دنیا بھر میں گھومتے ہوئے بہت سے ممالک میں ان گنت تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتے دیکھی ہیں لیکن جس تیزی سے دبئی کو تبدیل ہوتے دیکھا ہے‘ تبدیلی کی وہ رفتار اور کہیں دکھائی نہیں دی۔ پہلی بار جب دبئی گیا تو محض دو عدد ماڈرن شاپنگ مالز تھے۔ ایک الغریر شاپنگ مال اور دوسرا برجمان شاپنگ مال تھا۔ یہ دونوں شاپنگ مالز ایک ہی گروپ کی ملکیت تھے۔ ہوٹلوں کے رہائشی کمروں کے دروازوں کے اندر کی طرف ہدایات والے چسپاں کارڈ پر صرف عربی‘ انگریزی اور اردو لکھی ہوتی تھی۔ بازار میں پاکستانی کرنسی مزے سے چلتی تھی۔ ڈیرہ اور بُر دبئی کے علاوہ ریت کے ٹیلے تھے اور ہر طرف خاک اڑتی تھی۔ بہت زیادہ نہ بھی سہی‘ مگر سال دو سال بعد دبئی جانا ہوتا رہتا ہے۔ ہر بار دبئی پہلے سے تبدیل دکھائی دیا۔ تبدیلی بھی کوئی ایسی نہیں کہ جسے معمول کی تبدیلی کہہ سکیں۔ ہر بار ایسی تبدیلی محسوس ہوئی جو معمول سے ہٹ کر تھی اور اسے محسوس کرنے کیلئے تردد نہیں کرنا پڑا۔ عمارتیں‘ سڑکیں‘ پلازے‘ کاروباری ادارے‘ برانڈز‘ بینک‘ تجارتی مراکز‘ ہوٹل‘ صنعتیں اور سیاحت‘ سب کچھ ایسے زمین سے اٹھ کر آسمان کی بلندی پر پہنچا کہ راکٹ کی رفتار سے اوپر جانے والا محاورہ عملی صورت میں دکھائی دیا۔ ارد گرد کے ممالک تو رہے ایک طرف‘ مشرقِ بعید تک اور محنت کشوں سے لے کر دفتری بابوئوں تک کی آمد کے باعث معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ اس ریاست میں مقامی لوگوں کی آبادی یہاں کی کل آبادی کا صرف پندرہ فیصد ہے اور باقی پچاسی فیصد لوگ دوسرے ممالک سے یہاں کام کرنے آئے ہوئے ہیں۔ اگر اس تناسب کو اعداد میں دیکھا جائے تو اس ملک کی کل آبادی تینتیس لاکھ کے لگ بھگ ہے جس میں سے اٹھائیس لاکھ غیر ملکی ہیں جبکہ مقامی افراد کی تعداد پانچ لاکھ سے بھی کم ہے لیکن صورتحال یہ ہے کہ سرکار نے سب غیر ملکیوں کو تیر کی طرح سیدھا کر رکھا ہے اور ایک محاورے کے متعلق سوئی کے ناکے میں سے گزرنے کے قابل بنا دیا ہے۔ اور اس کی واحد وجہ قانون کا سختی سے نفاذ ہے۔ اس ملک کی ترقی‘ استحکام اور دنیا بھر سے آنے والوں کے پیچھے سب سے نمایاں چیز قانون کی حاکمیت ہے۔ کسی کو جرأت نہیں ہوتی کہ وہ قانون کی خلاف ورزی کرے‘ کیونکہ سرکار کی گرفت مضبوط ہے اور سفارش وغیرہ کا کلچر بند ہے۔ تاہم اس ساری سختی اور قانون کے بے رحم نفاذ کے باوجود یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنے لیے سہل راستے نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہاں قانون کی حکمرانی کے باوجود جرائم بہرحال ہوتے ہیں اور یہاں ہونے والے جرائم میں ملوث افراد کا قومیت کی بنیاد پر جائزہ لیں تو سرشرم سے جھک جاتا ہے۔ ملزموں‘ مجرموں اور قید افراد کی تعداد سے قطع نظر‘ اگر ان کا تناسب دیکھا جائے تو کچھ لوگوں کے بقول‘ان تمام افراد میں 80 فیصد پاکستانی ہوتے ہیں‘ تاہم اگر اس جائزے کو نرم بھی کر دیں تو بھی متحدہ عرب امارات میں قید افراد کی کل تعداد میں نصف سے زائد صرف پاکستانی ہیں۔
میرے دبئی میں صرف دو دوست ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ دبئی جائوں اور سہیل خاور اور عامر رزاق سے نہ ملوں۔ پہلی شام دبئی پہنچا تو شام ڈھلے سہیل خاور لینے آ گیا۔ اس نے دس بارہ مزید دوستوں کو اکٹھا کیا اور ایک ریسٹورنٹ کے کنارے اوپن ایئر میں ڈیرہ لگا لیا۔ رات دو بجے تک مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔ وہاں آنے والے ایک دو لوگوں نے مجھ سے بڑی حیرانی سے پوچھا کہ میرا دبئی کا ویزہ کیسے لگ گیا؟ میں نے پوچھا کہ اس ویزہ لگنے میں اتنے اچنبھے کی کیا بات ہے؟ یہ بات مجھے معلوم ہے کہ آج کل متحدہ عرب امارات کا ویزہ پاکستانیوں کیلئے مشکل ہو گیا ہے مگر ویزہ لگنے میں اتنی حیرانی بھی کیسی؟ میرے پاسپورٹ پر یو اے ای کے درجن بھر ویزے لگ چکے ہیں اور میں ہمیشہ ویزوں پر درج تاریخِ روانگی سے بہت پہلے یہاں سے چلا جاتا رہا ہوں۔ نہ ادھر کبھی کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث رہا‘ نہ کسی قانون شکنی کا مرتکب ہوا تو بھلا ویزہ لگنے میں کیا امر مانع تھا۔ ویسے بھی میرے پاسپورٹ پر یورپ ‘ امریکہ‘ کینیڈا اور آسٹریلیا کے علاوہ دیگر کئی ممالک کے کارآمد ویزے لگے ہوئے ہیں‘ ایسے میں مجھے ویزہ ملنا کون سی حیران کن بات ہے؟ سہیل خاور نے میری بات سن کر کہا کہ آپ کی ساری باتیں بظاہر درست ہیں لیکن یو اے ای ویزہ کے بارے میں اگر کوئی پرانی خوش فہمی دل میں موجود ہے تو اسے نکال دیں‘ اس وقت ایسے ایسے پاکستانیوں کے ویزے مسترد ہو رہے ہیں جن کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ یہاں محفل میں دو لوگ ایسے ہیں جنہوں نے یہاں اپنی کمپنیاں بڑی بھاگ دوڑ سے منظور کرائی ہیں لیکن گزشتہ کئی ماہ سے وہ اپنی ان کمپنیوں کیلئے افرادی قوت نہیں بلا پا رہے۔ وجہ یہ ہے کہ ویزے نہیں مل رہے۔ درجنوں بار آئے‘ عام لوگ چھوڑیں‘ سرکاری افسروں اور اچھے بھلے کاروباری حضرات کے ویزے ریجیکٹ ہو رہے ہیں۔ آپ کو جو ویزہ ملا ہے وہ آپ کے ذاتی کوائف سے زیادہ شارجہ والے کتاب میلے کی سرکاری تقریب کی غرض سے ملا ہے۔ ممکن ہے آپ ذاتی کام سے یا کسی عام ادبی تنظیم کے دعوت نامے پر ویزہ لگوانے کی کوشش کرتے تو آپ کا ویزہ مسترد ہو جاتا۔
پھر تو وہاں گویا شکایات اور حقائق کا دفتر سا کھل گیا۔ دوست بتانے لگے کہ یو اے ای والوں نے یہ سب کچھ خوشی سے نہیں کیا۔ یہ سب ہمارے اعمال اور حرکات کا نتیجہ ہے۔ ادھر عالم یہ ہے کہ نوے فیصد بھکاری پاکستانی ہیں۔ لڑائی جھگڑے میں ملوث افراد کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ساٹھ‘ ستر فیصد پاکستانی ہیں۔ ویزے کی مقررہ مدت سے زائد قیام والے افراد کی گنتی کریں تو سرفہرست پاکستانی ہیں۔ وزٹ ویزہ پر خرگوش ہو جانے والوں کی غالب اکثریت پاکستانی ہے۔ خرگوش کی اصطلاح سعودی عرب میں عام طور پر عمرہ ویزہ پر جا کر وہاں غائب ہو جانے والوں کیلئے استعمال ہوتی ہے کہ فلاں خرگوش ہو گیا ہے۔ اب ادھر بھی خرگوش ہونے والے صرف اور صرف پاکستانی ہیں۔ چوری چکاری اور چھینا جھپٹی کے واقعات گو کم ہیں لیکن ان میں بھی پاکستانی بھائی سرفہرست ہیں۔ اللہ معاف کرے‘ خواتین کو جسم فروشی کیلئے ادھر لانے والے مافیا کا تعلق بھی ہماری سرزمین پاک ہی سے ہے۔ استحصال بالجبر کا شکار‘ گھروں میں کام کرنے والی خواتین کو دھوکے سے یہاں لاکر ملازمت کے بہانے دوسرے دھندوں میں لگانے والوں کا تعلق بھی ہمارے ہی دیس سے ہے۔ اب آپ خود بتائیں کہ یہ سب کچھ کتنے دن چل سکتا ہے؟ یو اے ای کے حکام نے ایک دوبار نہیں‘ سینکڑوں بار حکومتِ پاکستان سے ان معاملات پر قابو پانے کیلئے کہا لیکن کسی کے کان پر جون نہیں رینگتی۔ اگر سرکار اس قسم کی حرکات کرنے والے پاکستانیوں کے خلاف نو مئی کی طرز پر ایکشن لیتی تو یہ نوبت نہ آتی۔ اس جملے کے بعد نو مئی کے حوالے سے ایسی گفتگو ہوئی کہ ناقابلِ تحریر ہو گئی۔
ساتھ بیٹھے ہوئے ایک دوست نے کہا کہ ہم پاکستان جائیں تو وہاں لوگ متحدہ عرب امارات کی حکومت کی جانب سے ان اقدامات پر ہمیں طعنہ مارتے ہیں کہ آخر یہ برادر اسلامی ملک ہم مسلمان بھائیوں کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کرتا ہے؟ میرا جواب یہ ہے کہ ایسی حرکات کرنے والی ناخلف اور نافرمان اولاد کواس کا سگا باپ عاق کر دیتا ہے اور سگے بھائی اخبار میں اعلانِ لاتعلقی شائع کروا دیتے ہیں‘ آپ لوگ ابھی تک برادر اسلامی ملک کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔ برادر مسلم ملک پر اسلام کا بوجھ ڈالنے کے بجائے اپنے ذاتی معاملات میں اسلام شامل کرتے ہوئے اپنا کردار ٹھیک کریں۔ یہاں قانون سے تادیر کھلواڑ کے بعد بھلا آپ ان ممالک سے اور کیا توقع رکھتے ہیں۔ برادر اسلامی ممالک ہماری حرکتوں کے نتیجے میں ماں باپ سے زیادہ مہربانی نہیں دکھا سکتے‘ جو ایسی حرکتوں پر اولاد سے لاتعلقی کا اعلان کر دیتے اور عاق نامہ چھپوا دیتے ہیں۔ آپ بہرحال کسی برادر اسلامی ملک کو اپنی اولاد سے زیادہ پیارے نہیں ہو سکتے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved