حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر جو لوگ کف افسوس ملتے ہوئے فریادیں کر رہے ہیں کہ امریکہ نے ڈرون حملہ کر کے مذاکرات کو سبوتاژ کر دیا‘ انہیں پوچھنا چاہیے کہ وہ کس مضبوطی اور طاقت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر جا رہے تھے‘ جو انہیں مذاکرات سبوتاژ ہونے کا صدمہ ہے؟ہمارے حکومتی نمائندے توطالبان سے التجائیں کر رہے تھے کہ ہم سے مذاکرات پر آمادہ ہو جائو اور جواب میں طالبان یوں شرطیں لگا رہے تھے‘ جیسے انہوں نے میدان جنگ میں پاکستان کو گھٹنوں کے بل گرا دیا ہو اور وہ اپنی من مانی شرائط منوا کرمفتوحہ پاکستان میں اپنی مرضی کا اسلام اور اپنا تیار کردہ آئین نافذ کرنے کی پوزیشن میں ہوں۔ ہمارے اور ان کے درمیان کسی مذہبی مسئلے پر بھی تنازعہ نہیں‘ جسے حل کر لیا جائے۔ انہوں نے ہمارے ملک کے ایک حصے پر قبضہ کر کے ممنوعہ علاقہ بنا رکھا ہے۔ جس پر حکومت کی رٹ نہیں۔ جہاں ہماری انتظامیہ نہیں جا سکتی۔ ہماری فوج ادھر جاتی ہے‘ تو اسے گولیوں اور راکٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہماری فوج کے راستوں میں بارودی سرنگیں بچھائی جا تی ہیں۔ گھات لگا کر حملے کئے جاتے ہیں۔ قارئین کو یاد ہو گا‘ جب مذاکرات کی بات چلی تھی‘ تو میں نے کہا تھا کہ طالبان مذاکرات میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لئے دہشت گردی میں اضافہ کریں گے اور ایسا ہوا بھی۔ مذاکرات کی پیش کش کے بعد انہوں نے دہشت گردی کی مزید اور خوفناک وارداتیں کیں۔ جن میں ہمارے ایک جنرل اور اعلیٰ فوجی افسر شہید ہوئے۔ یہ سب کچھ ہماری مذاکرات کے لئے بے تاب حکومت کے کس بل نکالنے کے لئے تھا اور سچی بات ہے ہمارے حکمرانوں نے طرزعمل بھی ایسا اختیار کر رکھا تھا کہ اگر طالبان مذاکرات کے لئے نہ مانے تو پتہ نہیں ہماری کیا حالت ہو جائے گی؟ اصولی طور پر طالبان کی طرف سے مذاکرات کی پیش کش کے جواب میں ہمارے شہریوں اور فوجیوں کو بے رحمی سے شہید کرنے کے واقعات کا مناسب جواب یہ تھا کہ پاکستان کی طرف سے بھی جواب دے کر بتایا جاتا کہ اگر تم ہمیں نقصان پہنچا سکتے ہو‘ تو ہم بھی تمہیں نشانہ بنا سکتے ہیں۔ نتیجہ خیز اور آبرومندانہ مذاکرات اسی صورت میں ہو سکتے ہیں‘ جب دونوں فریقوں کو یقین ہو کہ وہ ایک دوسرے پر غالب نہیں آسکتے اور جنگ کو طوالت دینے سے بہتر ہے کہ صلح کر لی جائے۔میں معاملے کو اس نظر سے دیکھنے کا بھی حامی نہیں۔ کیونکہ پاکستان بہرحال 18 کروڑ عوام کا ملک ہے‘ جسے چند سو یا دوچار ہزار جنگجوئوں کا یرغمالی نہیں بنایا جا سکتا۔ بدنصیبی ہے کہ رہنمائی کرنے والے مطلوبہ ہمت اور حوصلے سے محروم ہیں۔ ورنہ ہماری یہ حالت ہوتی؟ کہ چند قبائلی جنگجوئوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے بجائے‘ انہیں مذاکرات کی دعوتیں دیتے رہیں اور وہ ہم سے بات کرنے کو تیار نہ ہوں۔ جس طرح ہمارے وزیرداخلہ اور وزیراعظم نے طالبان کی طرف سے مذاکرات کے لئے آمادگی پر اظہار اطمینان کیا اور دنیا کو خبریں سنائیں کہ مذاکرات کے لئے رابطے ہو رہے ہیں۔ اس کی حقیقت جوابی بیانات کی صورت میں سامنے آ گئی۔ طالبان نے باربار کہا کہ مذاکرات کے لئے ان کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں کیا گیا اور طنز کئے کہ مذاکرات کی باتیں صرف میڈیا کے ذریعے سننے میں آ رہی ہیں۔ ہمارے ساتھ براہ راست کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔ ہم تو کچھ نہ کر سکے لیکن امریکیوں نے ڈرون حملہ کر کے صورتِ حال بدل دی۔ پچھلے تھوڑے ہی عرصے میں تحریک طالبان پاکستان کی قیادت کو خاصا نقصان پہنچا۔ بیت اللہ محسود کے بعد ولی الرحمن بھی موجود نہ رہے اور ان کے بعد حکیم اللہ محسود نے کافی وقت صرف کر کے‘ اپنے گروپ کو مضبوط کیا اور مختلف گروپوں کو ساتھ ملا لیا یاکمزور گروپوں کو شکست دے کر‘ اپنی صفوں میں شامل کیا اور اس طرح وہ اپنے گروپ کو طاقتور بنانے میں کامیاب رہا۔ اس کی ہلاکت کے بعد یقینی طور پر قیادت کا خلا پیدا ہو گا اور ان کے مختلف گروپ‘ جو حکیم اللہ کی تدبیروں اور طاقت کے ذریعے ایک ڈھیلے ڈھالے اتحاد کا حصہ بن گئے تھے‘ ضروری نہیں کہ وہ دوبارہ پہلے کی طرح متحد ہو جائیں۔ ان کے درمیان قیادت کا مسئلہ بھی آسانی سے حل نہیں ہو گا۔ حکومت پاکستان کو اس وقت ہاتھ پر ہاتھ دھر کے نہیں بیٹھنا چاہیے۔ دوران جنگ جب مذاکرات کی بات چھڑ جاتی ہے‘ تو جنگ کو روکا نہیں جاتا۔ نہ طالبان نے روکی۔ نہ ہم پر واجب ہے کہ ہم ریاست کے باغیوں کے خلاف اپنی کارروائیاں بند کریں۔ دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا۔ ویت نام کی جنگ میں دونوں فریق پیرس کے اندر مذاکرات بھی کرتے رہے تھے اور جنگ بھی جاری رہی تھی اور جنگ کا نتیجہ مذاکرات کے ذریعے حاصل نہیں ہوا تھا۔ جنگ لڑ کے ہی اسے انجام تک پہنچایا گیا تھا۔ ہم بھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ اگر طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع ہو جاتے‘ تو وہ نتیجہ خیز بھی ہو سکتے تھے۔ ہمیں دونوں طرح کی تیاری رکھنی چاہیے۔ جنگ بھی جاری رکھنے کی ضرورت ہے اور مذاکرات کی کوششیں بھی۔ سیدھی سی بات ہے کہ مذاکرات میں وہی کچھ حاصل ہوا کرتا ہے‘ جو میدان میں لے لیا گیا ہو۔ برسرپیکار فریقوں میں سے نہ تو کوئی دوسرے کی باتیں سن کر اپنی پوزیشن کمزور کرتا ہے اور نہ کوئی دوسرے کو اس سے زیادہ حاصل کرنے کا موقع دیتا ہے‘ جتنا اس نے میدان میں حاصل کر لیا ہو۔ ہمیں اپنی جنگ جاری رکھنا ہو گی۔ حکومت پاکستان‘ 18 کروڑ عوام کی ایک منتخب‘ جائز اور قانونی اتھارٹی ہے۔ اپنے شہریوں کی حفاظت کرنا‘ اس کی ذمہ داری ہے۔ حکومت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ باغیوں کے کسی بھی گروپ سے مذاکرات کی خاطر ‘ اپنے شہریوں کو بے یارومددگار چھوڑ دے۔ جب وہ ہم پر حملے کر رہے ہیں اور حملے بند کرنے اور فائر بندی پر تیار نہیں‘ تو ہمیں کس حکیم نے کہا ہے کہ ہم پانی پر تیرتی بطخوں کی طرح اپنے آپ کو شکاریوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں؟ جنگ میں کوئی بھی موقع‘ کسی بھی طریقے سے ہاتھ آئے‘ دوسرا فریق اس کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ ہمارے ہاں جو نیم سیاسی اور نیم مذہبی عناصر‘ طالبان کی ہمدردیوں میں ہلکان ہوئے جا رہے ہیں‘ یہ پاکستانیوں کی محبت کی وجہ سے نہیں۔ ان کی نظریں ملک کے اقتداراعلیٰ پر ہیں۔ وہ طالبان کی آڑ میںاپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے اندر بیٹھی جماعتوں کو عوام نے امور مملکت چلانے کا اختیار دیا ہے۔ انہیں اس لئے منتخب نہیں کیا کہ وہ مملکت کے باغیوں کے ساتھ سمجھوتے کرتے پھریں۔ ریاست کی خودمختاری کو کسی کے پاس گروی رکھنے کا کوئی مجاز نہیں ہوتا۔ ہر منتخب نمائندہ‘ ملک کی خودمحتاری کے تحفظ کا حلف اٹھاتا ہے اور میں تو مذاکرات کی پیش کش کو بھی اس حلف کی خلاف ورزی سمجھتا ہوں۔ برسراقتدار لوگوں کو ہرگز یہ حق نہیں ہے کہ وہ ان لوگوں سے مذاکرات کریں‘ جو آپ کی خودمختاری کو تسلیم نہ کرتے ہوں۔ حکومت کی رٹ کو نہ مانتے ہوں اور آئین کو تسلیم کرنے سے انکاری ہوں۔ ہمارے وزیراعظم مذاکرات کے حوالے سے یہ کہہ چکے ہیں کہ مذاکرات آئین کے تحت ہوں گے۔ ہماری یہی پوزیشن ہونی چاہیے۔ جو آئین کو نہیں مانتا‘ اس کے ساتھ مذاکرات نہیں کئے جاتے۔ اسے ریاستی طاقت کے ذریعے منوایا جاتا ہے کہ یا تو وہ ریاست اور آئین کی عملداری پر یقین کرے‘ ورنہ قانون کا سامنا کرتے ہوئے‘ بغاوت کے مقدمات بھگتے۔ مجھے تو وزیرداخلہ کی باخبری پر بھی تعجب ہو رہا ہے۔ جب دنیا بھر کے میڈیا میں حکیم اللہ کی ہلاکت کی خبریں پوری تفصیل کے ساتھ دی جا رہی تھیں‘ہمارے وزیرداخلہ فرما رہے تھے کہ ان کے پاس ابھی مصدقہ خبر نہیں آئی۔ یہ موقع ہے کہ ایسے طالبان کو مناسب شرائط پر مذاکرات کے لئے آمادہ کیا جائے‘ جو آئین پاکستان کو تسلیم کریں‘ انہیں غیر مشروط معافی دے کر پرامن زندگی گزارنے کا حق دیا جائے اور جو لڑائی پر آمادہ ہوں‘ ان کا مقابلہ کیا جائے۔ دانش مندی یہی ہے کہ اپنے عوام کے ساتھ دشمنی کرنے والوں پر مشکل آئے‘ تو اس کا فائدہ اٹھایا جائے۔ یہ وہی لوگ ہیں‘ جو ہمارے نہتے عوام‘ بچوں‘ عورتوں‘ بزرگوں اور بیماروں تک کو معاف نہیں کرتے۔ ہم پر دھوکے سے حملہ کرتے ہیں اور مساجد میں نمازیوں اور مزاروں پر زائرین تک سے رعایت نہیں کرتے۔ جب چاہتے ہیں نہتوں پر بم چلا کے‘ ان کے جسموں کے پرخچے اڑا دیتے ہیں۔ایسے لوگ‘ جو سلوک ہم سے روا رکھتے ہیں۔ ہماری طرف سے بھی اسی سلوک کے مستحق ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved