘ مملکتِ خداداد کا درختوں سے بیر ہندوستان دشمنی سے بھی زیادہ ہے۔ درخت کھڑا دیکھیں تو دلوں میں چین نہیں آتا جب تک اُسے لِٹا نہ دیں۔ سرکار بھی دشمنی میں لگی ہوئی ہے‘ سڑکوں کی تعمیر کے نام پر جو درختوں کا حشر یہاں ہوتا ہے ہمارا ہی ملکہ ہے۔ کوئی انگریزوں یا مغلوں کا گلستان بنایا گیا ہے‘ ہمارے سرکاری اداروں کو سکون نہیں آتا جب تک اُس میں سیمنٹ اور سریے کی یلغار نہ کر دیں۔ باغِ جناح لاہور کو دیکھ لیں‘ ڈھیٹ باغ ہے کہ اب تک بچا ہوا ہے‘ نہیں تو مختلف ادوار میں کوششیں ہوتی رہیں کہ سیمنٹ سریے کا دخیل ہو جائے۔ گورنر جیلانی نے ایک نیکی کا کام کیا کہ پرانے ریس کورس گراؤنڈ کو جیلانی پارک بنا دیا‘ نہیں تو وہاں بھی پلاٹ کٹ جانے تھے اور رہائشی مکانات تعمیر ہونے لگتے۔
ہم کہتے نہیں تھکتے کہ قدرت نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے۔ بہت کچھ دیا ہوگا لیکن اتنا ماننا پڑے گا کہ عقل اور شعور نہیں دیا۔ لندن ہائیڈ پارک میں تجاوزات کیوں نہیں ہوتیں؟ وہاں کیوں نہیں عمارتیں تعمیر کی جاتیں؟ نیویارک سینٹرل پارک ہمارے کسی شہر میں ہوتا تو بچ جاتا؟ یار لوگوں نے اُس پر کئی آبادیاں بنا دینی تھیں۔ جو ہم زرعی زمینوں کا حشر نئی آبادیوں کے نام پر کر رہے ہیں وہ ہم ہی کر سکتے تھے۔ اسلام آباد کے دیگر اطراف چھوڑیے‘ آپ موٹر وے پر آئیں تو اتنی زمین اور اتنے پہاڑان سوسائٹیوں نے ہڑپ کرلیے ہیں کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved