تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     22-11-2024

فیض احمد فیض: وقت سے آگے کی آواز

20 نومبر کو فیض احمد فیض کی برسی منائی گئی۔ فیض احمد فیض کی طرح چند اور نام بھی پاکستان کے ادبی منظر نامے پربہت نمایاں ہیں۔ فیض کی شاعری نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی ادبی اور سیاسی منظر نامے کے اُفق پر چھائی ہوئی شاعری ہے‘ جو ان کے انتقال کے کئی دہائیوں بعد بھی قارئین کو متاثر کرتی ہے۔ ان کی شاعری انسانی جدوجہد کی عکاسی کرتی ہے‘ جو لچک کی علامت‘ انصاف اور مساوات کیلئے امید کی کرن ہے۔
فیض کا سفر غیر منقسم ہندوستان کی بھرپور ثقافتی سرزمین سے شروع ہوا۔ سیالکوٹ‘ جو پہلے ہی علامہ اقبال کی جائے پیدائش کے طور پر مشہور ہے‘ ایسے مفکرین کی پرورش کرتا نظر آتا ہے جو برصغیر کی فکری اور جذباتی گفتگو کی تشکیل کرتے ہیں۔ فارسی اور اردو ادب سے فیض کی ابتدائی نمائش‘ انگریزی‘ عربی اور فلسفے میں ان کی علمی پختگی کے ساتھ‘ ایک ایسا ذہن بنا جو کلاسیکی اور عصری فکر کی پرورش کرتا ہے۔ لیکن ان کی ادبی سرگرمیاں اپنے وقت کی حقیقتوں سے کبھی الگ نہیں ہوئیں۔
فیض جنوبی ایشیا کی تاریخ کے انتہائی ہنگامہ خیز ادوار سے گزرے۔ برطانوی نو آبادیاتی نظام اور اس کے نتیجے میں تقسیم کے عمل سے گزرنے تک‘ ان کی زندگی خطے کے سماجی اور سیاسی اتار چڑھاؤ سے گہرائی تک جڑی ہوئی تھی۔ بہت سے شاعروں کے برعکس‘ جنہوں نے فراریت میں سکون تلاش کیا‘ فیض نے ہنگامہ خیزی کو قبول کیا اور اپنے قلم کو تلوار کے طور پر چلایا۔ انہوں نے ایسے شہکار تخلیق کیے جو ظلم اور ناانصافی کے خلاف ایک توانا آواز تھے۔ مساوات اور ہمدردی پر مبنی دنیا کا تصور پیش کرتے تھے۔
مارکسزم کے ساتھ فیض کی وابستگی اکثر غلط فہمی کا شکار رہی ہے۔ انکی شاعری کبھی نظریاتی عقیدے تک محدود نہیں رہی۔ سوشلزم پر ان کے یقین کی جڑیں پسماندہ‘ مظلوم اور بے آواز لوگوں کیلئے ان کی گہری ہمدردی میں تھیں۔ دورانِ قید لکھی گئی 'دستِ صبا‘ اور 'زنداں نامہ‘ جیسی تصانیف ان کے غیر متزلزل جذبے اور مایوسی میں بھی خوبصورتی اور مقصد تلاش کرنے کی صلاحیت کی عکاسی کرتی ہیں۔ البتہ فیض کی شاعری صرف مزاحمت کے موضوعات تک محدود نہیں ہے۔ ان کی تخلیق میں درد بھری نرمی‘ ایک گہری محبت ہے‘ جو انسانیت کو گھیرنے کیلئے ذاتیات سے بالاتر ہے۔ ان کی منظر کشی اکثر رومانویت کو انقلابیت کیساتھ ضم کر دیتی ہے‘ دونوں کے درمیان لکیروں کو دھندلا دیتی ہے‘ محبت وانحراف کا عمل بن جاتی ہے۔ فیض کے کام کی عالمی پہچان انکی عالمگیر اپیل کو واضح کرتی ہے۔
فیض کی شاعری کا متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور ان کے انصاف‘ محبت اور انسانیت کے موضوعات ثقافتوں اور سرحدوں کے پار بھی گونجتے ہیں۔ فیض کو 1962ء میں لینن پیس پرائز سے نوازا گیا‘ جس نے ان کی حیثیت کو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے شاعر کے طور پر مزید مستحکم کیا۔ آج کی دنیا میں‘ جہاں سماجی وسیاسی تقسیم پہلے سے کہیں زیادہ گہری نظر آتی ہے‘ فیض کی آواز نمایاں طور پر آج بھی اتنی ہی تازہ ہے۔ انصاف اور مساوی معاشرے کا ان کا خواب شاید اب کچھ مبہم لگتا ہے‘ لیکن ان کی شاعری ہمیں جدوجہد جاری رکھنے کی ترغیب دیتی ہے‘ جیسا کہ انہوں نے صبحِ آزادی میں لکھا ہے۔ فیض ہمیں یاد دلاتا ہے کہ حقیقی آزادی کی طرف سفر ناکامیوں سے بھرا ہوا ہے‘ لیکن یہ ایک ایسا سفر ہے جو شروع کرنے کے قابل ہے۔ جب ہم فیض احمد فیض کو یاد کرتے ہیں‘ ہم ایک افسانوی شاعر کو ہی نہیں‘ اس کے وژن‘ اس کی ہمت اور الفاظ کی تبدیلی کی طاقت میں اس کے ایمان کو دیکھتے ہیں۔ ان کی شاعری میں صرف پاکستان کی کہانی نہیں ہے‘ بلکہ انسانیت کی عزت‘ محبت اور انصاف کی لازوال جدوجہد کی کہانی ہے۔ پاکستان کی ادبی روایت‘ اس کے لوگوں کی لچک‘ تخلیقی صلاحیتوں اور گہرائی کا ثبوت ہے۔ پاکستان نے اپنے قیام سے لے کر اب تک بے شمار سماجی وسیاسی چیلنجوں کا سامنا کیا ہے‘ لیکن اس کا ادب نہ صرف برقرار رہا ہے بلکہ ترقی کی منازل طے کر رہا ہے‘ جس نے تاریخ‘ شناخت اور انسانی جذبات پر ایک انوکھا نقطہ نظر پیش کیا ہے۔ اس پائیدار وراثت کے مرکز میں وہ بلند پایہ شخصیات ہیں‘ جنہوں نے ملک کے ادبی تشخص کی تشکیل اور اس کی نئی تعریف کی ہے۔
فیض احمد فیض کا نام لیے بغیر پاکستان کے ادبی لیجنڈز پر بات نہیں کی جا سکتی‘ جن کے اشعار مزاحمت‘ محبت اور انقلاب کے مترادف بن چکے ہیں۔ منظر نگاری اور تمثیل سے مالا مال فیض کی شاعری نے بے آوازوں کو آواز دی اور اپنی شناخت میں جکڑی ہوئی قوم کی جدوجہد کو نئے سرے سے بیان کیا۔ خواہ وہ ان کا دل دہلا دینے والا ''مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘‘ ہو یا ''ہم دیکھیں گے‘‘ یا جبر پر ان کی شدید تنقید ہو‘ فیض کے قلم میں ایسی طاقت تھی جو سرحدوں اور نسلوں کو عبور کر جاتی ہے۔ ان کے کام ان لوگوں کیلئے ایک الہامی ندا کا باعث بنے‘ جو ایک انصاف پسند دنیا کا خواب دیکھنے کی ہمت رکھتے ہیں۔
اسی عہد میں فیض کے متوازی لیکن اسلوب میں بالکل منفرد سعادت حسن منٹو ہیں جنہیں اکثر جنوبی ایشیا کا ضمیر سمجھا جاتا ہے۔ منٹو کی غیر معمولی کہانیاں معاشرے کیلئے آئینے کا درجہ رکھتی ہیں‘ جو اس سماج کی منافقتوں اور اخلاقی تضادات کو بے نقاب کرتی ہیں۔ ان کی مختصر کہانیاں‘ خاص طور پر جو 1947ء کی تقسیم کے دوران ترتیب دی گئی تھیں‘ جیسے ٹوبہ ٹیک سنگھ اور ٹھنڈا گوشت‘ ان میں انسانی وجود کے صدمے اور مضحکہ خیزی کو پکڑنے کی صلاحیت بے مثال ہے۔ منٹو کیلئے سچائی سب سے اہم تھی اور اس کیلئے ان کی غیر متزلزل وابستگی نے انہیں ایک متنازع شخصیت بنا دیا۔ پھر بھی اسی ایمانداری نے انہیں پاکستان اور اردو ادب کی تاریخ میں امر کر دیا۔
نثر کے دائرے میں قرۃ العین حیدر بھی ایک یادگار شخصیت کے طور پر نمایاں ہیں جن کی عظیم تخلیق ''آگ کا دریا‘‘ نے تاریخ کی ایک نئی تعریف کی۔ صدیوں پر محیط یہ کتاب برصغیر کے ثقافتی اور سیاسی منظر نامے سے گزرتی ہے‘ شناخت‘ نقل مکانی اور تسلسل کے موضوعات پر روشنی ڈالتی ہے۔ قرۃ العین کا تاریخ کے بارے میں گہرا فہم اور اسے بغیر کسی رکاوٹ کے افسانے میں ڈھالنے کی ان کی صلاحیت نے اس تخلیقی شہکار کو پاکستانی ادب کا سنگِ بنیاد بنا دیا۔
پاکستان میں ادبی افسانہ ماضی تک محدود نہیں۔ انتظار حسین جیسے لکھاریوں نے روایت اور جدیدیت کے درمیان فرق کو پاٹتے ہوئے‘ تمثیلی کہانیاں تیار کیں جن میں تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں نقصان‘ جلاوطنی اور معنی کی تلاش جیسے موضوعات پر بات کی گئی۔ ان کے کام کو اکثر لوک داستانوں اور تصوف سے جوڑ کر پرانے اور نئے کا ایک انوکھا امتزاج بنایا جاتا ہے۔
پاکستان کی ادبی روایت کا نچوڑ اس کے تنوع میں مضمر ہے۔ اس میں اردو‘ پنجابی‘ سندھی‘ پشتو اور بلوچی سمیت متعدد زبانوں میں شاعری‘ نثر‘ ڈرامہ اور مضامین شامل ہیں۔ یہ تمام ادب ان بے شمار ثقافتوں‘ تاریخوں اور جدوجہد کی عکاسی کرتا ہے جو قوم کے تانے بانے کو تشکیل دیتے ہیں۔جب ہم پاکستان کے ادبی لیجنڈز کا جشن مناتے ہیں تو ان تمام ادیبوں نے صرف تاریخ ہی نہیں لکھی بلکہ انہوں نے اسے تشکیل بھی دیا اور تخلیق بھی کیا ہے۔ ایک ایسے معاشرے کا وژن پیش کیا ہے جو اپنی خامیوں کے باوجود خوبصورتی‘ انصاف اور سچائی کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔ ان کے الفاظ میں قارئین اور اس سماج کو اپنی آواز ہی نہیں بلکہ اپنی روح بھی ملتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved