تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     19-11-2024

انسان یا کتابوں کی الماری؟

تعلیم کیا ہے؟ جاننا۔ جاننے کے ذرائع کیا ہیں؟ آنکھ‘ کان‘ ناک‘ پاؤں‘ ہاتھ۔ ان ذرائع سے جو معلومات حاصل ہوتی ہیں‘ وہ علم کیسے بنتی ہیں؟ جب وہ ایک دماغ میں جمع ہوتی اور پھر ایک معنی اختیار کر لیتی ہیں۔ معلومات علم نہ بن سکیں تو انسان اور کتابوں کی الماری میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ ایک نظامِ تعلیم کا بنیادی مقصد کیا ہے؟ ابن آدم کو انسان بنانا یا کتابوں کی الماری؟
جو نظامِ تعلیم ایک بچے میں یہ صلاحیت پیدا نہیں کرتا کہ وہ معلومات کو علم میں ڈھال سکے‘ وہ ناقص ہے۔ اس لیے یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں میں دیکھنے اور سننے کے بعد پرکھنے کی خاصیت پیدا کرے۔ اس کے لیے ایسی سرگرمیاں لازم ہیں کہ نظامِ تعلیم کا حصہ بنیں جن سے ذہنی افق وسیع ہوتے اور بچوں میں ستاروں سے آگے کے جہاں دیکھنے کی جستجو پیدا ہوتی ہے۔ وفاقی سیکرٹری تعلیم محی الدین وانی صاحب کو اس کا ادراک ہے۔ اس بات کے حق میں بہت سے شواہد موجود ہیں۔ تازہ ترین شہادت 'پاکستان لرننگ فیسٹیول‘ ہے جو نومبر کے دوسرے ہفتے میں‘ تین دن کے لیے اسلام آباد میں منعقد ہوا۔
ایک غیر سرکاری ادرہ پہلے سے اس کا اہتمام کر رہا تھا۔ وفاقی سیکرٹری تعلیم نے اس محدود سرگرمی کو ایک قومی میلے میں بدل دیا۔ اس میں اسلام آباد اور ملک کے دوسرے حصوں سے بلامبالغہ ہزاروں کی تعداد میں طلبہ وطالبات نے شرکت کی۔ تین دن کے لیے اسلام آباد میں متنوع سرگرمیوں کا اہتمام کیا گیا‘ جس کا مقصد بچوں میں یہ صلاحیت پیدا کرنا تھا کہ وہ اپنے ذہنی افق کو وسیع کریں۔ معلومات کے دائرے کو بڑھائیں اور یہ جانیں کہ معلومات علم کیسے بنتی ہیں۔ یہ نصابی تعلیم سے ماسوا ایک عمل ہے۔
اس فیسٹیول میں مثال کے طور پر 'سائنس تماشا‘ نام کی ایک سرگرمی تھی جس میں بچوں کو کائنات کے رازوں کے بارے میں بتایا گیا۔ 'سنو کہانی میری زبانی‘ کے عنوان سے منعقد ہونے والے سیشن میں کہانی سنانے کی روایت کا احیا ہوا۔ 'آؤ مل کر خواب دیکھیں‘ میں مستقبل کی بات کی گئی۔ ماحولیات جیسے مسائل پر بچوں کو حساس بنایا گیا۔ بچوں کی لکھی ہوئی کتب کی رونمائی ہوئی۔ بچوں کو یہ سکھایا گیا کہ تخلیقی تحریر کیا ہوتی ہے۔ اچھی کتب سے طلبہ وطالبات کو متعارف کرایا گیا۔ مصوری اور دوسرے فنون کے بارے میں سیشن ہوئے‘ جس میں ڈرائنگ کے ذریعے انتقالِ علم پر بات ہوئی۔ تین دن میں تین سو سیشن ہوئے جن میں اتنے بچے شریک ہوئے کہ کالج کے وسیع میدان چھوٹے پڑ گئے۔
یہ وہ سرگرمی تھی جس کے لیے ہمارے بچے ترس گئے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں نصابی سرگرمیوں اور امتحانات میں اچھے گریڈ لینے کے دباؤ نے بچوں کو ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ انہیں یہ بتایا ہی نہیں گیا کہ تعلیم کا مقصد صرف امتحانات میں نمبر لینا نہیں‘ سیکھنا ہے۔ سیکھنا ممکن نہیں اگر آپ کی آنکھیں کھلی نہیں اور آپ سوچتے نہیں۔ پرانے خیالات کو قبول کرنے کے لیے بھی لازم ہے کہ انہیں شعوری طور پر اپنایا جا ئے۔ اس کے ساتھ نئے خیالات کے لیے ذہن کے دروازے کھلے رکھے جائیں۔ اس وقت کلاس روم میں جو گھٹن ہے‘ اس نے طالب علم کو باغی بنا دیا ہے۔ وہ یہ خیال کر تا ہے کہ اسے قید خانے میں چند گھنٹے گزارنے ہیں اور اس وقت کا انتظار کرنا ہے جب اس سے نجات ملے۔ اس نوعیت کے فیسٹیول حبس کے اس موسم میں خوش گوار ہوا کا جھونکا ہیں۔
علامہ اقبال اپنے نظامِ تعلیم کے شدید ناقد تھے جو بچوں کو صرف ناقل اور مقلد بناتا ہے۔ تقلید بھی بری نہیں اگر شعوری احساس کے ساتھ ہو۔ ان کا یہ شعر تو ہم میں سے اکثر کو ازبر ہے لیکن ہم نے اس کو اپنانے کی کم ہی کوشش کی ہے:
گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لا الٰہ الا اللہ
'ضربِ کلیم‘ میں اقبال کی ایک مختصر نظم ہے 'مہمانِ عزیز‘۔ اس میں بھی وہ یہی پیغام دیتے ہیں کہ انسان کے ذہن کو کھلا رہنا چاہیے۔ کسی وقت بھی نئے خیالات اس کے دروازے پر دستک دے سکتے ہیں:
چاہیے خانۂ دل کی کوئی منزل خالی
شاید آ جائے کہیں سے کوئی مہمانِ عزیز
مدرسے سے مراد ہر تعلیمی درس گاہ ہے‘ دینی ہو یا غیر دینی۔ اس باب میں سب کا حال یکساں ہیں۔ اگر دینی مدرسے سے کوئی ابن تیمیہ یا شاہ ولی اللہ پیدا نہیں ہوا تو نئی تعلیم کے اداروں سے بھی کوئی نیوٹن یا آئن سٹائن پیدا نہیں ہوا۔ وجہ ایک ہی ہے: ایک ایسا تعلیمی ماحول جو نشاطِ فکر کے لیے سازگار نہیں۔ غیر نصابی سرگرمیوں کا تصور ختم ہو گیا ہے یا پھر اس میں کوئی ندرت نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر سال ہزار میں نو سو نوے نمبر لینے والا بھی میرٹ پر پورا نہیں اترتا کہ کسی میڈیکل کالج میں داخلہ لے سکے۔ نمبر منوں کے حساب سے اور علم چھٹانک برابر نہیں۔
سیکرٹری تعلیم نے اس سارے تعلیمی نظام پر نظرِ ثانی کی ہے۔ وفاقی تعلیمی اداروں میں ایسی سرگرمیوں کا آغاز کیا ہے جن سے مطلوب یہ ہے کہ ہماری نئی نسل جسمانی اعتبار سے توانا ہو اور ذہنی حوالے سے بھی۔ پہلی بار اسلام آباد میں بچوں کو معیاری کھانا ملنے لگا ہے۔ بعض نجی اداروں کے تعاون سے اس کا اہتمام کیا گیا ہے کہ ان بچوں کو نہ صرف صحت مند کھانا ملے بلکہ اس کے ساتھ تعلیمی اداروں کے باہر ایسے ٹھیلے بھی نہ ہوں جہاں مضرِ صحت چیزیں ملتی ہوں۔ اس کے ساتھ ذہنی سطح کے لیے بھی کھیلوں اور فیسٹیول کا اہتمام ہو رہا ہے۔ تعلیمی اداروں کو جمالیاتی اعتبار سے بھی بہتر بنایا جا رہا ہے۔
کردار سازی کے لیے‘ اس سال اگست سے ایک پروگرام پر عمل درآمد کا آغاز ہو چکا۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کے آخری رسولﷺ کی سیرت سے ماخوذ اخلاقیات کو سامنے رکھتے ہوئے‘ بچوں میں مختلف اخلاقی خصائص پیدا کیے جائیں۔ قومی رحمۃ للعالمین وخاتم النبیین اتھارٹی نے وزارتِ تعلیم سے مل کر ایک حکمتِ عملی بنائی ہے جو سامنے رکھتے ہوئے سیرت سازی کا یہ پروگرام ترتیب دیا گیا ہے۔ سیکرٹری تعلیم نے اس میں ذاتی دلچسپی لی اور محض چند مہینوں میں یہ پروگرام تصور سے حقیقت بن گیا۔ اس حوالے سے صوبوں سے بھی رابطہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اس پروگرام کو اپنا لیں۔ اس سے تعلیمی ماحول میں ان شاء اللہ ایک بڑی اخلاقی تبدیلی آئے گی۔
یہ تعلیمی فیسٹیول‘ یہ امید کی جا نی چاہیے کہ ایک نئے دور کا نقطہ آغاز ہو۔ اس میں سرکاری کے ساتھ نجی تعلیمی اداروں کے طلبہ وطالبات بھی شریک ہوئے۔ ہمیں اپنے بچوں کو جسمانی اور ذہنی طور پر صحت مند بنانا ہے۔ اسی نسل کے ساتھ پاکستان کا مستقبل وابستہ ہے۔ نوجوانوں نے جو بننا تھا بن چکے۔ اب ہمیں بچوں کی تعلیم وتربیت کو مرکز بنانا چاہیے۔ پندرہ برس بعد ملک کی زمام کار ان کے ہاتھ میں ہو گی۔ اگر ہم نے ان کو درست راہ دکھا دی تو ان کا منزل تک پہنچنا آسان ہو جائے گا۔ اس وقت ہماری تہذیب کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ ان کا حل یہ ہے کہ جرأت کے ساتھ اس کا سامنا کیا جا ئے۔ گریز یا فرار کوئی راستہ نہیں ہے۔ ہم اپنی نئی نسل کو جدید علم سے آراستہ کریں تا کہ وہ اپنے تہذیبی پس منظر میں اس چیلنج کو سمجھے۔ اگر ہم نے خود ان کی تعلیم کا اہتمام نہ کیا تو وہ دوسرے ذرائع سے ان تک پہنچے گی اور وہ ممکن ہے ہمارے لیے ایک تہذیبی چیلنج بن جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved