تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     22-11-2024

صدر ٹرمپ اور یورپ

امریکی صدارتی انتخابات ابھی پوری طرح اختتام پذیر نہیں ہوئے تھے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے آثار واضح ہو چکے تھے کہ ہنگری کے دارالحکومت بوڈا پسٹ میں یورپی پولیٹکل کمیونٹی کا ایک ہنگامی سربراہی اجلاس ہوا جس میں جرمنی کے علاوہ 27 رکنی یورپی یونین کے بیشتر سربراہانِ مملکت شریک ہوئے۔ مقصد ٹرمپ کے امریکی صدر منتخب ہونے پر یورپ کی طرف سے ایک اجتماعی رسپانس پیش کرنا تھا۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپی ممالک میں اپنے مستقبل کے بارے میں پہلی دفعہ فکر اور انجانے اندیشوں نے غلبہ پا لیا ہے۔ یورپی کمیشن کی صدر‘ Ursula von der Leyen نے اپنے خطاب میں اس نئی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ''یورپ کا مستقبل اب یورپی ممالک کے ہاتھ میں ہے جس کے لیے ہمیں متحرک کردار ادا کرنا ہو گا‘‘۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے ان سے بھی زیادہ دو ٹوک الفاظ میں یورپی ممالک پر زور دیا کہ وہ اپنی سلامتی اور معاشی مفادات کے تحفظ میں اب آزاد اور خود مختار حیثیت سے فیصلے کرنے کا آغاز کر دیں اور امریکہ پر انحصار ختم کر دیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنی سکیورٹی کو ہمیشہ کیلئے امریکہ کے پاس گروی میں نہیں رکھ سکتے۔ اجلاس کے اختتام پر یورپی کمیشن کی صدر نے صدر ٹرمپ کو جو پیغام بھیجا اس میں مشترکہ تاریخ‘ تہذیب اور اقدار کے مالک یورپی اور امریکی عوام کا ایک دوسرے پر نہ صرف سلامتی بلکہ معاشی شعبے میں انحصار کا ذکر کیا اور کہا کہ نہ صرف یورپ بلکہ امریکہ کو بھی اپنے لاکھوں لوگوں کے روزگار اور کھربوں ڈالر کی دوطرفہ تجارت اور سرمایہ کاری کے تحفظ کیلئے متحرک اور مستحکم باہمی معاشی تعلقات کی ضرورت ہے۔
اس بیان کا پس منظر یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ صدارت کے دوران یورپی درآمدات (فولاد اور ایلومنیم) پر ٹیرف عائد کر دیا تھا اور حالیہ صدارتی مہم کے دوران انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ امریکہ میں یورپی درآمدات پر 10 فیصدڈیوٹی ٹیکس‘جو بڑھ کر 20فیصد بھی ہو سکتا ہے‘ عائد کریں گے۔ اس وقت امریکہ یورپی ممالک کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ یورپی ممالک اور امریکہ کادوطرفہ تجارتی حجم سالانہ تقریباً 1400 ارب ڈالر ہے۔ تجارتی توازن اگرچہ امریکہ کے حق میں ہے مگر ٹرمپ کی رائے میں چین کی طرح یورپ نے بھی اپنی مصنوعات کی برآمد سے امریکہ میں مینو فیکچرنگ سیکٹر ختم کر دیا ہے جس سے لاکھوں امریکی بیروزگار ہو گئے ہیں۔ حالیہ صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی جیت میں اس بیانیے نے بہت اہم کردار ادا کیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نہ صرف سیاسی بلکہ معاشی میدان میں بھی چین کو امریکہ کا سب سے بڑا حریف سمجھتے ہیں مگر انہوں نے اپنے بیانات میں یورپ کو امریکی معیشت کیلئے ''منی چائنا‘‘ کہہ کر برابر کا خطرہ قرار دیا۔ معیشت اور دوطرفہ تجارت کے علاوہ دو اور بھی شعبے ہیں جن میں ٹرمپ کے ممکنہ اقدامات پر یورپی ممالک کو سخت تشویش ہے اور انہوں نے ابھی سے ان کے نتائج کا سامنا کرنے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ ان دو شعبوں میں سے ایک دفاع اور دوسرا موسمیاتی تبدیلی ہے۔ امریکہ کو ایک عرصے سے یہ شکایت ہے کہ یورپی ممالک دفاعی اتحاد(نیٹو) کے اخراجات میں اپنا حصہ نہیں ڈالتے اور روس سے خطرے کا مقابلہ کرنے کیلئے تمام تیاریوں اور انتظامات کے اخراجات امریکہ کو ادا کرنا پڑتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران سارا یورپ میدانِ جنگ تھا اور اس کے کسی حصے میں کوئی پل‘ سڑک‘ کارخانہ‘ عمارت اور دیگر انفراسٹرکچر استعمال کے قابل نہیں رہا تھا۔ کروڑوں لوگ اس جنگ میں ہلاک ہوئے اور اتنی ہی تعداد میں بے گھر ہوئے۔ یورپی معیشت مکمل طور پر تباہ ہو گئی اور مالی حالات خراب ہونے کے ساتھ افراطِ زر اور بیروزگاری عام ہو گئی۔ ان حالات میں امریکہ نے مارشل پلان‘ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے ذریعے یورپی ممالک میں تعمیر نو اور ترقی کا عمل شروع کیا۔ یورپی ممالک کو اپنے وسائل معاشی ترقی پر صرف کرنے کا موقع فراہم کرنے کیلئے 1949ء میں نیٹو نامی دفاعی اتحاد قائم کیا اور دفاع کی پوری ذمہ داری لی۔ یورپی ممالک معاشی ترقی اور خوشحالی کے باوجود بیرونی جارحیت کے خلاف دفاع کیلئے ابھی تک امریکہ پر انحصار کرتے ہیں۔
اگرچہ 1960ء کی دہائی کے بعد امریکہ نے یورپی ممالک میں اپنی عسکری قوت کافی حد تک کم کر دی ہے اور نیٹو کے بہت سے اڈوں کو ختم کیا ہے لیکن اب بھی ایک لاکھ کے قریب امریکی فوجی نیٹو کے اڈوں پر تعینات ہیں۔ 1949ء میں نیٹو کی بنیاد رکھنے والے ممالک کی تعداد 12 تھی جن میں امریکہ اور کینیڈا کے علاوہ باقی سب یورپی ممالک تھے۔ سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد وارسا پیکٹ کے یورپی ممالک بھی نیٹو میں شامل ہو گئے۔ اب اس دفاعی اتحاد کے رکن ممالک کی تعداد 32 ہو چکی ہے۔ اس لیے امریکہ اب یورپی ممالک پر دفاعی معاہدے کے اخراجات میں حصہ ڈالنے پر اصرار کر رہا ہے۔ ٹرمپ کے پہلے دورِ صدرات کے بعد سے اس دباؤ میں اضافہ ہوا ہے اور حالیہ صدارتی مہم کے دوران بھی ڈونلڈ ٹرمپ نیٹو کے آرٹیکل پانچ‘ جس کے تحت معاہدے کے ایک ملک پر حملہ باقی تمام رکن ممالک پر حملہ سمجھا جاتا ہے‘ کے تحت ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کی دھمکی دے چکے ہیں۔ ٹرمپ امریکہ کی طرف سے یوکرین کو امداد فراہم کرنے کے خلاف ہیں۔ امریکہ اب تک یوکرین کو 64 ارب ڈالر کی ملٹری امداد فراہم کر چکا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی رائے میں اس جنگ میں امریکہ کی شمولیت امریکی مفادات کے خلاف ہے‘ اس لیے انہوں نے اپنی صدارتی مہم کے دوران اعلان کیا کہ بطور صدر حلف اٹھانے کے بعد وہ پہلی فرصت میں اس جنگ کو ختم کر دیں گے اور اس کیلئے اگر انہیں روس کے صدر ولادیمیر پوتن سے ملاقات بھی کرنا پڑی تو وہ اس سے نہیں ہچکچائیں گے۔
یورپی ممالک کیلئے ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے تجارت اور دفاع میں ان یکطرفہ اقدامات پر تشویش پائی جاتی ہے کیونکہ یورپی ممالک کو ڈر ہے کہ اگر ٹرمپ نے یورپی درآمدات پر ڈیوٹی عائد کی تو یورپی ممالک بھی جواب میں امریکی درآمدات پر ڈیوٹی بڑھا دیں گے۔ اس طرح یورپ اور امریکہ کے مابین تجارتی جنگ شروع ہو جائے گی۔ اس صورت میں یورپ‘ جس کے بہت سے ممالک کساد بازاری کا شکار ہیں‘ خاص طور پر جرمنی‘ جس کی معیشت گزشتہ دو سال سے مسلسل سکڑ رہی ہے‘ کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی طرح اگر ٹرمپ کسی طرح یوکرین اور روس کے درمیان جنگ بند کرانے میں کامیاب ہو گئے تو یورپی ممالک ایک دفعہ پھر نہ صرف اپنی توانائی کی ضروریات بلکہ سلامتی کیلئے بھی روس کے رحم و کرم پر ہوں گے کیونکہ ٹرمپ کے اس اقدام سے نیٹو کا بھرم ختم ہو جائے گا۔ مگر مبصرین بشمول امریکی ماہرین‘ کی رائے میں اس کی نوبت نہیں آئے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ ایک بزنس مین ہیں اور سیاسی معاملات کو بھی وہ کاروبار کی نظر سے دیکھتے ہیں‘ اس لیے وہ تجارت کے مسئلے پر یورپ اور یوکرین کے مسئلے پر روس سے امریکہ کے حق میں ڈیل کریں گے جس کے ذریعے وہ امریکی معیشت بالخصوص اس کی پیداواری صلاحیت کو مضبوط بنا کر ملک میں افراطِ زر اور بیروزگاری میں اضافے کے رجحان کو روک سکیں اور اس طرح امریکہ کو ایک دفعہ پھر ''عظیم‘‘ بنا کر تاریخ میں اپنا نام رقم کرا سکیں‘ مگر ٹرمپ کو تحفظ پسندی (Protectionism) بہت پسند ہے اور اُن کا اصل ٹارگٹ چین ہے۔ اپنے اشتعال انگیز بیانات سے ڈونلڈ ٹرمپ یورپ‘ مشرقِ وسطیٰ اور چین کے ساتھ اپنی دوسری صدارتی مدت کے دوران کشیدہ تعلقات اور محاذ آرائی کی بنیاد رکھ چکے ہیں اس لیے آئندہ چار برسوں کے دوران عالمی سیاست بے یقینی‘ خطرات اور عدم استحکام کی زد میں رہنے کا اندیشہ ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved