تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     21-11-2024

ہم کب سدھریں گے؟

خدا کی پناہ!! جو خبر بھی آتی ہے‘ شرمناک ہی آتی ہے۔ متحدہ عرب امارات نے جو وجوہ پاکستانیوں کے ویزے بند کرنے کی بتائی ہیں‘ ایسی ہیں کہ ہم پاکستانیوں میں ذرہ برابر بھی عزتِ نفس ہو تو ڈوب مریں۔ تازہ ترین خبر کی رُو سے یہ وجوہ سرکاری سطح پر پاکستانی سفیر کو بھیج دی گئی ہیں۔ اولین وجہ جو بھی سنے گا اسے ہماری بے وقوفی پر ترس بھی آئے گا اور ہنسی بھی! وہ یہ کہ ہمارے ہم وطن‘ جو متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں‘ وہ متحدہ عرب امارات ہی کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں! اس تنقید کا سب سے بڑا ذریعہ سوشل میڈیا ہے۔ دنیا میں جو ''استعمال‘‘ سوشل میڈیا کا ہم پاکستانیوں نے کیا ہے‘ شاید ہی کسی اور قوم نے کیا ہو گا۔ پاکستانی ایک بات بڑے مزے سے کہتے ہیں کہ جاپانیوں نے جو سوزوکی پک اَپ بنا کر بھیجی ہے‘ آکر اس کا استعمال دیکھیں تو بے ہوش ہو جائیں۔ 20‘ 30سواریاں اندر اور آٹھ‘ دس باہر لٹکی ہوئیں! سوشل میڈیا کا استعمال ہمارے ہاں اس سے بھی زیادہ بھرپور ہوا ہے۔ سب سے بڑی وجہ اس کی ہمارا ویلا ہونا ہے۔ ویلا پنجابی میں اُسے کہتے ہیں جس کے پاس وقت ہی وقت ہو۔ اس میں تھوڑی سی تضحیک بھی شامل ہے۔ ہم شاید دنیا میں سب سے زیادہ ویلی قوم ہیں۔ ہمارے پاس فراغت لاکھوں‘ کروڑوں ٹنوں کی صورت موجود ہے۔ کسی بھی جگہ‘ جہاں بھی دو گاڑیوں کی ٹکر ہو گی یا ٹریفک کا کوئی حادثہ ہو گا‘ وہاں لوگ اس طرح جمع ہوں گے جیسے کوئی بہت نادر قسم کا تماشا لگا ہے۔ ادھر حادثہ ہوا اُدھر تماشائی جمع ہو گئے۔ یہ اس قدر سرعت سے جمع ہوتے ہیں کہ دیکھنے والا حیران ہو جاتا ہے۔ پتا نہیں زمین سے نکل آتے ہیں یا اوپر سے گرتے ہیں۔ پھر جب تک متاثرہ گاڑیاں وہاں موجود رہیں گی‘ یہ تماشائی بھی کھڑے رہیں گے۔ زندگی کا کوئی سا شعبہ اٹھا کر دیکھ کیجیے۔ فراغت کی بہتات نظر آئے گی۔ شادی بیاہ کی تقریبات لے لیجیے۔ دعوتی کارڈ پر سات بجے کا وقت ہو گا۔ مہمان دس بجے آنا شروع کریں گے۔ کھانا گیارہ بجے لگ جائے تو خوش بختی ہے ورنہ اس گنہگار نے شادی کی تقاریب میں دو بجے کھانا کھانے کی اذیتیں بھی برداشت کی ہیں۔ کوئی بھی فنکشن ہو‘ سرکاری‘ نجی‘ گھنٹوں کی تاخیر سے شروع ہو گا۔ سوشل میڈیا تو ہمارے ویلے ہونے کی مستند ترین سند ہے۔ ان لوگوں کی فراغت کا اندازہ لگائیے جو ہر روز صبح اٹھ کر‘ بلا ناغہ آپ کو پھول بھیجتے ہیں۔ صرف آپ کو نہیں‘ بیسیوں کو‘ بلکہ بے شمار لوگوں کو بھیجتے ہیں۔ جمعہ مبارک بھی ارسال کرتے ہیں۔ پھر ہر رطب و یابس‘ ہر بُرا بھلا‘ ہر کچا پکا‘ ہر سچ جھوٹ‘ جو بھی موصول ہوتا ہے‘ اسے فارورڈ کرنا فرض سمجھتے ہیں۔ یہ پاکستانی جو یو اے ای میں مقیم ہیں‘ وہاں ملازمتیں اور کاروبار کر رہے ہیں‘ پیسہ کما رہے ہیں‘ پیچھے گھر بھی بھیج رہے ہیں‘ مگر عقل دیکھیے کہ میزبان ملک کی پالیسیوں پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔ جب دبئی میں بارش آئی یا سیلاب‘ ان ہمارے ہم وطنوں نے سوشل میڈیا پر یہ کہنا شروع کر دیا کہ مندر بنایا ہے اس لیے یہ عذاب اُترا ہے۔ ایک تو ہم پاکستانیوں کو فوراً معلوم ہو جاتا ہے کہ جو بھی قدرتی آفت آتی ہے‘ عذاب ہی ہوتا ہے۔ یو اے ای مندر بنائے یا مسجد یا کلیسا‘ یا کیسینو‘ کسی کو کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے‘ جس کام کے لیے گئے ہو وہ کام کرو۔ اور اپنے کام سے مطلب رکھو! بنگلہ دیشی بھی ہمارے ہی (بچھڑے ہوئے) بھائی ہیں! حسینہ واجد کو زوال آیا تو ان بنگلہ دیشیوں نے یو اے ای میں بھی احتجاج شروع کیا۔ یو اے ای نے کان سے پکڑا اور واپس بنگلہ دیش بھیج دیا۔
دوسری وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ دستاویزات (پاسپورٹ‘ شناختی کارڈ وغیرہ) میں جعل سازی کرنے والوں میں بھی پاکستانی سر فہرست ہیں۔ پھر بھکاریوں کی زیادہ تعداد بھی پاکستانیوں ہی کی ہے! چوری‘ نوسر بازی‘ بھیک مانگنا‘ جسم فروشی اور منشیات سے متعلق مجرمانہ سرگرمیاں بھی پاکستانی شہریوں میں دیگر قومیتوں کے افراد کے مقابلے میں زیادہ پائی جاتی ہیں۔ اپنی حرکتوں پر شرم کرنے کے بجائے ہم امت مسلمہ کی پناہ میں چھپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آخر یو اے ای بھی مسلمان ملک ہے۔ ہم پر پابندیاں کیوں لگا رہا ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیوں نہ لگائے؟ المیہ یہ ہے کہ یو اے ای ہر دو سال کے بعد کشکول اٹھائے آپ کے دروازے پر آکر بھیک نہیں مانگتا۔ آپ کہیں گے کہ شکار تو پاکستان میں آکر کھیلتے ہیں۔ تو آپ کو شکار والے علاقوں میں سڑکیں اور ہسپتال بھی تو بنا کر دے رہے ہیں۔ روکنا چاہیں تو روک دیجیے۔ بھارت انہیں آپ سے بھی زیادہ سہولتیں دے گا۔ ویسے کسی پاکستانی حکومت کی مجال نہیں کہ شکار کے اُن قوانین پر عرب اور خلیجی شہزادوں سے عمل کرائے جن کا اطلاق خود پاکستانیوں پر ہوتا ہے۔
دوسری خبر اس سے بھی زیادہ شرمناک اور عبرتناک ہے۔ اس سال سعودی عرب میں ایک سو غیر ملکیوں کے سر قلم کیے گئے۔ ان میں سب سے زیادہ تعداد پاکستانیوں کی رہی۔ یعنی ہم اول نمبر پر آئے۔ ٹاپ کیا۔ 21 پاکستانیوں کو سزائے موت دی گئی۔ یمن نے سیکنڈ پوزیشن لی۔ دوسرے ملکوں میں مصر‘ شام‘ نائیجیریا‘ اردن‘ ایتھوپیا وغیرہ شامل ہیں۔ سر قلم کرانے والوں میں تین افراد بھارت سے تھے اور اتنے ہی افغانستان سے! حیرت ہے ہمارے لوگوں کی سمجھ بوجھ پر اور ''استقامت‘‘ پر!! بچے بچے کو معلوم ہے کہ سعودی عرب میں منشیات لانے کا جرم ناقابلِ معافی ہے۔ پھر بھی ہمارے بھائیوں کے اعصاب اتنے مضبوط ہیں کہ اس جرم سے باز نہیں آتے۔ کچھ قتل کے جرم میں ملوث ہوتے ہیں اور سزائے موت پاتے ہیں۔
ہم کب سدھریں گے؟ کب عقل کے ناخن لیں گے؟ ملک کے اندر بھی بد امنی‘ بے چینی‘ گرانی‘ سیاسی عدم استحکام‘ اقتصادی ناکامی اور آبادی کے شدید دباؤ کے عفریت منہ کھولے دندنا رہے ہیں۔ ملک سے باہر بھی ہماری عزت ایک دھیلے کی نہیں۔ آہستہ آہستہ دوسرے ممالک‘ ایک ایک کر کے ہم پر اپنے دروازے بند کر رہے ہیں۔ ہماری حکومتوں کو بھی بھکاری سمجھا جاتا ہے۔ ہر نئے سال‘ ہم دوسروں کے دروازوں پر کھڑے ہو کر آواز لگاتے ہیں کہ جو دے اس کا بھلا‘ جو نہ دے اس کا بھی بھلا۔ نہ دینے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہمارے عام‘ سبز پاسپورٹ کی بھی عزت ہوتی تھی۔ بہت سے ممالک ایسے تھے جو اپنے اپنے ایئر پورٹوں پر ہی ہمیں ویزے لگا دیتے تھے۔ آج پاکستان کے سرکاری‘ یعنی نیلے پاسپورٹ کو بھی کوئی نہیں گھاس ڈالتا۔ چند چھوٹے چھوٹے گمنام‘ بے بضاعت‘ عجیب سے مشکل ناموں والے ملک ہیں جہاں ہمارے نیلے پاسپورٹ ویزے کے بغیر قبول کیے جا سکتے ہیں۔ ان ملکوں میں کم ہی کوئی جاتا ہو گا۔ اس پستی‘ اس زوال اور اس بے عزتی کے باوجود ہمارے ''بڑے‘‘ دوسرے ملکوں میں رہنے کے اور مزے اڑانے کے شوقین ہیں۔ چھینک آئے‘ پاؤں میں موچ آجائے‘ انگلی پر چھوٹی سی پھنسی نکل آئے‘ سر میں ہلکا سا درد ہونے لگے‘ ہمارے لیڈر جہاز پر بیٹھتے ہیں اور لندن‘ امریکہ‘ سوئٹزر لینڈ اور دبئی جا اترتے ہیں۔ ہم پر وہ مثل صادق آتی ہے۔ ما‘ پِنّے تے پتر گھوڑے گھِنّے۔ یعنی ماں بھیک مانگ رہی ہے اور بیٹا گھوڑوں کی خریداریوں میں لگا ہے۔
اور لکھ لیجیے کہ ویزے کی یہ پابندیاں مستقبل قریب میں ہٹنے والی نہیں! ہماری حکومت اول تو اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے گی ہی نہیں‘ لے بھی لے تو یو اے ای کی شکایات کا ازالہ کیسے کرے گی؟ اس کے لیے دیانت دار اور محنتی انتظامی مشینری درکار ہے۔ وہ کہاں سے آئے گی؟ جب افسروں کو ذاتی وفاداری کی بنیاد پر وزارتیں دے دی جائیں تو کون بے وقوف افسر ہو گا جو دیانت اور محنت سے کام کرے گا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved