وہ محض ساس نہیں تھی‘ سگی خالہ بھی تھی۔ جذبات نگاری مقصود نہیں ورنہ میں عرض کرتا کہ یہ رشتہ اپنے دامن میں محبت کے کتنے خوش رنگ اسالیب سمیٹے ہوئے ہے۔ زبان و بیان اور تشبیہ و استعارے کے کتنے پیرہن ہیں جو اس رشتے کی تاروں سے بُنے ہیں۔ میں اس وقت صرف یہ سمجھنے کی کوشش میں ہوں کہ خالہ جب ساس بنی تو محبت کی جنت‘ نفرت کے جہنم میں کیسے بدل گئی؟
کاش یہ آخری واقعہ ہوتا۔ اس جہنم سے آتی ہوئی مسلسل آواز 'ھل من مزید؟‘ ہم ہر روز سنتے ہیں۔ خاندان میں‘ پڑوس سے‘ محلے میں‘ بستی میں‘ ٹی وی کی خبر میں۔ یہ آواز تھمنے کو نہیں آ رہی۔ اس جہنم میں خاکستر ہو جانے والوں کی چیخیں آئے دن ہمارے کانوں سے ٹکراتی ہیں۔ نفرت کے اس الاؤ میں رشتے‘ گھر‘ بستیاں سب جل رہے ہیں۔ ڈسکہ میں یہ آگ پہلی بار دہکی ہے نہ آخری بار۔ اکلوتی بیٹی کا باپ پہلی بار رویا ہے نہ آخری بار۔ کیا یہ سلسلہ یوں ہی دراز ہوتا رہے گا؟ کیا اس جہنم کا پیٹ کبھی نہیں بھرے گا؟
خاندان کے جس ادارے پر ہمیں ناز ہے اور ہم جس کے گیت گاتے نہیں تھکتے‘ واقعہ یہ ہے کہ شدید بحرانوں کی زد میں ہے۔ یہ آج سے نہیں ہے۔ یہ نئی تہذیب کی عطا بھی نہیں ہے۔ اس کی جڑیں مقامی روایات میں ہیں۔ اُن رسموں میں ہیں جن کی پابندی ہم نے احکامِ الٰہی کی طرح خود پر واجب کر رکھی ہے۔ اُن تصورات میں ہیں جن پر ہماری معاشرت قائم ہے۔ ایسے واقعات میں سب سے مظلوم مرد ہے۔ ظلم کرنے والی بھی عورت ہے اور ظلم سہنے والی بھی عورت۔ مرد کی تو دنیا بر باد ہو گئی۔ بیوی اُس بچے کے ساتھ دفن ہو گئی جس نے ابھی آنکھ نہیں کھولی تھی۔ ماں بھی‘ اس کے لیے اسی دن مر گئی جس دن اس کے ہاتھوں بیوی قتل ہوئی۔ اب تو صرف ایک ملزمہ ہے جو کبھی اس کی ماں نہیں بن سکے گی‘ اگر وکیلوں کی قانونی موشگافیوں نے اسے پھانسی سے بچا لیا۔ مرد کا تو کچھ باقی نہیں رہا۔ اس سے ان کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جو عورت پر ہونے والے ہر ظلم میں مرد کو مجرموں کے کٹہرے میں لا کھڑا کرتے ہیں۔
جو رواج اور روایت ان واقعات کا سب سے بڑا سبب ہے‘ وہ مشترکہ خاندان ہے۔ ہمارے ہاں اس بات کو بہت معیوب سمجھا جاتا ہے کہ کوئی مرد یا عورت شادی کے بعد الگ سے گھر بسانے کا فیصلہ کریں۔ اسے خاندانی روایت سے انحراف خیال کیا جاتا ہے۔ یہ رواج اتنا پختہ ہے کہ بہت سے لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی ایک ہی گھر میں رہنے پر مجبور کر دیے جاتے ہیں۔ چند ہی دنوں میں مصنوعی محبت کے لبادے اُترنے لگتے ہیں اور خود غرضی برہنہ ناچتی ہے۔ بالجبر ایک ساتھ رہنے والے ایک دوسرے کی نفرت میں جلنے لگتے ہیں۔ غیبت‘ الزام تراشی‘ عیب جوئی‘ تجسس‘ نہیں معلوم کتنے اخلاقی رزائل جمع ہو جاتے ہیں جو انسانی رشتوں کو چاٹ جاتے ہیں۔ آئے دن گھر میں فساد ہوتے ہیں‘ تشدد ہو تا ہے۔ کمزور عضو روز مرتا روز جیتا ہے۔ کچھ ڈسکہ کی مظلومہ کی طرح ہمیشہ کے لیے مر جاتے ہیں۔
دوسری وجہ جہالت ہے جو اسی روایت کا حصہ ہے۔ ساس اور بہو پہلے ہی دن سے ایک دوسرے کو وِلن سمجھتی ہیں۔ اس میں نند بھاوج کو بھی شامل کر لیں۔ یہ نام نہاد پڑھا لکھا خاندان ہو یا اَن پڑھ‘ غریب ہو یا امیر‘ اس معاملے میں ہم مسلک و ہم نوا ہیں۔ اِلّا یہ کہ کسی پر اللہ کا کرم ہو جائے۔ ایک ہی کہانی ہے جس کے کردار امیر کے محلات میں ملیں گے اور غریب کی جھونپڑی میں بھی۔ اس فکری 'ہم آہنگی‘ کا سبب یہ ہے کہ سماجیات کا علم نہ جدید تعلیم کا حصہ ہے نہ قدیم تعلیم کا۔ اس پہ مستزاد حقوق کے نام پر اٹھنے والی جدید تحریکیں ہیں جنہوں نے سماج کے مختلف طبقات کو ایک دوسرے کا حریف بنا کر میدان ہائے کارزار میں لا کھڑا کیا ہے۔ عورت کو مرد سے لڑا دیا اور اجیر کو آجر سے۔ غریب کو امیر سے اور اکثریت کو اقلیت سے۔ جہالتِ قدیمہ اور جہالتِ جدیدہ نے مل کر انسانی رشتوں میں نفرت کا زہر گھول دیا۔ کسی نے خاندان کے ادارے پر توجہ نہیں دی۔ سماجی اداروں کو ہمارے ہاں توجہ کا مستحق نہیں سمجھا گیا۔ خاندان‘ مسجد‘ مکتب‘ مدرسہ‘ یہ ادارے مل کر سماج کو متوازن اور پاکیزہ بناتے تھے۔ آج ان کا سماجی کردار افسوس کہ معکوس ہے۔
اگر ہم نے خاندان کے ادارے کو بچانا ہے تو ہمیں ان روایات اور تصورات سے نجات پانا ہو گی۔ مشترکہ خاندان نہ تو اللہ کا حکم ہے اور نہ ہی ناگزیر معاشرتی ضرورت۔ اگر اس سے رشتوں کا احترام اور باہمی محبت برقرار رہتی ہے تو اس کو باقی رکھا جا سکتا ہے۔ اگر اس کے نتیجے میں رشتوں میں دراڑیں اور فاصلے پیدا ہوتے ہوں جو اکثر ہوتے ہیں تو پھر زیادہ مناسب یہ ہے کہ اس پر اصرار نہ کیا جائے۔ بھائیوں کی شادی ہو تو وہ اپنا گھر الگ سے بسائیں۔ اس سے بھائی ایک دوسرے سے قلبی طور پر جڑے رہیں گے اور ان کی بیویوں کے تعلقات بھی اچھے رہیں گے۔ اگر انہیں زبردستی ایک چھت تلے رکھنے کی کوشش ہو گی تو پھر ان کے درمیان اگر نفرت پیدا نہ ہوئی تو ناپسندگی بہرحال پیدا ہو جائے گی۔
دوسری اہم چیز سماجی تعلیم ہے۔ اس کا اہتمام سماجی سطح پر ہونا چاہیے۔ خاندان کیا ہوتا ہے‘ زندگی میں رشتوں کی کیا اہمیت ہے‘ ایثار و محبت کے جذبات کیوں ضروری ہیں‘ رشتوں کو کیسے نبھایا جاتا ہے‘ ایک بچے کی تربیت کے لیے خاندان کا ادارہ کیوں ضروری ہے۔ لازم ہے کہ شادی سے پہلے ہر لڑکے اور لڑکی کو ان سوالات کے جواب معلوم ہوں۔ میں نے اس کی مثال انڈونیشیا میں دیکھی اور ہمیشہ یہ خواہش کی کہ میرے پاس وسائل ہوں تو میں یہاں بھی اس کا اہتمام کروں گا۔ انڈونیشیا کی سب سے بڑی مذہبی تنظیم‘ نہضۃ العلما نے 'المسلمات‘ کے نام سے خواتین کا ایک شعبہ قائم کر رکھا ہے۔ اس کا ایک تربیتی پروگرام ہے جس میں شادی کی عمر کو پہنچنے والی لڑکیوں کے لیے ایک تربیتی کورس بنایا گیا ہے۔ اس میں انہیں ان سب سوالات کے جواب بتائے جاتے ہیں۔ انہیں سکھایا جاتا ہے کہ شادی کی صورت میں انہیں کس نوعیت کی جسمانی‘ نفسیاتی اور سماجی تبدیلیوں سے گزرنا ہو گا۔ ان کے حقوق کیا ہوں گے اور فرائض کیا۔
ہم نے اس نوعیت کی تعلیم کا کوئی اہتمام نہیں کیا۔ لڑکیاں شادی کے بارے میں جو کچھ جانتی ہیں‘ غیرمصدقہ ذرائع سے اور یہی 'علم‘ خاندان کی بربادی کا سبب بنتا ہے۔ لڑکی اس تصور کے ساتھ سسرال جاتی ہے کہ اسے وہاں ساس کی صورت میں ایک وِلن کا سامنا کرنا ہے۔ ساس یہ سمجھتی ہے کہ اس کی ایک حریف گھر میں آ رہی ہے۔ اسی طرح لڑکی ازدواجی رشتے کی دوسری سماجی و نفسیاتی نزاکتوں سے بھی پوری طرح باخبر نہیں ہوتی۔ اس 'تعلیم‘ کے ساتھ جو خاندانی سفر شروع ہوتا ہے‘ اس کا بدترین انجام وہ ہے جو ہم نے ڈسکہ میں دیکھا۔
جس خاندانی نظام پر ہم کو ناز ہے‘ وہ آج شدید مسائل کی گرفت میں ہے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ نئی نسل کے لیے مغرب کا معاشرتی نظام زیادہ پُرکشش بنتا جا رہا ہے۔ نئی نسل مستقل تعلق کے بارے میں کم ہی سوچتی ہے۔ پردے اور مقامی کلچر کے دوسرے مظاہر کو ہم نے جس طرح دینی رنگ دیا ہے اور اس نے ہمارے خاندانی نظام کو جو نقصان پہنچایا ہے‘ وہ ایک الگ داستان ہے۔ خاندنی نظام کی بقا ایک سنجیدہ موضوع ہے۔ ہم نے تمام توجہ ریاست کی اصلاح پر مرتکز رکھی اور سماج کو نظر انداز کیا۔ ریاست کیا سنورتی‘ سماج کے خدو خال ہی گم ہو گئے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved