تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     17-11-2024

کرکٹ اور سیاست

کہا جاتا ہے‘ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ کھیل ڈسپلن اور نظم سکھاتے ہیں‘ امن اور سکون کے علمبردار ہوتے ہیں‘ یہ کسی قوم کی اقدار‘ روایات اور ثقافت کے ترجمان ہوتے ہیں۔ کھیل برداشت پیدا کرتے ہیں اور تحمل کے پاسدار ہوتے ہیں۔ کھیلوں کے میدانوں میں مقابلے تو ہوتے ہیں لیکن ایسے کہ ہار جیت تو ہوتی ہے لیکن کوئی بھی زخمی نہیں ہوتا‘ کسی کی اَنا کو کوئی چوٹ نہیں پہنچتی‘ بلکہ ہارنے والا جیتنے والے کی محنت اور برتری کو سلام پیش کر کے میدان سے باہر نکلتا ہے۔ یہ اس بات کا اعتراف اور اظہار ہوتا ہے کہ ٹھیک ہے تم نے اس بار محنت کی اور جیت گئے‘ میں بھی محنت کروں گا اور کوشش کروں گا کہ اگلی بار تم سے جیت پاؤں۔ کھیل دو ممالک کے مابین خیر سگالی کے امین ہوتے ہیں اور دو قوموں کے درمیان اختلافات ختم کرنے کا سبب بھی بنتے ہیں‘ لیکن یہ سب کچھ اُس وقت ہوتا ہے جب کھیل کو کھیل سمجھ کر کھیلا جائے اور کھیل کے میدان کو کارزارِ سیاست نہ بنا دیا جائے۔
میں نے یہ خبر نہایت دکھ اور افسوس کے ساتھ پڑھی اور سنی کہ بھارت نے اپنی کرکٹ ٹیم کو چیمپئنز ٹرافی کے میچز کے لیے پاکستان بھیجنے سے انکار کر دیا ہے اور اس کے لیے سکیورٹی ایشوز کو بہانہ بنایا جا رہا ہے۔ آج کے اس دور میں جب دہشت گرد اور انتہا پسند ہر جگہ دندناتے پھر رہے ہیں‘ سکیورٹی ایشوز کس ملک میں نہیں؟ کیا بھارت میں سکیورٹی ایشوز نہیں ہیں؟ کیا وہاں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو کوئی خطرات لاحق نہیں ہوتے؟ بالکل ہوتے ہیں‘ اس کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ دل بڑا کر کے خیر سگالی کے جذبات کے تحت اپنی کرکٹ ٹیم اور دوسرے کھیلوں کی ٹیموں کو بھارت بھیجا اور وہاں انہوں نے میچز کھیلے۔ مسئلہ سکیورٹی کا ہو تو اس کو حل بھی کر لیا جائے‘ یہاں تو مسئلہ اَنا کا اور سیاست کا ہے۔ انڈین کرکٹ بورڈ کے اپنی ٹیم کو پاکستان نہ بھیجنے کے اعلان کے ساتھ میرا یہ خدشہ درست ثابت ہوا کہ بھارت ہمیشہ پاکستان کا مخالف رہا ہے اور رہے گا‘ اور اس کے ساتھ دوستی کی چاہے جتنی بھی کوششیں کر لی جائیں‘ ناکام ثابت ہوں گی۔ پی سی بی کے سابق چیئرمین نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ چیمپئنز ٹرافی کا معاملہ پاک بھارت کرکٹ بورڈز کے ہاتھ میں نہیں‘ بھارتی حکومت کرکٹ ٹیم کو کھیلنے نہیں دے رہی۔ 2015ء میں بھی بھارت سے سیریز کھیلنے کا معاہدہ کیا گیا تھا‘ لیکن بعد میں بھارت سیریز کے معاہدے سے مُکر گیا تھا۔
بھارت کی جانب سے اس انکار کا مطلب اور مقصد اس کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ پاکستان کو عالمی برادری خصوصاً کرکٹ کھیلنے والے ممالک میں بدنام کیا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ پاکستان میں جا کر کرکٹ کھیلنا خطرناک ہے۔ پاکستان پر انگلی اٹھانے والا بھارت یہ بھول جاتا ہے کہ اس کی اپنی سرزمین پر علیحدگی کی کوئی دو درجن تحریکیں چل رہی ہیں اور ان تحریکوں کو دبانے کے لیے وہاں کی مرکزی اور ریاستی حکومتیں ہر جائز و ناجائز ہتھکنڈا استعمال کر رہی ہیں۔ پھر اس ٹھوس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ بھارت میں ہندوتوا کے نام پر اقلیتوں کو ان کے بنیادی ترین حقوق سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔ اور یہ بات کیسے نظر انداز کی جا سکتی ہے کہ بھارت افغانستان اور پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کی فنڈنگ کرتا رہا ہے اور اب بھی کر رہا ہے۔ اس کا سب سے واضح ثبوت پاکستان کی جیل میں بند کلبھوشن یادیو ہے جو پاکستان میں دہشت گردی کے حوالے سے اپنے جرائم کا اعتراف کر چکا ہے۔
بارِ دگر‘ مسئلہ اگر سکیورٹی کا ہو تو حل بھی کر لیا جائے‘ یہاں تو علاقائی اور عالمی سیاست کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ کوئی یہ بتائے گا کہ پاک بھارت کمپوزٹ ڈائیلاگ کس کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے گزشتہ 10 برسوں سے بند ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان سلسلۂ جنبانی کیوں مکمل طور پر منقطع ہو چکا ہے؟ کیا کوئی یہ بتائے گا کہ مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو کالعدم قرار دینے کے حوالے سے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کس نے کیا تھا؟ یہ مودی سرکار تھی جس نے نہ صرف بھارتی آئین بلکہ بین الاقوامی ضوابط کو بھی اپنے پیروں تلے روند دیا تھا۔ اس حقیقت کو یکسر نظر انداز کر دیا تھا کہ جموں و کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے جس کی حیثیت کا تعین ہونا ابھی باقی ہے۔ کوئی یہ بتائے گا کہ سارک سربراہ کانفرنسیں گزشتہ 10‘ 12برسوں سے کیوں بند ہیں؟ اس بندش کی وجہ بھی بھارت کی ہٹ دھرمی ہے۔ یہ ہٹ دھرمی اب کھیلوں میں بھی در آئی ہے۔ محسوس یہ کرایا جا رہا ہے کہ بھارت کی ٹیم اگر پاکستان نہیں آئے گی تو پتا نہیں کون سی قیامت آ جائے گی۔ میرے خیال میں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا۔ دنیا ویسی کی ویسی چلتی رہے گی‘ البتہ یہ ضرور آشکار ہو جائے گا کہ بھارت ایک کینہ پرور ملک ہے اور وہاں ایک ہٹ دھرم جماعت کی حکومت ہے۔
بھارت کی جانب سے اپنی ٹیم کو پاکستان بھیجنے سے انکار کے بعد بڑے جذباتی قسم کے بیانات سامنے آ رہے ہیں‘ جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پاکستان آئندہ بھارت کے ساتھ کبھی میچ نہ کھیلے۔ میرے خیال میں یہ کوئی مناسب سوچ یا فیصلہ نہیں ہے۔ پاکستان کو بھارت کے ساتھ میچ کھیلنے سے بالکل بھی انکار نہیں کرنا چاہیے‘ لیکن پاکستان کو بھارت کی سرزمین پر جا کر بھارت کے ساتھ میچ یا کوئی ٹورنامنٹ کھیلنے سے انکار کر دینا چاہیے‘ اور اس کی وجہ بھی وہی بتانی چاہیے جو بھارت نے بنائی ہے یعنی سکیورٹی ایشوز۔ اس حقیقت سے کرکٹ کے شائقین پوری طرح واقف اور آگاہ ہوں گے کہ شیو سینا کے بانی سربراہ بال ٹھاکرے پاکستانی ٹیم کے بھارت میں جا کر کھیلنے کے خلاف بیانات اور دھمکیاں دیتے رہتے تھے۔ اس کے باوجود پاکستان کی ٹیم بھارت جا کر کھیلتی رہی۔ ٹھیک ہے کہ ایک وقت میں یہاں دہشت گردی کے بہت واقعات رونما ہو رہے تھے اور سکیورٹی کا واقعی مسئلہ تھا‘ لیکن اب دہشت گردی پر خاصا قابو پایا جا چکا ہے اور معاملات اس حد تک بہتر ہو چکے ہیں کہ بنگلہ دیش‘ آسٹریلیا‘ سری لنکا‘ نیوزی لینڈ‘ زمبابوے اور انگلینڈ سمیت بہت سی ٹیمیں یہاں آ کر سیریز اور میچز کھیل چکی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر انگلینڈ اور آسٹریلیا جیسے ممالک کی ٹیمیں یہاں پر محفوظ طریقے سے ٹورنامنٹ کھیل سکتی ہیں تو بھارتی ٹیم کیوں نہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ بھارتی ٹیم کو پاکستان میں سکیورٹی کا کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ صرف پاکستان کو بدنام کرنے کا ہے۔ اور جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ بھارتی قیادت اس کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتی۔ وقت آ گیا ہے کہ بھارت کو اسی کی زبان میں جواب دیا جائے اور وہ جواب یہی ہو سکتا ہے کہ پاکستان بھارتی کرکٹ ٹیم کے ساتھ ہر جگہ میچ کھیلے گا‘ لیکن بھارت میں جا کر نہیں کھیلے گا‘ وہ چاہے ورلڈ کپ کے میچز ہوں یا کوئی علاقائی ٹورنامنٹ۔ Tit for Tat۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved