تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     19-11-2024

ایک سال میں سولہ لاکھ پاکستانیوں کی ہجرت

کیا ریاست کو معلوم ہے؟ کیا حکومت کے علم میں ہے؟
گزشتہ سال‘ 2023ء کے دوران‘ سب سے زیادہ تعداد میں جس ملک سے لوگوں نے ہجرت کی‘ وہ پاکستان ہے۔ پاکستان سے باہر بھاگنے والوں کی تعداد سولہ لاکھ سے زیادہ تھی۔ دوسرے نمبر پر سوڈان تھا جہاں سے ساڑھے تیرہ لاکھ سوڈانیوں نے ہجرت کی۔ بھارت تیسرے نمبر پر تھا۔ پونے دس لاکھ بھارتی ہجرت کر کے ملک سے باہر چلے گئے۔ ان اعداد وشمار کا علم ہونے سے پہلے میرا خیال تھا کہ جتنے لوگ پاکستان سے گئے ہیں یا جا رہے ہیں‘ اتنے ہی بھارت سے بھی جا رہے ہیں۔ اور اس کی وجہ آبادی کا دباؤ ہے۔ اس تاثر کی وجہ یہ تھی کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران بھارت سے آسٹریلیا آنے والوں کی تعداد بہت زیادہ رہی ہے۔ اس سے میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ صرف پاکستان سے نہیں‘ دوسرے ملکوں سے‘ خاص طور پر بھارت سے بھی لوگ نکل رہے ہیں۔ اپنے اس تاثر کی بنیاد پر ایک کالم بھی لکھا۔ مگر جب عالمی اعداد وشمار دیکھے تو معلوم ہوا کہ اصل معاملہ اور ہے۔ یہ آبادی کا دباؤ نہیں‘ ملکی حالات سے مایوسی ہے جو لوگوں کو بھاگنے پر مجبور کر رہی ہے۔ سوال وہی ہے جو اوپر پہلی سطر میں کیا ہے۔ کیا اس ملک کے حکمرانوں کو اس صورتحال کا علم ہے؟ ملک کے حکمرانوں میں تمام سیاستدان‘ تمام پارلیمنٹیرین اور مقتدرہ‘ سب شامل ہیں! کاش نواز شریف‘ شہباز شریف‘ صدر زرداری‘ آرمی چیف‘ سب اس پر تشویش کا اظہار کرتے۔ پارلیمنٹ میں اس پر بحث ہوتی۔ ایک کمیٹی بنتی جو اس صورتحال کے اسباب پر غور کرتی۔ الیکٹرانک میڈیا پر مباحثے ہوتے! یہ معلوم کیا جاتا کہ ان سوا سولہ لاکھ افراد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ کتنے ہیں؟ ملک پر ہولناک درجے کے اس برین ڈرین (Brain Drain) کے کیا منفی اثرات پڑیں گے؟ جانے والوں میں لیبر کلاس کتنی ہے؟ مگر لگتا ہے کہ اس ملک کا کوئی والی وارث نہیں۔ ذمہ دار افراد اور اداروں کو اس تشویشناک صورتحال کا علم ہے نہ پروا! جیسے کہہ رہے ہوں کہ کھان خصماں نوں! سانوں کی! ایک سابق وزیراعظم نے تو کھلم کھلا کہہ بھی دیا تھا کہ لوگ ملک سے باہر جاتے ہیں تو جائیں! اسی بے رحمانہ انداز میں ایک سابق صدر نے بھی امریکہ میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ یہ عورتیں اس لیے ریپ ہوتی ہیں کہ مغربی ملکوں میں پناہ حاصل کر سکیں! حکمران ملک کا ایک لحاظ سے‘ باپ ہوتا ہے۔ اگر باپ ہی لاتعلق ہو جائے تو بچوں کا کیا بنے گا! گلستانِ سعدی میں ایک دردناک حکایت ہے۔ ایک بادشاہ کو کوئی خطرناک مرض لاحق ہو گیا۔ طبیبوں نے کافی غور وفکر کے بعد تجویز کیا کہ جس نوجوان میں فلاں فلاں صفات ہوں‘ اس کا پِتّہ درکار ہو گا۔ ایک کسان کا بیٹا انہی صفات کا مالک تھا۔ اس کے ماں باپ کو دولت دے کر راضی کر لیا گیا۔ قاضی نے فتویٰ دے دیا کہ بادشاہ کی جان بچانے کے لیے ایک فرد کا خون بہانا جائز ہے۔ جلاد سر قلم کرنے لگا تو نوجوان آسمان کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔ بادشاہ دیکھ رہا تھا۔ اسے اس کا مسکرانا عجیب لگا۔ پوچھا کہ ادھر تمہیں قتل کرنے کے لیے جلاد تیار ہے‘ اُدھر تم آسمان کی طرف منہ کر کے مسکرا رہے ہو‘ آخر کیوں؟ نوجوان نے جواب دیا کہ اولاد کے ناز نخرے والدین اٹھاتے ہیں۔ میرے والدین ہیرے جواہرات لے کر میرے قتل پر راضی ہو گئے۔ مقدمہ قاضی کے پاس لے جاتے ہیں۔ وہ پہلے ہی فتویٰ دے چکا۔ آخری اپیل بادشاہ کے حضور دائر کی جاتی ہے‘ وہ تو خود اپنی جان بچانے کے لیے مجھے قربان کرنا چاہتا ہے۔ اب خدا کے سوا میری کوئی جائے پناہ نہیں۔ چھوڑیے کہ اس کہانی کا انجام کیا ہوا؟ سبق اس حکایت سے یہ ملا کہ سولہ لاکھ پاکستانی صرف ایک سال کے اندر اپنی دھرتی‘ اپنی مٹی‘ اپنے ماں باپ اور اپنے اعزّہ واحباب سے جدا ہو کر پردیس چلے گئے۔ کسی عدالت نے از خود نوٹس لے کر ریاست اور حکومت سے نہیں پوچھا کہ تم ایسے حالات پر خاموش کیوں ہو جن کی وجہ سے لوگ یہاں نہیں رہنا چاہتے۔ صدر اور وزیراعظم قوم کے بچوں کے باپ کی طرح ہیں۔ انہیں اول تو معلوم ہی نہ ہو گا کہ دھرتی مخلوق پر تنگ ہو رہی ہے‘ اور اگر معلوم ہے تو کوئی فکر نہیں کہ بچے اپنا ملک چھوڑ کر کیوں جا رہے ہیں؟ اب ایک ہی راستہ بچا ہے کہ دستِ غیب کچھ کرے اور اس ملک کے حالات بہتر ہوں۔ آسمان کی طرف دیکھ کر فریاد کرنے کا اور چھتوں پر چڑھ کر اذانیں دینے کا وقت ہے۔
خلقِ خدا پاکستان سے کیوں بھاگ رہی ہے؟ مختصر ترین جواب تو یہ ہے کہ یہ انخلا اُس نالائقی‘ خود غرضی اور اونچی سطح کی لوٹ مار کا نتیجہ ہے جو کئی دہائیوں سے اس ملک کو اپنے بے رحم جبڑوں میں لیے راج کر رہی ہے۔ تفصیلی جواب کے لیے صفحوں کے صفحے درکار ہیں۔ یہ جو بہت بڑا انخلا پچھلے سال ہوا ہے اور اس سال بھی جاری ہے‘ اس کی سب سے بڑی اور فوری وجہ ہوشربا گرانی ہے۔ لاکھوں کمانے والے بھی رو رہے ہیں اور ہزاروں کمانے والوں کو تو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ دواؤں سے لے کر آٹے اور دالوں تک اور ٹرانسپورٹ کے کرائے سے لے کر سکولوں کی فیسوں تک‘ کچھ بھی استطاعت میں نہیں رہا۔ زرمبادلہ کے حوالے سے ہماری کرنسی کاغذ کا بیکار ٹکڑا بن کر رہ گئی ہے۔ جو طاقتور افراد اس صورتحال کو بدل سکتے ہیں اور بدلنے کے ذمہ دار ہیں‘ ان کی اپنی ترجیحات ہیں۔ ان کے لیے مہنگائی مسئلہ ہے نہ زرمبادلہ!! دوسرے ملکوں میں وہ جس آسانی سے اور جس کثرت سے جاتے ہیں اس طرح پنڈی سے گوجر خان‘ لاہور سے شیخوپورہ اور کراچی سے حیدرآباد جانا مشکل ہے۔
مگر انخلا کی سب سے بڑی وجہ وہ مایوسی ہے جو عمران خان کی حکومت ختم ہونے اور پرانے چہروں کی واپسی سے عوام میں پھیلی ہے۔ ہم جیسے گستاخ تو تحریک انصاف سے اس کے اقتدار کے آغاز میں ہی مایوس ہو گئے تھے اور اس کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لیے تھے۔ جب دیکھا کہ یہ میلہ تو بزداروں اور گُجروں کی بادشاہی کے لیے سجایا گیا ہے اور تکیہ جادو ٹونوں اور مؤکّلوں پر ہے تو بات کی تہہ تک پہنچ گئے۔ مگر بات سچی کرنی چاہیے۔ لوگوں کی بہت بڑی تعداد اب بھی عمران خان سے امید لگائے بیٹھی ہے۔ وجہ جو بھی ہو‘ شخصیت پرستی یا Cult یا تجزیہ کرنے میں ناکامی یا پرانے چہروں کی واپسی سے پیدا ہونے والی مایوسی اور ناامیدی یا حالتِ انکار یعنی State of denial‘ سچ یہی ہے کہ عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد ملک چھوڑنے کے رجحان میں اضافہ ہوا۔ گرانی اور بے روزگاری اس پر مستزاد ہیں۔
ہمارے ایک طرف بھارت ہے۔ وہ ہم سے کوسوں آگے نکل چکا۔ بہترین ریلوے‘ بہترین انڈر گراؤنڈ ٹرینیں‘ آئی ٹی میں آسمان پر‘ ڈالر پچاسی روپوں میں! دوسری طرف ایران ہے جو ہولناک اور مسلسل عالمی پابندیوں کے باوجود ہم سے آگے ہے۔ لوگ خوشحال ہیں۔ بجلی سستی ہے۔ ساری معیشت‘ تمام کاروباری سرگرمیاں دستاویزی (Documented) ہیں۔ اور تو اور ایک امریکی ڈالر‘ اڑسٹھ افغانی میں مل رہا ہے۔ ہمارا یہی حال رہا تو بہت جلد افغانستان بھی ہمارے مقابلے میں معاشی دیو بن جائے گا۔ ہماری حکومتوں کی نااہلی کا اندازہ اس سے لگا لیجیے کہ عین وفاقی دارالحکومت میں بھی سرجری کرنے والے ڈاکٹر لاکھوں کی فیس صرف اور صرف کیش میں وصول کر رہے ہیں۔ کون کم بخت کہتا ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان کے حالات بہتر ہو جائیں گے۔ مستقبل بعید کے بارے میں بھی کچھ کہنا مشکل ہے:
پاپوش کی کیا فکر ہے دستار سنبھالو
پایاب ہے جو موج گزر جائے گی سر سے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved