ایسا لگتا ہے کہ ڈرون حملوں کے خلاف دنیا بھر میں اچانک ایک شور اٹھا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے رپورٹ جاری کی ہے جس میں ڈرون حملوں کی مختلف پہلوئوں سے بھرپور مخالفت کی گئی۔ اقوام متحدہ میں بھی ڈرون حملوں کے خلاف کافی آوازیں سنائی دی ہیں۔ امریکہ کے اندر سے ڈرون حملوں کی مخالفت میں کم ہی کچھ کہا جاتا تھا مگر اب بہت کچھ کہا جا رہا ہے۔ کانگریس میں ڈرون حملوں کے متاثرین سے ان کی بپتا سنی جا رہی ہے اور آنسو بہائے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں‘ جس کے ایک حصے پر ڈرون حملوں نے برسوں سے تباہی مچا رکھی ہے، آج کل ڈرون حملوں کی بھرپور مذمت کی جا رہی ہے اور ان حملوں کو ناقابلِ برداشت قرار دیا جا رہا ہے۔ ڈرون حملوں کے خلاف اگرچہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو سب سے آگے ہونا چاہیے تھا کیونکہ وہ ان کی مخالفت کافی زیادہ کرتے ہیں مگر حکمران جماعت مسلم لیگ ن میاں نواز شریف کی قیادت میں ڈرون حملوں کے خلاف اس مہم میں عمران خان کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل چکی ہے اور یہ تک کہہ رہی ہے کہ ہمیں غرض نہیں کہ اگر پہلے ڈرون حملے حکومت وقت کی اجازت سے ہو رہے تھے‘ ہماری نئی حکومت ان حملوں کی مخالف ہے۔ اس تمام صورتحال میں ہمارے عام پاکستانیوں نے یہ سوچنا شروع کر دیا ہے کہ اب ڈرون حملے، اگر مکمل طور پر بند نہ ہوئے تو خاصے کم ضرور ہو جائیں گے کیونکہ امریکہ بین الاقوامی سطح پر اور خود اپنے ملک کے اندر بھی ڈرونز کے خلاف موجود دبائو کو برداشت نہیں کر پائے گا۔ پاکستانی یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کیونکہ عالمی مہم کی وجہ سے الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے ڈرونز کے خلاف یہ منفی تاثر گھر گھر پہنچ چکا ہے۔ جو صورتحال بظاہر دکھائی دے رہی ہے اصل صورتحال اس کا بالکل الٹ معلوم ہوتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ پہلے امریکہ میں اوباما انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ اب ڈرون حملوں کے پروگرام کو انتہائی محدود کر دینا چاہیے اور اس کے بعد انہوں نے اپنے کارندوں کو اس کام پر لگا دیا کہ ڈرون پروگرام کے خلاف مہم چلائو مگر انداز ایسا رکھو کہ مکمل پابندی کی بات نہ ہو بلکہ ضرورت پڑنے پر استعمال کی گنجائش رہے۔ بس پھر کیا تھا، کبھی ادھر سے رپورٹ جاری ہو گئی کبھی ادھر سے جاری ہو گئی۔ دستاویزی پروگرام منظر عام پر آ گئے اور ڈرون مخالف جن آوازوں پر کوئی کان نہیں دھرتا تھا ان آوازوں کو پذیرائی ملنے لگی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسا ادارہ اس قدر مستعد ہے کہ آج مغرب کی پسندیدہ کسی شخصیت کو اگر اس کے اپنے ملک میں کسی جرم میں گرفتار کیا جائے تو ایک ہفتے بعد وہ شخصیت بین الاقوامی سطح پر ’’ضمیر کے قیدی‘‘ کے طور پر معروف ہو جاتی ہے۔ ایمنسٹی اس شخصیت کے حق میں فوراً اس غرض سے مہم شروع کر دیتی ہے کہ ’’ظالم حکومت‘‘ کو مجبور کر دیا جائے کہ وہ مغرب کی اس جمہوریت پسند شخصیت کو فوراً رہا کر دے۔ اب آپ خود سوچیں کہ ڈرون حملے کب سے معصوموں کا خون کر رہے ہیں۔ ایمنسٹی اگرچہ ان حملوں کی مخالف رہی ہے مگر گزشتہ برسوں میں ایسی کوئی موثر رپورٹ آپ کو دکھائی نہیں دے گی جیسی اب منظرعام پر آئی ہے۔ رپورٹ مرتب کرنے والوں کے راستے میں کیا رکاوٹ تھی کہ انہوں نے یہ اس وقت جاری کی جب کچھ عرصہ بعد امریکہ اور نیٹو فورسز افغانستان میں اپنی موجودگی محدود کر کے واپس جا رہی ہیں۔ پھر یہ بھی یاد رکھیں کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس تازہ رپورٹ میں ڈرون حملوں کے ذریعے بعض شہریوں کی ہلاکت کو ممکنہ طور پر جنگی جرائم قرار دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دس برس سے جو سویلین ڈرون حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہوتے رہے ہیں ان کی ہلاکتوں کے بعد امریکہ کو یہ کیوں یاد نہیں دلایا گیا کہ اس کا یہ اقدام جنگی جرم بھی قرار پا سکتا ہے؟ اب اقوام متحدہ میں بھی ایک رپورٹ زیر بحث ہے جس میں کم از کم چار سو پاکستانی سویلین کی ڈرون حملوں کے ذریعے ہلاکت کا ذکر ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق یہ ہلاکتیں گزشتہ دس برسوں کے ڈرون حملوں میں ہوئیں۔ اب اانسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے عالمی اداروں سے کوئی پوچھے کہ ہلاکتیں تو دس برسوں سے ہو رہی ہیں، پہلے کہاں سوئے رہے؟ ہمارے ہاں اندرون ملک جو صورتحال رہی ہے وہ بھی یاد کیجئے۔ وکی لیکس کے ذریعے ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے ایک سابق وزیر اعظم، امریکیوں سے کہتے رہے کہ تم ڈرون حملے کئے جائو ہم مذمت کرتے رہیں گے۔ اس دوران میں ہمارے موجودہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف حزب مخالف کے سب سے اہم رہنما تھے۔ انہوں نے نہ تو اس دور کی حکومت کا یہ پول کھولا کہ ڈرون حملوں میں حکومتی مرضی شامل ہے اور نہ ہی خود موثر انداز میں ڈرون حملوں کی مخالفت کی۔ اب اچانک جو اس قدر توانا آواز سے ڈرون حملوں کی مخالفت ہو رہی ہے تو پوچھنے کو جی چاہتا ہے کہ آخر اتنا عرصہ یہ توانا آواز کہاں غائب تھی؟ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ یہ توانا آواز کسی مصلحت کے تحت منظر عام پر آئی ہے۔ یہ مصلحت وہی ہے جس کا میں اوپر ذکر کر چکا ہوں کہ اوباما انتظامیہ نے پہلے فیصلہ کر لیا کہ ڈرونز کا استعمال محدود کرنا ہے اور پھر اپنے حواریوں کو کام پر لگا دیا۔ اب سب ہم پر دھاک بٹھا رہے ہیں۔ اب رہ گیا سوال کہ امریکہ ڈرونز کے پروگرام کو کیوں محدود کر رہا ہے تو اس کی وجوہ بھی آہستہ آہستہ منظر عام پر آ جائیں گی۔ بہت سے تجزیہ کار اس ضمن میں بہت کچھ تحریر کر چکے ہیں۔ اس تفصیل میں جائے بغیر میں صرف اتنا عرض کروں گا کہ مجھے کوئی شبہ نہیں کہ امریکہ ڈرون پروگرام کو محدود کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے اور میرے لیے اس کا ثبوت یہی ہے کہ اس فیصلے کے لیے راہ ہموار کرنے کی غرض سے امریکہ کے حواری کھل کر میدان میں آ چکے ہیں۔ آپ خود سوچیں کہ اگر امریکہ نے ایسا فیصلہ نہ کیا ہوتا تو ان تمام حواریوں کی کیا مجال تھی کہ ڈرون حملوں کے خلاف بے خوف انداز میں سینہ سپر ہو جاتے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved