عجیب صورتحال لگ رہی ہے اور اس صورتحال کے کئی نکات ہیں‘ جو آسانی سے سمجھ نہیں آ رہے۔ احتجاج کا اعلان پی ٹی آئی نے تو کر دیا ہے اور نومبر 24کو آخری اور فائنل راؤنڈ قرار دیا ہے۔ چیف منسٹر ہاؤس پشاور میں تواتر سے حکمت عملی طے کرنے کیلئے نشستیں ہوئی ہیں اور پہلی بار بشریٰ بیگم سامنے آئی ہیں۔ خطاب کیا ہے جس میں یہ تلقین کی ہے کہ اس احتجاج میں لیڈروں اور ورکروں کو اپنی کمٹمنٹ کا ثبوت دینا ہو گا۔ اور وہی پارٹی کا کہلائے گا جو احتجاج میں شرکت کرے۔ یہ عندیہ بھی دیا گیا ہے کہ زبانی جمع خرچ سے کام نہیں چلے گا اور لیڈران اور ایم این ایز‘ ایم پی ایز کو اپنی شرکت کا وڈیو ثبوت پیش کرنا ہو گا۔ گاڑیوں کی گنتی سے بھی کام نہیں چلے گا‘ یہ دکھانا ہو گا کہ گاڑیوں کے بیچ بندے کتنے ہیں۔
جب یہ تیاریاں احتجاج کی کال دینے والی جماعت کر رہی ہے تو دوسری طرف حکومت تقریباً غائب لگتی ہے۔ صرف کمزور وکٹ پر کھیل نہیں رہی بلکہ اب تک کا تاثر تو یہی ہے کہ وکٹ کو مکمل چھوڑ دیا ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت میں وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ تھے۔ پی ٹی آئی کی ہر بات کا اس انداز سے جواب دیتے تھے کہ پتا چلتا تھا کہ وزارتِ داخلہ میں کوئی بیٹھا ہوا ہے۔ تماش بینوں کو یاد ہو گا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ ایک معرکے میں اُنہوں نے کہا تھا کہ ہم نے خاص قسم کے آنسوگیس شیل اکٹھے کیے ہوئے ہیں اور پی ٹی آئی والوں کو ان کا اثر پتا چل جائے گا۔ میں غلطی پر ہو سکتا ہوں لیکن کم از کم مجھے تو یہ لگ رہا ہے کہ حکومتی مورچے بالکل خالی پڑے ہیں۔ بحیثیت جماعت (ن) لیگ میں وہ پرانا اعتماد رہا ہی نہیں۔اب وہ فالتو کی بڑھکیں مارنے کے بھی قابل نہیں رہے۔ جنیوا کی سیر کی تصویروں نے ویسے ہی نواز شریف اور مریم نواز کا ایک عجیب تاثر پبلک کی نظروں میں پیدا کر دیا ہے۔ یہاں لاہور اور پنجاب سموگ کی گرفت میں تھے اور اُدھر سی ایم صاحبہ ہمراہ چیف سیکرٹری پنجاب اور مریم اورنگزیب‘ جنیوا کی سیر کر رہی تھیں۔ جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے اُس نے (ن) لیگ سے کچھ دوریاں اختیار کر لی ہیں۔ بلاول نے کچھ گلے شکووں کا اظہار کیا ہے اور گو یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں لیکن اتنا تو ہوا ہے کہ نومبر 24 کا جو معرکہ قریب آ رہا ہے اُس میں (ن) لیگ اکیلے ہی نظر آ رہی ہے۔ بچے بچے کو پتا ہے کہ اُن کو ڈھارس کس کی ہے لیکن پیچھے سے جو بھی ٹیک ہو‘ آگے والوں کو بھی تو کچھ کرنا ہوتا ہے۔ لیکن اس موقع پر (ن) لیگ نے اپنے ہتھیار پہلے سے ہی زمین پر رکھ دیے ہیں۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے مجھے نہیں سمجھ آ رہی۔ اس کے پیچھے کوئی راز ہو گا لیکن ہم لاچاروں کو اُس کا پتا نہیں۔
پھر پی ٹی آئی کا اعتماد ہے‘ وہ بھی حیران کن لگتا ہے۔ ایک ہفتہ پہلے کی بات ہے کہ لگتا تھا علی امین گنڈا پور کی ڈی چوک والی واردات کے بعد پی ٹی آئی کچھ سہم یا تھک سی گئی ہے۔ جب سی ایم گنڈاپور نے کے پی اسمبلی میں یہ وضاحت دی کہ وہ اسلام آباد سے نکلے تومارگلہ پہاڑیوں کو عبور کرتے ہوئے دس بارہ ضلعوں کی مسافت طے کرکے پشاور پہنچے ہیں تو یار دوست ہنس پڑے تھے کہ یہ کون سا ناٹک بیان کیا جا رہا ہے۔ ابھی چند ہفتوں کی بات ہے اور یکایک بانی پی ٹی آئی نے احتجاج کی کال دے دی اور چند ہی دنوں بعد ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی میں ایک نیا ولولہ آ گیا ہے۔ ذاتی طور پر میں نے سمجھا تھا کہ ان بار بار احتجاج کی کالوں کا فائدہ کیا ہے‘ ورکروں اور حمایتیوں کو تھکانے کی بات ہے۔ دو تین روز پہلے ڈھڈیال ایک شادی پر چند دوستوں میں بیٹھے اس رائے کا اظہار بھی میں کچھ زیادہ ہی کرگیا۔ لیکن اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں غلطی پر تھا اور اس بار ایک نئے انداز سے جماعت اپنے آپ کو موبلائز کر رہی ہے۔
ڈان اخبار کی ایک خبر سے بھی مجھے خاصی حیرانی ہوئی۔ 19 نومبر کی اس رپورٹ میں بتلایا گیا کہ اسلام آباد پولیس کے حکام نے نومبر 24 کو دفاعِ اسلام آباد کیلئے بائیس ہزار نفری کی درخواست کی ہے۔ سینکڑوں کنٹینروںکا ذکر ہے‘ ربڑ بُلٹس اور آنسو گیس شیلوں کی بھاری تعداد کی مانگ ہے۔ دارالحکومت کو ایک بار پھر بند کر دیا جائے گا۔ خبر پڑھ کر بڑا عجیب سا محسوس ہوا جیسے ہمارے حکام کسی شکستہ کیفیت میں جا چکے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ حکام کو ایسی خبروں کا ذریعہ بننا نہیں چاہیے کیونکہ اس سے غلط تاثر پیدا کرنے کا خدشہ ہوتا ہے کہ جیسے حکام پہلے سے ہی ڈرے ہوئے ہیں۔ سچ پوچھئے تو یہ مجموعی صورتحال مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ یکایک پی ٹی آئی اتنے فرنٹ فٹ پر اورسرکار اتنے بیک فٹ پر کیسے آ گئی ہے۔ ایک اہم بات کو ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے۔ بلوچستان میں تو حالات خراب ہیں ہی لیکن اسلام آباد کے قریب بلوچستان نہیں خیبر پختونخوا پڑتا ہے۔ اور جیسا ہم دیکھ چکے ہیں‘ اسلام آباد میں ہر احتجاج کو کلیدی تقویت کے پی سے ملتی ہے۔ کے پی کے سکیورٹی حالات بھی بہت خراب ہیں۔ آئے روز حملے ہو رہے ہیں‘ قیمتی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے اور جیسا کہ خبریں آ رہی ہیں‘ کے پی کے جنو بی اضلاع میں شام ڈھلے خطرناک عناصر کا راج شروع ہو جاتا ہے‘ یقینا یہ بھی سرکار پر شدید دباؤ کا باعث ہے۔ یکسوئی سے کسی خطرے کا مقابلہ تبھی ہو سکتا ہے جب مڑ مڑ کے پیچھے نہ دیکھنا پڑے۔ اسلام آباد میں کنٹینر تو لگ جائیں گے‘ پولیس کی چوکیاں بھی قائم ہو جائیں گی لیکن ساتھ ہی کے پی کی بگڑتی صورتحال بھی حکام کے ذہنوں پر ایک بھاری بوجھ کی طرح رہے گی۔
پبلک کا موڈ بھی ایک اہم فیکٹر ہے۔ سارے پاکستانی عوام پی ٹی آئی کے حامی نہ ہوں گے لیکن اجتماعی بیزاری اور غصے کا لیول بھی بہت زیادہ ہو چکا ہے۔ حکومتوں میں بھی اعتماد تب آتا ہے جب پتا ہو کہ عوام ہمارے ساتھ ہیں‘ عوامی حمایت نہیں تو کم ازکم عوامی ہمدردی ہمیں حاصل ہے۔ لیکن اس وقت رائے عامہ کی سوچ کا سب کو علم ہے۔ کسی چیز پر عوام کا اعتماد رہا نہیں‘ لوگوں میں بے چینی ہے‘ حالات سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ دنیا میں بہت سے ممالک ہیں جن کے حالات ہم سے کہیں زیادہ گئے گزرے ہیں لیکن ہمارے ہاں ایک عجیب سی نفسیاتی کیفیت بن گئی ہے۔ ایسی صورتحال میں حکومتوں کا دھیان بٹ جاتا ہے‘ یکسوئی سے کوئی کام ہوتا نہیں۔ چھوٹی سی بھی کوئی بات ہو تو حکومتیں اوور ری ایکٹ کر جاتی ہیں۔ جیسا کہ یہاں ہو رہا ہے۔ مقدمات پہ مقدمات بنائے گئے ہیں‘ پچھلے سال مئی کے ایک دن کا اتنا ذکر ہو چکا ہے لیکن ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود کہیں چالان نہیں پیش ہو سکا۔ اس مقدمے کی زد میں آئے لوگ اندر گل سڑ رہے ہیں لیکن کوئی پرسانِ حال نہیں۔ مسائل اور ہیں حکومتی حلقوں کا دھیان کہیں اور لگا ہوا ہے۔
ہوش کے ناخن کون لے؟ پوری قوم کو لینے چاہئیں۔ جو کچھ بلوچستان اور کے پی میں ہو رہا ہے یہ خطرے کی گھنٹیاں کیا گھنٹہ گھر ہیں۔ دو باقاعدہ جنگوں میں ریاست پھنسی ہوئی ہے۔ اوپر سے ایک اندرونی محاذ ہے جسے ٹھنڈا کرنے کی کوئی خاطر خواہ کوشش نہیں کی جا رہی۔ کیا آفت اس ملک پہ آ ن پڑی ہے کہ بڑی یا چھوٹی جس محفل میں بیٹھیں لوگ حالات پہ غم وغصے کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ بولتے بولتے لوگ پھٹ پڑتے ہیں‘ یہ اجتماعی کیفیت ہماری بن چکی ہے۔ ہوش مندی کی اپیل کس سے کریں؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved