تحریر : محمد عبداللہ حمید گل تاریخ اشاعت     17-11-2024

پاکستان کے روایتی و غیر روایتی سکیورٹی خطرات

سکیورٹی کا مطلب ہے کسی بھی قسم کے خطرے سے تحفظ‘ خواہ وہ بیرونی ہو یا اندرونی۔ جدید دنیا میں دہشت گردی اور پراکسی وار نے سکیورٹی کے تصور کو متنوع بنا دیا ہے۔ اب سکیورٹی کے جامع نظریات میں خود مختاری‘ علاقائی سالمیت‘ مخصوص سیاسی احکامات‘ ریاستی ادارے‘ سماجی و معاشی آزادی‘ انصاف اور برابری جیسے شعبے بھی شامل ہیں۔ ریاستوں نے نہ صرف روایتی عسکری خطرات پر توجہ بڑھا دی ہے بلکہ غربت‘ تجارت‘ معیشت‘ انسانی حقوق اور ماحولیات جیسے غیر روایتی خطرات کو بھی اپنی فہرستوں میں شامل کر لیا ہے۔ پاکستان کا معاملہ بھی مختلف نہیں۔ روایتی سکیورٹی کا مطلب کسی معاشرے میں اس احساس کا جاگزیں ہونا ہے کہ ان کی ریاست انفرادی و اجتماعی حقوق کی حفاظت کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ تاہم نئے چیلنجوں کو قبول کرنے اور مستقبل کی ترقی کے لیے سازگار حالات پیدا کرنے میں غیر روایتی سکیورٹی بھی اتنی ہی اہم ہے۔ روایتی اور غیر روایتی سکیورٹی کے تصورات کا جائزہ لیتے وقت ضروری ہے کہ دونوں کے فرق‘ خصوصیات اور موجودہ دور میں ان کی اہمیت کو سمجھا جائے۔
روایتی سکیورٹی کا مقصد بیرونی خطرات اور حملوں سے تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے۔ علاقائی سالمیت‘ عسکری قوت‘ بیرونی خطرات‘ عالمی اتحاد اور معاہدے‘ اقتصادی استحکام‘ سٹرٹیجک وسائل ‘ خفیہ معلومات‘ انٹیلی جنس‘ جارحیت کا خاتمہ‘ بین الاقوامی تعلقات وغیرہ اس کے اہم محرکات ہیں۔ اس میں زیادہ تر زور طاقت کے استعمال اور دفاعی حکمت عملیوں پر دیا جاتا ہے۔ 1974ء میں بھارت کے ایٹمی دھماکے‘ 1979ء میں بلوچستان موومنٹ‘ 1986ء میں بھارت کی نیوکلیئر حملے کی دھمکیاں‘ 1989ء میں پاکستان پر عالمی پابندیاں‘ 1998ء میں بھارت کے نیوکلیئر ہتھیاروں کے ٹیسٹ‘2001ء سے 2021ء تک افغانستان میں نیٹو و امریکی افواج کی موجودگی‘ 2002 ء میں بھارت سے کشیدگی‘ 2019ء بھارت کا پاکستان پر طاقت کا استعمال اور پاکستان پر فضائی حملے کی کوشش‘ 2024ء میں دہشت گردی‘ اسی طرح چین‘ امریکہ مسابقت‘ روس‘ یوکرین جنگ‘ غزہ نسل کشی‘ مشرق وسطیٰ میں جنگ پھیلنے کا خوف‘ آزاد جموں وکشمیر اور گلگت پر بھارت کی اشتعال انگیزیاں‘ پاکستان کے خلاف بالواسطہ سٹرٹیجک منصوبہ بندی اس کی اہم مثالیں ہیں۔ بھارت کے وار ہسٹریا اور مقبوضہ جموں وکشمیر میں اگست 2019ء میں آرٹیکل 370 کی منسوخی نے پاکستان کی عسکری ترجیحات کو مشرقی سرحد پر مزید مستحکم کیا ہے۔ سی پیک نے پاکستان کے روایتی فریم ورک میں اقتصادی سلامتی کو شامل کیا‘ جس کے لیے اہم انفراسٹرکچر اور تجارتی راستوں کے تحفظ کی ضرورت ہے۔ پاکستان اپنی بری‘ بحری اور فضائی افواج کو جدید بنانے کی کوشش کر رہا ہے‘ جس میں دفاعی پیداوار اور سٹرٹیجک ڈیٹرنس پر توجہ دی جا رہی ہے۔
روایتی سکیورٹی کا تصور اب عالمی سطح پر تبدیل ہو رہا ہے کیونکہ آج کے دور میں سکیورٹی کے نئے چیلنجز جیسا کہ دہشت گردی‘ سائبر حملے‘ ماحولیاتی خطرات اور معاشی عدم استحکام سے ریاستوں کے وجود کو زیادہ خطرات لاحق ہیں۔ اسلئے روایتی سکیورٹی کیساتھ ساتھ غیر روایتی سکیورٹی کا تصور بھی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ غیر روایتی سکیورٹی ان چیلنجز کا احاطہ کرتی ہے جو براہِ راست ریاستوں کے مابین جنگ سے وابستہ نہیں ہوتے لیکن ریاست اور معاشرے کو ان سے سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ عالمی مسائل‘ ماحولیاتی تبدیلیاں‘ عالمی وبائیں‘ انسانی سمگلنگ‘ منشیات کی تجارت اور سائبر حملوں کے اس دور میں غیر روایتی سکیورٹی کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے۔ تاہم غیر روایتی سکیورٹی اور روایتی سکیورٹی‘ ایک دوسرے کے ساتھ باہم مربوط ہیں۔ اجتماعی طور پر دونوں ہی جامع سکیورٹی تخلیق کرتے ہیں۔
غیر روایتی سکیورٹی مختلف چہروں اور شکلوں کے ساتھ ماضی میں بھی موجود رہی ہے۔ رومیوں کی طرف سے کارتھیج (Carthage) کے کھیتوں میں نمک بونے سے لے کر مقامی باشندوں کو غیر ملکی نصاب پڑھائے جانے تک‘ افیون کی جنگیں‘ جدید دور کی پابندیاں‘ ٹیکنالوجی کے اشتراک پر پابندی‘ عالمی معاشی پابندیوں سے ریاستوں کو مجبور کیا جانا‘ یہ چند مثالیں ہیں۔ غیر روایتی سکیورٹی اپنی نوعیت کے لحاظ سے ہر شعبے میں پائی جاتی ہے۔ اس میں پالیسی‘ آپریشنل ڈھانچے‘ معاشیات‘ مالیات‘ خوراک‘ سائبر‘ مصنوعی ذہانت‘ قانونی حیثیت‘ انصاف کی فراہمی‘ معلومات‘ معاشرے کی نفسیات‘ آبادی‘ بین الاقوامی اثر ورسوخ‘ بین الاقوامی تعلقات‘ سمندری و فضائی حدود‘ علمی ترقی‘ آب وہوا‘ پانی اور آبی وسائل‘ صحت‘ سیاست اور معاشرے کے شہری دفاع جیسے پہلوؤں پر توجہ دی گئی ہے۔ یہ واضح ہے کہ اگر یہ جہتیں مضبوط ہوں گی تو اس ملک کے پاس ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مضبوط صلاحیت ہو گی‘ اور اپنی سٹرٹیجک حکمت عملی کو بروئے کار لانے کیلئے متعدد اختیارات ہوں گے۔
روایتی سکیورٹی اس وقت تک غیر فعال یا خاموش رہتی ہے جب تک کہ کوئی بڑا واقعہ رونما نہ ہو جائے مثلاً جنگ‘ عالمی تنازع اور تشدد کا استعمال وغیرہ مگر غیر روایتی سکیورٹی ہمہ وقت فعال رہتی ہے۔ پاکستان کو اس وقت روایتی اور غیر روایتی‘ دونوں طرح کے سکیورٹی خطرات کا سامنا ہے۔ پاکستان کو درپیش سب سے بڑا روایتی سکیورٹی خطرہ بھارت سے ہے۔ بھارت محدود جنگ اور کولڈ سٹارٹ نظریے جیسے متعدد دھمکی آمیز تصورات متعارف کرا کر پاکستان کے خلاف ہر وقت فعال رہتا ہے۔ غیر روایتی سلامتی کے خطرات میں کمزور معیشت‘ آبادی میں بے تحاشا اضافہ‘ تعلیم کی کمی‘ صاف پانی کی عدم دستیابی‘ غذائی وسائل کی کمی اور ماحولیاتی خرابی وغیرہ شامل ہیں۔ پاکستان کی سکیورٹی کی صورتحال کا جائزہ لیتے وقت ہمیں روایتی اور غیر روایتی‘ دونوں پہلوؤں کو دیکھنا ہو گا۔ روایتی سکیورٹی پاکستان کے قیام کے فوراً بعد سے قومی دفاع کا مرکزی ستون رہی ہے۔ کشمیر تنازع‘ سرحدی کشیدگی‘ خطے میں چین‘ بھارت تنازع پاکستان کی روایتی سکیورٹی کا بڑا مسئلہ رہے ہیں۔ 1947ء‘ 1965ء‘ 1971ء اور 1999ء کی جنگیں روایتی عسکری خطرات کی مثالیں ہیں۔ پاکستان نے اپنے دفاع کو مضبوط بنانے کیلئے جوہری صلاحیت حاصل کی‘ جس کا مقصد طاقت کا توازن قائم کرنا تھا۔ پاکستان کا ایک بڑا بجٹ دفاعی اقدامات پر خرچ ہوتا ہے تاکہ عسکری طاقت کو مضبوط رکھا جا سکے۔ افغانستان کیساتھ تعلقات اور افغان جنگ کے اثرات بھی روایتی سکیورٹی کے دائرے میں آتے ہیں۔
پاک چین تعلقات اور خطے میں امریکہ اور بھارت کا بڑھتا اثر‘ دوسری جانب دہشت گردی میں دوبارہ اضافہ‘ سیلاب‘ اور معیشت کی خراب صورتحال وغیرہ روایتی خطرات کی شدت کو ظاہر کرتے ہیں۔ 2001ء کے بعد سے دہشت گردی اور شدت پسندی پاکستان کا سب سے بڑا غیر روایتی سکیورٹی چیلنج ہے۔ دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کیلئے ضربِ عضب اور ردالفساد جیسے آپریشنز بھی کیے گئے۔ پاکستان دنیا میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ ملکوں میں سے ایک ہے۔ دہشت گردی نے پاکستان کی خودمختاری‘ سالمیت اور بقا کو چیلنج کیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 80 ہزار سے زائد جانی نقصان اور 200 بلین ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان ہو چکا ہے۔ لہٰذا ابھرتے ہوئے عالمی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے سائبر وار فیئر سمیت روایتی اور غیر روایتی سکیورٹی کے دائرہ کار کو محفوظ بنانے کے لیے ایک قومی حکمت عملی کا خاکہ تیار کرنا ہوگا۔ بلاشبہ افواجِ پاکستان نے وقت کے ساتھ ساتھ علاقائی سالمیت اور خودمختاری کا کامیابی سے دفاع کیا ہے اور مستقبل میں بھی افواجِ پاکستان کسی قربانی سے دریغ نہ کرنے کا مصمم اور غیر متزلزل ارادہ رکھتی ہیں۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا دشمنوں کو واضح پیغام ہے کہ چاہے روایتی جنگ ہو یا غیر روایتی جنگ‘ ہمارا جواب تیز اور دردناک ہوگا‘ یقینا ہم گہرا اور دوررس جواب دیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved