تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     20-11-2024

برطانوی پروفیسر رومن کی باتیں

برطانوی پروفیسر رومن کی باتیں دل کشا بھی تھیں اور چشم کشا بھی۔ پروفیسر صاحب حال ہی میں نون بزنس سکول یونیورسٹی آف سرگودھا کی دو روزہ انٹرنیشنل کانفرنس میں شرکت کیلئے خصوصی طور پر لندن سے آئے تھے۔ پروفیسر رومن سرگودھا میں چار پانچ روزہ قیام کے بعد لاہور آئے تو میری ان سے یونیورسٹی کے ایک سابق پروفیسر کی حیثیت سے ایک دلچسپ ملاقات ہوئی۔ ان کی بعض باتوں سے دل بہت شاد ہوا اور ہماری اکانومی کے بارے میں ان کی آبزرویشنز سے خاصا پریشان بھی ہوا۔
پروفیسر صاحب پہلی مرتبہ پاکستان آئے تھے۔ اس سے پہلے وہ ہمارے خطے کے بہت سے ممالک میں بزنس کانفرنسوں اور منصوبہ بندی کی میٹنگز میں اپنی ماہرانہ تجاویز دینے کیلئے جا چکے ہیں۔ پروفیسر موصوف کا کہنا تھا کہ پاکستانی لوگ خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ مہربان اور مہمان نواز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھ سمیت بیرونِ ملک سے آئے ہوئے دیگر پروفیسروں کو یونیورسٹی آف سرگودھا میں آئی ٹی کی وسیع تر سہولتیں‘ بزنس آئیڈیاز سنٹر اور بہت بڑا ایڈیٹوریم دیکھ کر دلی مسرت ہوئی۔ بلامبالغہ دنیا کی کم ہی یونیورسٹیوں میں ایسی سہولتیں نظر آتی ہیں۔ مہمان پروفیسر نے بتایا کہ یہ دیکھ کر مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ یونیورسٹی کے طلبہ نہایت پُراعتماد تھے۔ اُن کا ورلڈ ویو بھی خاصا وسیع تھا۔ انگریزی میں بات چیت کرتے ہوئے انہیں کوئی جھجک یا ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ لنچ پر بھی طلبہ و طالبات کی بے تکلف باتوں سے میں محظوظ ہوا کہ وہ آدابِ گفتگو سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ طلبہ کی کارکردگی ہمیشہ اساتذہ کی محنت کا عکس ہوتی ہے۔ بزنس سکول کے طلبہ و طالبات کے سوالا ت سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے ملک کی اقتصادی صورتحال سے کسی حد تک آگاہ ہیں بلکہ دوسرے ممالک کی تیز رفتار ترقی کا ادراک بھی رکھتے ہیں۔
نون بزنس سکول یونیورسٹی آف سرگودھا کی انٹرنیشنل کانفرنس کا موضوع تھا: ''مسلسل جاری رہنے والی بزنس ترقی‘‘۔ اس کانفرنس میں کئی ممالک سے آئے ہوئے مہمان پروفیسروں نے ہمارے زمینی و اقتصادی حقائق کی روشنی میں تحقیقی مقالہ جات پیش کیے۔ پروفیسر رومن متسوق (Roman Matousek)کا تعلق کوئین میری یونیورسٹی لندن سے ہے جبکہ پروفیسر سعید اکبر بریڈ فورڈ یونیورسٹی لندن میں بزنس کے سینئر استاد کی حیثیت سے تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ملائیشیا کی یونیورسٹی آف اترایا سے پروفیسر ڈاکٹر ضالحہ عثمان نے اس بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کی اور اپنے ملک میں ڈاکٹر مہاتیر محمد کے عالمی شہرت یافتہ ترقیاتی ماڈل کے حوالے سے عملی مثالیں دے کر ایسی تجاویز دیں کہ جن پر عمل پیرا ہو کر پاکستان بھی اپنی معیشت کو ترقی یافتہ اور اپنے لوگوں کو خوشحال بنا سکتا ہے۔یونیورسٹی آف سرگودھا کے وائس چانسلر ڈاکٹر قیصر عباس کا تعلق بھی بزنس ایڈمنسٹریشن کے شعبے سے ہے‘ وہ انٹرنیشنل کانفرنسوں میں اپنے تحقیقی مقالہ جات پیش کرتے رہتے ہیں۔ ان کی قیادت میں نون بزنس سکول کے چیئرمین پروفیسر عرفان شہزاد‘ ڈائریکٹر تحقیق و کمرشل پراگریس ڈاکٹر احمد رضا بلال‘ ڈاکٹر نوید مشتاق اور بزنس آئیڈیاز سنٹر کے انچارچ سلمان پراچہ وغیرہ کی اَنتھک محنت سے عالمی معیار کی اس بزنس کانفرنس کا انعقاد ممکن ہوا۔
ڈاکٹر رومن پروفیسر آف فنانشل اکنامکس ہیں۔ اس سے پہلے وہ ڈائریکٹر ریسرچ اور ڈائریکٹر گلوبل سنٹر برائے بینکنگ اور مالیاتی پالیسیز کی حیثیت سے بھی کئی یونیورسٹیوں میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ایک مقامی ہوٹل میں مَیں نے ڈاکٹر رومن کی پیالی میں چائے دانی سے گرم چائے انڈیلتے ہوئے پوچھا کہ پروفیسر! ہماری اقتصادی صورتحال میں بہتری کیسے آ سکتی ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ سچی بات تو یہ ہے کہ ساری دنیا میں معاشی ترقی و خوشحالی ناپنے کا پیمانہ جی ڈی پی فی کس آمدنی ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے میں قارئین کو بتا دوں کہ یہ پیمانہ کیا ہے۔ سال بھر کی کسی ملک کی آمدنی کو ساری آبادی پر تقسیم کر دیا جائے تو فی کس سالانہ آمدنی کا تعین ہو جاتا ہے۔ اب ذرا دل تھام کر سنیے کہ اس پیمانے کے آئینے میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی فی کس سالانہ آمدن 2485ڈالر‘ چین کی 12ہزار 597ڈالر‘ یو کے کی تقریباً پچاس ہزار ڈالر جبکہ جنوبی کوریا کی 36ہزار 132ڈالر‘ ویتنام کی 4670ڈالر اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی فی کس سالانہ آمدن صرف 1586ڈالر ہے۔
پروفیسر رومن نے میرے مزید ہوش اڑانے کیلئے کہا کہ چین میں شرح خواندگی 98فیصد‘ ویتنام میں تقریباً 97فیصد اور بھارت میں 75فیصد ہے۔ میں نے دل ہی دل میں حساب لگایا کہ ہم مبالغہ بھی کریں تو ہماری شرح خواندگی 62فیصد سے زیادہ نہیں۔ پروفیسر صاحب کو شاید معلوم نہ تھا کہ پاکستان کے اڑھائی کروڑ سے زائد بچوں نے کبھی سکول کی شکل تک نہیں دیکھی۔ پھول سے بچے کم سنی میں ہی زندگی کی بے رحم رَتھ میں جُت جاتے ہیں۔ ان ہوشربا انکشافات پر میں نے اپنی پریشانی دل کی نچلی تہوں میں چھپاتے ہوئے پروفیسر سے پوچھا کہ ہماری پسماندگی کو ترقی میں بدلنے کیلئے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟ انہوں نے کہا کہ آپ کے قرب و جوار کے ممالک نے آپ کی آنکھوں کے سامنے محیر العقول ترقی کی ہے۔ آپ کو بھی اسی معاشی راستے پر چلنا ہو گا۔
پروفیسر رومن کے نزدیک سب سے حیران کن ترقیاتی ماڈل جنوبی کوریا کا ہے۔ 1960ء کی دہائی میں جنوبی کوریا کی اقتصادی شرح نمو ساڑھے سات فیصد تھی‘ 1970ء کی دہائی میں یہ بڑھ کر 8.6فیصد اور 1980ء کی دہائی میں 9.3فیصد ہو گئی۔ 1960ء کی دہائی میں جنوبی کوریا کی فی کس سالانہ آمدن 1027ڈالر تھی۔ انہی سالوں میں وہاں کی معیشت نے حیران کن اڑان بھری اور 200فیصد پراگریس سے 2019ء میں فی کس سالانہ آمدن 32ہزار ڈالر ہو چکی تھی۔ جنوبی کوریا نے اتنی بڑی ناقابلِ یقین ترقی صنعتوں اور سڑکوں کو فروغ دینے سے حاصل کی ہے۔ صنعتی ترقی کیلئے انہوں نے نہایت مناسب شرائط پر سرمایہ کاری کیلئے بیرونی فنڈنگ حاصل کی۔ جنوبی کوریا نے اپنے اوپر قرضوں کا بوجھ نہیں لادا۔
پروفیسر رومن نے پاکستان کے وسیع تر قدرتی و بشری وسائل کو بہت سراہا اور کہا کہ جدید خطوط پر خدمات کا دائرہ بڑھانے کے بجائے زیادہ سے زیادہ صنعتیں لگانے‘ اپنے انجینئروں اور ہنرمندوں کو روزگار فراہم کرنے اور اپنی برآمدات بڑھانے اور زرِمبادلہ کمانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے یہ بھی تجویز دی کہ یورپی اور ترقی پذیر ایشیائی ممالک کی طرح سو فیصد شرح خواندگی اور میٹرک تک کے طلبہ کو بجلی‘ پلمبنگ‘ آئی ٹی کی بنیادی تربیت بھی ساتھ ساتھ دینا بہت اہم ہے۔ میں نے کہا کہ ہم ترقی کا سفر کتنے عرصے میں طے کر سکتے ہیں؟ پروفیسر رومن نے زیر لب مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ آپ کی رفتار پر منحصر ہے۔انہوں نے فوراً جیب سے موبائل نکال کر حساب کتاب لگاتے ہوئے بتایا کہ اگر یہ فرض کریں کہ آپ کی آبادی یہی رہے گی تو پھر 30ہزار ڈالر سالانہ فی کس آمدنی کیلئے آپ کو 5فیصد شرح نمو کے ساتھ 61برس جبکہ سات فیصد شرح نمو کے ساتھ 45اور 10فیصد گروتھ ریٹ کے ساتھ 31برس لگیں گے۔ اس وقت پاکستان کی متوقع شرح نمو 2.40فیصد ہے۔ سوچ لیجئے کتنا طویل اور کٹھن سفر ہے۔ کیا ہمارے سیاستدان‘ حکمران اور مہربان اس سفر کیلئے تیار ہیں؟ ہمیں تو شاید اندازہ ہی نہیں کہ ہم کس گرداب میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔
برطانوی پروفیسرکی باتیں بڑی دل لگتی ہیں مگر شاید انہیں معلوم نہیں کہ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے کہ ہم دو قدم آگے بڑھتے ہیں تو چار قدم پیچھے دھکیل دیے جاتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved