سوچیے تو سہی‘ جنابِ والا‘ غور تو کیجیے‘ ورنہ تو بھیڑ بکریاں بن کر ہی جینا ہوگا، بھیڑ بکریاں بن کر۔ چرواہوں کی مرضی اورمنشا کے مطابق! افراد یا اقوام، کمزور اور کاہل خوش گمانی میں جیتے ہیں اور ہوش مند حسنِ عمل میں ۔ ہم نے گمان پالا اور سینچنا شروع کیا کہ انکل سام مہربانی سے کام لے گا۔ مہربانی سے وہ کیوں کام لے ؟ تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات مذاکرات کا راستہ ہموار کرنے میں وہ کیوں مدد کرتا؟ واشنگٹن کا اپنا ایجنڈا ہے اور اسلام آباد کا اپنا۔ امریکیوں سے ہم نفرت کرتے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ مشکلات میں وہ ہماری سرپرستی فرمائیں۔ کیوں فرمائیں ؟ دستر خوان پر مرغن کھانے مطلوب ہیں، شاندار گھر اور بہترین گاڑی۔ بچوں کے لیے انگلش میڈیم سکول اور تن پہ چمکتا ہوا ملبوس۔ حکمرانوں کا نہیں ، درمیانے اور نچلے درمیانے طبقے کا اندازِ فکر و عمل بھی یہی ہے ۔ خاندان وہ سنورتا ہے ، جس کا سربراہ ایثار کرے اور قوم وہی، جس کے لیے قربانی دی جائے ۔تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ جب کبھی کوئی خطہ سرسبز اور ثروت مند ہوا تو اسی طرح ۔ جہاں سب اپنے لیے سوچتے ہوں اور ملک کے لیے کوئی نہیں ، بہتری؟ وہاں امید کی کرن بھی کیسے پھوٹے؟ صدر اوباما سے ملاقات کے بعد، میاں محمد نواز شریف نے کہنے کو تو یہ کہا کہ اول ہمیں اپنے گھر کو ٹھیک کرنا چاہیے مگر لندن اور نیویارک میں تبلیغ یہ کرتے پائے گئے کہ طالبان کو رام کرنے کا موقعہ دیا جائے( اور وہ بھی مولانا فضل الرحمن کی مدد سے )۔ انگریزوں اور امریکیوں نے اشارے سے انہیں جتلا دیا کہ وہ گوارا نہیں کر سکتے ۔ زبان سے البتہ یہی کہا کہ ہمیں کیا اعتراض۔ یہی ہونا تھا، یہی ہونا تھا حضور۔ عمر فاروقِ اعظمؓ نے کہ آدم زاد کے سینے میں جھانک سکتے تھے ، ارشاد یہ کیا تھا: جس سے نفرت کرتے ہو، اس سے ڈرتے رہو۔ یہ نمازِ عصر کا وقت ہے، یہ گھڑی ہے دن کے زوال کی وہ قیامتیں جو گزر گئیں، تھیں امانتیں کئی سال کی کئی سال نہیں ، کئی صدیوں کی۔ انگریز جب برصغیر کے ساحلوں پہ اترا تھا۔ برطانیہ اور برلن میں جب صنعتی انقلاب کی نیو رکھی جا رہی تھی ۔ طاقتور ترک جب آسودگی کی طرف مائل تھے اور ہندوستان پہ حکمران ان کے عم زاد ترکانِ تیموری ان سے بھی زیادہ۔ لندن میں آکسفرڈ یونیورسٹی کی بنیاداٹھائی جا رہی تھی ، عبادت گاہوں میں سکول کھل رہے تھے تو شاہ جہاں تاج محل پہ خزانہ لٹا رہا تھا۔ اللہ مہربان ہے اور اس سے کہیں زیادہ ، جتنا کہ آدم کی اولاد تصور کر سکتی ہے۔ بے چارے مولوی صاحب کو کیا معلوم، بے چارے ملحد کو کیا خبر۔ ایک حقیقتِ کبریٰ سے آشنا ہی نہیں ،دوسرا تقلید کا خوگر۔ پروردگار کا فرمان یہ ہے کہ اس کے قوانین کبھی بدلتے نہیں ۔ یہ کہ انسانوں کے لیے وہی کچھ ہے ، جس کی انہو ں نے کوشش کی۔ توبہ کا دروازہ اگرچہ چوپٹ کھلا رہتاہے۔ چینیوں نے توبہ کر لی اور ان کے بعد روسیوں نے ۔ ملائیشیا نے سبق سیکھ لیا اور ترکوں نے ۔ مسلم برصغیر پہ مگر جذبات کی حکمرانی ہے ۔ خیال و خواب کی جنتیں آباد رہتی ہیں اور بستیوں میں گرد اڑتی رہتی ہے ۔ ایک شہسوار کی آرزو، ایک محمد بن قاسم کی تمنا۔ کم از کم ایک قائد اعظم کی خواہش۔ اللہ کی سنت یہ نہیں۔ آدم زاد کی حسرتوں پہ نہیں ، وہ اس کے عمل پر فیصلہ فرماتا ہے اور اس سے بھی پہلے نیت پر ، حسنِ نیت یا بد نیتی ؟ عرض یہ کیا جاتا ہے کہ نجات کا در کیسے کھلے۔ وزیراعظم کی دولت بیرونِ ملک پڑی ہے اور اپوزیشن لیڈر کی بھی۔ مالدار طبقات قومی کرنسی سے دستبردار ہوئے۔ اپنے اثاثوں کا ایک حصہ وہ بیرونِ ملک رکھتے ہیں ۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ لکھنے والے اہلِ اقتدار کی تحقیر سے آسودگی چاہتے ہیں ۔ جی نہیں ، ہم تو فریاد کرتے ہیں کہ ریاست اپنا کردار ادا کرے۔ ہم تو حکومت کی مضبوطی کے آرزومند ہیں مگر آئین کی حدود میں ، مگر قانون کی پاسداری میں ۔ چوہدری نثار علی خان سے لے کر ، عمران خان اور سیّد منوّر حسن تک سب کے سب گریہ کناں ہیں کہ امریکہ نے مذاکرات کو سبوتاژ کیا۔ جی ہاں کر دیا مگر ہم نے کیا کیا؟ ہم سے کیا ہو سکا محبت میں تم نے تو خیر بے وفائی کی کاروبار کا اصول یہ ہے کہ کوئی کسی کو کما کر نہیں دیتا۔ سرمایہ کار اگر اپنی دولت ہنر مند کے حوالے کر دے اور نگراں نہ رہے تو ایک دن مفلس ہو گا۔ ادبار سے نجات پانے میں کوئی قوم کسی دوسری قوم کی مدد نہیں کرتی۔ آدمی اپنے مفاد کے لیے جیتا ہے ۔ ایثار ہی ٹھہرے تو اپنے لوگوں کے لیے ، دوسروں کی خاطر کیوں ؟ قوموں کے مراسم اگر باہمی مفاد کی بنا پر استوار ہوتے ہیں تو خود سے ہمیں پوچھنا چاہیے کہ امریکہ بہادرکی کتنی مدد ہم کرتے ہیں کہ وہ ہماری مدد کرے ؟ دولت! ایک رفیق نے لکھا ہے کہ دولت سب سے زیادہ اہم ہے ۔ سادہ الفاظ میں یہ ‘کہ ہر آدمی ، ہر خاندان ، ہر قبیلے اور ہر ملک کو اپنا بوجھ خود اٹھانا ہوتاہے ۔ روزِ حشر کی خصوصیات میں سے ایک بہت نمایاں خصوصیت رب العالمین نے یہ بیان کی ہے کہ اس روز کوئی کسی کا معاون نہ ہوگا۔ ماں اپنی اولاد کو پہچانے گی نہیں ۔ کشتی جب طوفان میں لرزاں ہو تو مسافر اپنی فکر پالتا ہے یا دوسروں کی ؟ سادہ سے چند اصول ہیں ۔ ملک وفا چاہتے ہیں ، خاص طور پر قیادت سے ۔ قیادت کا انتخاب ہوش مندی اور آزادی سے ہونا چاہیے۔ وہ مسلّط نہ ہو جائے ، غیر ملکی اثرات‘ دولت یا دھاندلی کے بل پر۔ کیا الیکشن میں ایسا ہوا ؟ ایک کم از کم قومی اتفاق رائے درکار ہوتاہے ۔ ذات پات میں بٹے ، مذاہب میںمنقسم ، بھارت ایسے ملک میں کچھ نہ کچھ کارفرما ہے ۔ ہمارا حال کیا ہے ؟ امن و امان کا قیام اوّلین شرط ہے ۔ پھر سیاسی استحکام ۔ اس کے بعد معاشی نمو کہ تعلیم عام کی جائے اور صحتِ عامہ سنواری جائے ۔ دفاع مضبوط ہو اور خارجہ پالیسی آزاد رہے۔اس طرح کیا ہم سوچتے ہیں ؟ نہیں بلکہ شیر ، بلّا اور تیر۔ کرپشن ہے اور اس قدر کہ تصویر کشی اب مشکل ہو گئی۔ ریاست کمزور سے کمزور تر ۔ قبائل میں اگر طالبان ہیں تو تعجب کیا۔ کراچی میں ایم کیو ایم کی متوازی حکومت قائم ہے اور مساجد میں مولوی صاحب حکمران۔ بازار میں تاجروں کی تنظیمیں من مانی فرماتی ہیں اور سیاسی پارٹیاں ان کے موڈ کا خیال رکھتی ہیں ۔ جاگیردار زرعی ٹیکس دینے سے انکا رکرتے ہیں ۔ جائزے یہ کہتے ہیں کہ پنجاب کے ارکان کی عظیم اکثریت تحصیل داروں اور پٹواریوں کی رشتے دار ہے ، تقریباً ستّر فیصد۔ لیڈر کاروبار کرتے ہیں ۔ دوستی امرا سے رکھتے ہیں اور تقاریر غریبوں کے لیے ۔ این جی اوز ہیں اور عطیات دینے والوں کے ایجنڈے سینے سے لگا رکھتی ہیں ۔ذرائع ابلاغ کو اس بحث کی روشنی میں دیکھ لیجئے ، جو گزشتہ دنوں سے جار ی ہے۔ پندرہ برس سے یہ ناچیز گزارش کرتا رہا کہ بعض کو غیرملکی پال رہے ہیں ۔ اکثر نے نظر انداز کیا۔ بعض دانشوروں نے کہا : وہ سنسنی بیچتا ہے ۔ مٹی زرخیز ہے ۔ اتنی زرخیز کہ دنیا کے چند ہی ممالک میں ۔ پانی اب بھی فراواں ۔معدنیات کے خزانے اکثر اقوام سے بڑھ کر ۔ ذہنی صلاحیت میں دنیا کی سات اعلیٰ ترین سرزمینوں میں سے ایک ۔ اللہ کا قانون مگر پیغمبروں کے لیے کبھی نہ بدلا ، ہمارے لیے کیسے بدل جائے ؟ ’’شر الدّواب‘‘ قرآنِ کریم میں ارشاد یہ ہے کہ جو غور نہیں کرتے، وہ بدترین جانور ہیں ۔ سوچیے تو سہی‘ جنابِ والا‘ غور تو کیجیے‘ ورنہ تو بھیڑ بکریاں بن کر ہی جینا ہوگا، بھیڑ بکریاں بن کر ۔ چرواہوں کی مرضی اورمنشا کے مطابق!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved