تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     21-11-2024

ایک چھوٹا سا ڈبہ

کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ایک چھوٹے سے ڈبے نے ہماری زندگیوں پر اتنے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں کہ کوشش کے باوجود ہم اس کے سحر سے نہیں نکل سکتے۔ یہ ڈبہ ہر گھر میں موجود ہے اور ہم روزانہ اس کو دیکھنے کے عادی ہیں لیکن یہ سب کچھ لاشعور میں ہی ہوتا رہا۔ شعوری طور پر ہم نے اس ڈبے کی اہمیت و افادیت کا شاید کبھی ادراک نہیں کیا‘ اگر ادراک کیا ہے تو غالباً تسلیم نہیں کیا‘ لیکن آج کا دن اس غلطی کو درست کرنے کے لیے بہترین ہے۔
کم ہی لوگوں کو معلوم ہو گا کہ آج (یعنی 21 نومبر) کو ٹیلی ویژن کا عالمی دن ہے۔ یہ دن ہر سال منایا جاتا ہے‘ لیکن کتنی حیرت کی بات ہے کہ اتنا اہم دن‘ جس کا ہماری زندگیوں میں بڑا عمل دخل ہے‘ کتنی خاموشی سے گزر جاتا ہے۔ دنیا بھر کی آٹھ ارب سے زیادہ آبادی میں سے بہت کم لوگ ایسے ہوں گے‘ جو اپنی زندگی میں کبھی ٹیلی ویژن سے لطف اندوز نہ ہوئے ہوں‘ ورنہ تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ آج کے دور میں کوئی بھی فرد ایسا نہیں جس نے اپنی زندگی کے کسی حصے میں کبھی نہ کبھی ٹی وی نہ دیکھا ہو۔ ٹیلی ویژن ابلاغ کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ آج کے سوشل میڈیا کے دور میں اس کی اہمیت و افادیت میں اور بھی اضافہ ہو چکا ہے۔ اپنا موبائل فون بھی ایک چھوٹا سا ٹیلی ویژن ہی تو ہے۔ اندازہ لگائیے کہ ہم روزانہ کتنی بار یہ ٹیلی ویژن روزانہ دیکھتے ہیں۔
پاکستان میں ٹیلی ویژن کا آغاز کس اور کیسے دور میں ہوا‘ یہ میری عمر کے لوگ جانتے ہیں جنہوں نے اپنی آنکھ ہی پی ٹی وی کے پروگرام دیکھتے کھولی اور پھر شعور کی منزلیں طے کیں۔ نئی پود کو اس کا اندازہ بھی نہ ہو گا۔ اُس وقت پاکستان بنے ابھی دو دہائیوں سے بھی کم عرصہ ہوا تھا اور ملک میں انٹرٹینمنٹ کا واحد ذریعہ ریڈیو تھا یا پھر سینما میں چلنے والی فلمیں‘ جب ملک میں پہلا ٹیلی ویژن سٹیشن قائم کیا گیا تھا۔ ملک میں پہلا ٹی وی سٹیشن شروع ہوا تو عوام کے ہاتھ (محدود حد تک) تفریح کا ایک نیا ذریعہ آ گیا۔ ملک میں نئے ٹی وی سٹیشن بنتے گئے اور تفریح کا یہ دائرہ وسیع تر ہوتا گیا۔ مجھے یاد میں کہ جب چھوٹے تھے تو ہم بھائی بہن سکول سے واپس آنے کے بعد کھانا وغیرہ کھا کر سب سے پہلے سکول سے ملنے والا ہوم ورک کرتے تھے تاکہ جب ٹی وی کی نشریات شروع ہوں تو بچوں کے پروگراموں سے پوری طرح لطف اندوز ہوا جا سکے۔ ٹی وی نشریات شروع ہوتیں تو سب سے پہلے بصیرت کا پروگرام ہوتا تھا جس میں اسلامی تعلیمات دی جاتی تھیں۔ اس کے بعد اُس دن کے پروگراموں کی تفصیل بتائی جاتی تھی۔ پھر بچوں کے ایک دو پروگرام لگتے تھے جن میں سب سے پہلے قرآن پاک کی تعلیم کا پروگرام اقرا ہوتا تھا۔ بچوں کو کارٹون دکھائے جاتے تھے۔ پوپائی دی سیلر مین‘ پِنک پینتھر اور ٹام اینڈ جیری تو ہمارے پسندیدہ کارٹون تھے۔ پھر علاقائی پروگرام ہوتے تھے‘ جیسے ویلے دی گل‘ اج دی کہانی‘ سوچ وچار‘ پنجند۔ شام چھ بجے انگریزی زبان میں خبریں ہوتی تھیں جس کے بعد کوئی انگریزی سیریل دکھائی جاتی تھی۔ ہمارے زمانے میں سکس ملین ڈالر مین‘ چپس‘ بائیونک وومن‘ سٹار ٹریک‘ دی لینڈ آف دی لاسٹ‘ کوجیک‘ لٹل ہاؤس آن دی پریری‘ گرین ایکڑز‘ کولمبو‘ میک گائیور‘ گلیورز ٹریول جیسی سیریز ٹی وی پر دکھائی جاتی تھیں۔ بچوں کے پروگرام ہوتے تھے جیسے سارے دوست ہمارے‘ آنگن تارے‘ الف لیلہ‘ عینک والا جن‘ زنبیل‘ خفیہ جزیرہ‘ سجری سویر‘ رشماں۔ رات آٹھ بجے روزانہ ڈرامہ نشر کیا جاتا تھا۔ اُس دور میں کچھ ڈرامے تو اتنے معروف ہوئے تھے کہ جب وہ ڈرامہ نشر کیا جاتا تو بازار سنسان ہو جاتے تھے۔ وارث‘ اندھیرا اُجالا‘ ایک حقیقت ایک فسانہ‘ ایک محبت سو افسانے‘ سونا چاندی‘ لاگ‘ انگار وادی‘ انکل عرفی‘ شمع‘ افشاں‘ دریا‘ سمندر‘ دہلیز‘ گیسٹ ہاؤس‘ دھواں‘ دھوپ کنارے‘ خدا کی بستی غرض کون کون سے ڈرامے کا نام لیں جو اُس زمانے میں نشر کیے جاتے تھے‘ ہر ایک دوسرے سے بڑھ کر تھا۔ پی ٹی وی کے بے شمار لانگ پلے بھی بہت مشہور ہوئے جن میں روزی‘ رگوں میں اندھیرا‘ دروازہ‘ دبئی چلو‘ ہاف پلیٹ‘ پھولوں والا راستہ‘ ہفت آسمان اور کانچ کا پل سمیت بہت سے دیگر معروف ڈرامے شامل ہیں۔ ان ڈراموں کے ذریعے کئی فنکار متعارف ہوئے جو آج کے سپر سٹار ہیں۔ ڈرامہ نگاروں میں محمد نثار حسین‘ آغا ناصر‘ اسلم اظہر‘ یاور حیات‘ شہنشاہ نواب‘ منو بھائی‘ اصغر ندیم سید‘ سلیم چشتی‘ شوکت صدیقی‘ یونس جاوید‘ ڈاکٹر انور سجاد‘ بانو قدسیہ‘ فاطمہ ثریا بجیا‘ اشفاق احمد اور منشا یاد جبکہ اداکاروں میں طلعت حسین‘ شفیع محمد‘ قوی خان‘ سلیم ناصر‘ فاروق ضمیر‘ فخری احمد‘ جمشید انصاری‘ خیام سرحدی‘ اسماعیل تارا‘ توقیر ناصر‘ علی اعجاز‘ سہیل احمد‘ افضال احمد‘ آغا سکندر‘ قاضی واجد‘ ساجد حسن‘ لطیف کپاڈیا‘ محمود علی‘ قربان جیلانی‘ سبحانی با یونس‘ ظہور احمد‘ جمال شاہ‘ ایوب کھوسو‘ اسلم لاٹر‘ حسام قاضی‘ اورنگزیب لغاری‘ عمر شریف‘ عثمان پیرزادہ‘ ثمینہ پیرزادہ‘ نعمان اعجاز‘ محمود اسلم‘ شبیر جان‘ سہیل اصغر‘ نئیر اعجاز‘ خالد بٹ‘ ساحرہ کاظمی‘ طاہرہ نقوی‘ خالدہ ریاست‘ مدیحہ گوہر‘ فریال گوہر‘ ذہین طاہرہ‘ طلعت صدیقی‘ عارفہ صدیقی‘ عتیقہ اوڈھو‘ صبا پرویز‘ ہما حمید‘ ثمینہ احمد‘ زیبا شہناز‘ نگہت بٹ‘ طاہرہ واسطی‘ لیلیٰ زبیری‘ ہمایوں سعید‘ عدنان صدیقی اور شائستہ قیصر کے نام معروف ہیں۔اسی طرح ٹی میزبانوں میں نعیم بخاری‘ دلدار پرویز بھٹی‘ طارق عزیز‘ کنول نصیر‘مہناز رفیع‘ ضیا محی الدین اور کشور ناہید۔گلوکاروں میں سائیں اختر حسین‘ منیر نیازی‘ شوکت علی‘ عالم لوہار‘ عارف لوہار‘ عالمگیر‘ محمد علی شہکی‘ ناہید اختر‘ شہناز بیگم‘ ناہید نیازی‘ ریشماں‘ خبریں پڑھنے والوں میں ابصار عبدالعلی‘ اظہر لودھی‘ خالد حمید‘ مہ پارہ صفدر‘ شائستہ زید اور عشرت فاطمہ کو کون بھول سکتا ہے۔ ان میں سے بہت سے افراد اب اس دنیا میں نہیں‘ لیکن جب تھے تو زندگی کی کتنی رونق تھی۔ جو ہیں ان میں سے بھی کچھ کو تو مکمل طور پر بھلا ہی دیا گیا ہے اور کچھ کا پتا نہیں کہ کس حال میں ہیں۔چند ہی ہیں جو اب بھی فعال ہیں۔
پاکستان ٹیلی ویژن نے ماضی میں ایسے ایسے یادگار ڈرامے پروڈیوس کیے جنہوں نے پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بھارت میں بھی دھوم مچائے رکھی۔ شعیب ہاشمی کا اکڑ بکڑ‘ سچ گپ‘ ٹال مٹول‘ فاروق قیصر کا کلیاں مجھے آج تک یاد ہیں۔ اشفاق احمد کے حیرت کدہ‘ ایک محبت سو افسانے‘ توتا کہانی‘ بانو قدسیہ کے نیا دور‘ سراب‘ حمید کاشمیری کے لمحوں کی زنجیر‘ شکست آرزو‘ کافی ہاؤس‘ تاج حیدر کا آبلہ پا‘ مستنصر حسین تارڑ کا فریب‘ سورج کے ساتھ ساتھ‘ منو بھائی کے جزیرہ‘ سونا چاندی‘ پ سے پہاڑ‘ جھیل‘ چھوٹے‘ فاطمہ ثریا بجیا کے آگہی‘ شمع‘ عروسہ‘ راحت کاظمی کا تیسرا کنارہ‘ شاہد ندیم کا زرد دوپہر اور جنجال پورہ‘ حسینہ معین کے کرن کہانی‘ انکل عرفی‘ پرچھائیاں‘ شہزوری‘ امجد اسلام امجد کے وارث اور اطہر شاہ خان کے باادب‘ باملاحظہ‘ ہوشیار کو کیسے بھلایا جا سکتا ہے؟ اور پھر ان فنکاروں کو بھی‘ جنہوں نے کاغذی کرداروں کو زندگی کا روپ دے کر ہمارے سامنے پیش کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی وی نے پاکستانی عوام کی زندگیوں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ہم نے ٹی وی سے بہت کچھ سیکھا‘ بہت کچھ جانا۔ ایک چھوٹا سا ڈبہ ہمیں پوری دنیا کی سیر کراتا رہا۔ یہ بات سوچنے اور سمجھنے کی ہے کہ بعد میں اس معیار کو برقرار کیوں نہیں رکھا جا سکا‘ جس کا پیمانہ آغاز میں طے کیا گیا تھا۔ کیا یہ بات کہنا غلط ہو گا کہ اگر ہماری زندگیوں میں ٹیلی ویژن نہ ہوتا تو آج کا انسان بھی خاصا مختلف ہوتا؟ ذرا سوچئے کتنی بے رنگ اور بے رونق ہوتی ہماری زندگی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved