تحریر : عرفان صدیقی تاریخ اشاعت     19-11-2024

کوئی لاش گرے‘ کوئی خون بہے‘ کوئی بات بنے!

تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے 24 نومبر کو ''یومِ مارو یا مر جائو‘‘ قرار دے دیا ہے۔ دیکھیے اس بحر کی تہ سے کیا اُچھلتا اور گنبدِ نیلوفری کیا رنگ بدلتا ہے۔
اس سوال کے جواب کیلئے افلاطونی دانش کی ضرورت نہیں کہ تحریک انصاف کو کس نے بند گلی کے اندھے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ پی ٹی آئی کی تخلیق سے لے کر آج تک‘ اٹھائیس برس کے طویل عرصے میں‘ عمران خان نے سیاست کو جمہوری اقدار‘ اُجلی سیاسی روایات‘ وسعتِ نظری‘ کشادہ ظرفی‘ افہام وتفہیم اور خُوئے دل نوازی کے بجائے ہنگامہ وپیکار‘ الزام ودشنام‘ بُغض وانتقام‘ نفرت وعداوت اور جنگ وجدل کا بے رحم کھیل سمجھا۔ اُنہوں نے کبھی اپنی تاریخ پر بھی نظر نہیں ڈالی جو سیاستدانوں کی باہمی تلخیوں اور نفرتوں کے باوجود بعض نہایت روشن نمونے بھی رکھتی ہے۔ پیپلز پارٹی اور اُس کے سیاسی مخالفین کے مابین شدید جنگ برسوں جاری رہی۔ 1977ء کے انتخابی نتائج کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی تحریک نے ایسی قیامت اُٹھا دی کہ لاہور‘ کراچی اور حیدرآباد میں مارشل لاء نافذ کرنا پڑا۔ مذاکرات پھر بھی ہوئے۔ قومی اتحاد کے زندانیوں نے اپنی انا کو مسئلہ بنایا نہ بھٹو سے ہاتھ ملانے میں کوئی عار جانی۔ اس سے بھی پہلے 23 مارچ 1973ء کو خان عبدالولی خان نے راولپنڈی کے لیاقت باغ سے خون میں لت پت درجنوں لاشیں اٹھائیں اور خاموشی سے گھر چلے گئے۔ حکومتِ وقت سے اُن کی رنجش اور غیظ وغضب کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن ''مارو یا مر جائو‘‘ کا نعرہ لگانے اور اپنے بندوق برداروں کو سڑکوں پر لانے کے بجائے وہ میتوں کو دفناتے ہی قومی اسمبلی کے ایوان میں پہنچے‘ صدر ذوالفقار علی بھٹو سے ملے اور 1973ء کے آئین کی منظوری کیلئے اپنا تاریخی کردار ادا کیا۔ لیاقت باغ جلسے کے قتلِ عام اور آئین کی منظوری کے درمیان صرف سترہ دنوں کا فاصلہ تھا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حریفانہ کشمکش کی کہانی زیادہ پرانی نہیں۔ ایک عشرے سے زیادہ عرصے تک یہ آتشکدہ دہکتا رہا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ دونوں سابق وزرائے اعظم کی جلا وطنی کے دوران میں‘ محترمہ بینظیر بھٹو‘ اپنے شوہر آصف علی زرداری کے ہمراہ جدّہ کے سُرور پیلس پہنچیں اور یکم نومبر 2005ء کو پاکستانی سیاست کی تاریخ کا ایک روشن باب رقم کیا۔ اگلے دن سعودی عرب کے معروف اخبار ''عرب نیوز‘‘ نے سُرخی جمائی:
Benazir, Sharif Bury the Hachet
(بینظیر اور نوازشریف نے باہمی اختلافات کو دفن کردیا)
کم ازکم دو مناظر تو عمران خان کی یادداشت میں بھی زندہ ہوں گے۔ 2013ء کی انتخابی مہم کے دوران وہ زخمی ہوئے تو مسلم لیگ (ن) نے اپنی انتخابی مہم دو دن کیلئے معطل کر دی۔ پہلے شہباز شریف اور پھر نواز شریف اُن کی مزاج پُرسی کو پہنچے۔ وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد وزیراعظم نواز شریف بنی گالا‘ خان صاحب کے گھر پہنچے اور ایک نئے سفر کے آغاز کی اپیل کی۔ خان صاحب کی کشتِ سیاست میں ہم آہنگی ومفاہمت کی کوئی کونپل نہ پھوٹی۔ چند ماہ بعد وہ ''نواز شریف کو گھسیٹ کر وزیراعظم ہائوس سے نکالنے کیلئے شاہراہِ دستور پر آ بیٹھے اور کامل چار ماہ بیٹھے رہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد بھی خان صاحب کی سیاست کے رنگ ڈھنگ نہ بدلے۔ کیا آپ کسی ایسے وزیراعظم کا تصور کر سکتے ہیں جو اپنے اقتدار کے 1330 دنوں میں ایک بار بھی قائدِ حزب اختلاف سے مکالمہ نہ کرے اور ایک بار بھی ہاتھ تک نہ ملائے؟ اُفتادِ طبع کی اس تندی وتیزی کا نتیجہ یہ نکلا کہ عمران خان‘ سیاست میں پرلے درجے کی بے ہُنری اور انتہا کو پہنچی بے حکمتی کا نوحہ بن کر رہ گئے۔ اُستاد ابراہیم ذوقؔ نے کہا تھا:
کم ہوں گے اس بساط پہ ہم جیسے بدقمار
جو چال ہم چلے سو نہایت بُری چلے
''یوم مارو یا مر جائو‘‘ تک آ پہنچنے کا سبب یہ ہے کہ عمران خان تحریک عدمِ اعتماد کے ذریعے اقتدار بدر ہونے کے بعد سے اب تک مسلسل غلط پتّے چل رہے ہیں۔ ایک کے بعد ایک غلطی اور ایک کے بعد ایک ناکامی نے اُنہیں بند گلی میں لاکھڑا کیا ہے۔ تازہ ترین ''فائنل کال‘‘ کا اصل محرک یہ ہے کہ 190 ملین پائونڈ کا مقدمہ تمام تر ٹھوس شواہد کے ساتھ کنارے آن لگا ہے۔ جنرل (ر) فیض حمید کا کورٹ مارشل‘ 9 مئی کے کئی راز اُگل سکتا ہے۔ جلسے جلوسوں کی جارحانہ حکمت عملی اور پسِ پردہ کی دلربائی‘ اُس قبیلے کا دل موم نہیں کر سکی جس سے خان صاحب‘ مشکل کشائی کی امیدیں وابستہ کیے بیٹھے ہیں۔ ''گڈ ٹو سی یو‘‘ عدلیہ کا باب بھی بند ہو چکا ہے۔ لاکھوں کروڑوں ڈالر خرچ کرکے‘ امریکی ارکانِ کانگریس کے ذریعے پاکستان کے چہرے پر کالک تھوپنے کی کوششیں‘ بھارت اور ہمارے دشمنوں کے دلوں میں تو ضرور لالہ وگُل کھلا رہی ہیں‘ پاکستان پر کوئی اثرات نہیں ڈال رہیں۔ آخری حربہ یہی ہے کہ فتنہ وفساد کی آگ بھڑکائی جائے۔ کچھ لاشیں گریں‘ کچھ خون بہے‘ کچھ شعلے بھڑکیں‘ کچھ عمارتیں بھسم ہوں اور اس آتشیں احتجاج کی حدّت سے فوج کا دل اور اڈیالہ جیل کے آہنی وفولادی دروازے موم کی طرح پگھل جائیں۔
برطانوی اخبار ''گارڈین‘‘ نے کہا ہے کہ ''عمران خان کی تازہ مہم جوئی کا اصل مقصد فوج کو مذاکرات پر مجبور کرنا ہے‘‘۔ لیکن فوج واضح کر چکی ہے کہ پہلے 9 مئی کے حملوں پر پوری قوم سے معافی مانگو‘ پھر ہم سے نہیں سیاسی جماعتوں سے بات کرو۔ مگر خان صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اٹھائیس برس سے اپنا طرۂ امتیاز بنائے بیانیے ''چور اور ڈاکو‘‘ کے اسیر ہو چکے ہیں۔ اڈیالہ کا پھاٹک کھل بھی جائے تو وہ ''چور اور ڈاکو‘‘ بیانیے کی کال کوٹھڑی سے کیسے نکلیں جسے اندر سے تالا ڈال کر انہوں نے چابی سلاخوں سے باہر پھینک دی ہے۔ پیپلز پارٹی اپنی قربانیوں‘ جمہوری جدوجہد‘ 1973ء کے آئین‘ اٹھارہویں ترمیم اور پارلیمانی کردار پر فخر کرتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) تعمیر وترقی کے منصوبوں‘ جدید انفراسٹرکچر‘ عوامی فلاح وبہبود‘ معاشی ترقی‘ ایٹمی دھماکوں اور توانا خارجہ پالیسی کو اپنے نامۂ اعمال کا حسن خیال کرتی ہے۔ پی ٹی آئی کے پاس 'چور اور ڈاکو‘ کی کریانہ فروشی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ عمران خان کو معلوم ہے کہ جس دن وہ نواز‘ شہباز‘ زرداری اور بلاول کے ساتھ بیٹھیں گے اور یہ منظر ٹی وی سکرینوں کی زینت بنے گا‘ اُس دن پی ٹی آئی کی اٹھائیس منزلہ عمارت دھڑام سے زمیں بوس ہو جائے گی اور خان صاحب کیلئے اپنے پیروکاروں سے آنکھیں ملانا بھی مشکل ہو جائے گا۔ چور‘ چور نہ رہے‘ ڈاکو‘ ڈاکو نہ رہے‘ تو تماش بینوں کا مجمع لگانے کیلئے خان صاحب کی پٹاری میں کیا رہ جائے گا؟ سو مسئلہ اڈیالہ جیل نہیں‘ خان صاحب کے بیانیے کا وہ فولادی قلعہ ہے جس کے اندر وہ بند ہو چکے ہیں اور جس سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ بھی نہیں چھوڑا۔
خان صاحب کے ایک یارِ وفا شعار‘ علی محمد خان نے کہا ہے ''خان صاحب نے بتایا کہ مجھے موت قبول ہے‘ یزید کی بیعت نہیں کروں گا‘‘۔ دوسری ہی سانس میں انہوں نے التجا کرتے ہوئے ''یزید‘‘ کو اپنی امیدوں کا مرکز ومحور قرار دیا ہے۔ بے حکمتی‘ بے ہُنری اور بے تدبیری کا سورج سوا نیزے پہ کھڑا ہے اور مایوسی ونامرادی کی انتہا کو پہنچی بے سمتی‘ ایک اور 9 مئی کی تلاش میں بھٹکتی قدیم داستانوں کے بدمست دیو کی طرح ''آدم بو آدم بو‘‘ پکار رہی ہے۔ زنداں کے کسی گوشے سے اٹھتی آرزوئے بے تاب راولپنڈی کے اونچے برجوں کو بوسے دیتی‘ شاہراہِ دستور کے عین اوپر فاختائی بادلوں کے ساتھ رقص کرتی‘ دھیمے سُروں میں دیپک راگ الاپ رہی ہے:
کوئی آگ لگے‘ کوئی شہر جلے‘ کوئی بات بنے!
کوئی لاش گرے‘ کوئی خون بہے‘ کوئی بات بنے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved