تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     22-11-2024

قائداعظم ؒ اور آزادیٔ فلسطین

آج سے تین صدیاں قبل برطانیہ دنیا کی سپر پاور تھا۔ اس کی حکمرانی میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ تک اس کی حکمرانی تھی۔ لہٰذا سورج مشرق سے طلوع ہوتا تھا تو اس کی حکمرانی پر طلوع ہوتا تھا۔ جب غروب ہوتا تھا تو موجودہ امریکہ اور کینیڈا پر سے ہوتا ہوا آگے بڑھتا تھا تو یہاں پر بھی برطانیہ کی حکمرانی قائم تھی۔ پھر سورج الاسکا سے غروب ہو کر دوبارہ آسٹریلیا سے طلوع ہو جاتا۔ درمیان کی دنیا میں بھی کئی ملک اور جزائر اسی کی حکمرانی میں تھے۔ آٹھ عشرے قبل تک برصغیر بھی اس کی حکمرانی میں تھا۔ اس خطے میں پاکستان‘ بھارت‘ سری لنکا‘ بنگلہ دیش‘ نیپال‘ بھوٹان پر اسی کی حکمرانی تھی۔ برما پر بھی وہی حکمران تھا۔ چین کے علاقوں ہانگ کانگ‘ تائیوان اور مکائو وغیرہ پر بھی برطانیہ کی حکومت تھی۔افریقہ کے کئی ملکوں پر اس کی حکمرانی تھی۔ جنوبی افریقہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز پر مسلمانوں کی عثمانی سلطنت ایک کمزور عالمی قوت کے طور پر باقی تھی۔ اس کے پاس مشرقی یورپ کے ملک بھی تھے۔ مشرق وسطیٰ اس کے پاس تھا۔ شمالی افریقہ کے ملک بھی اس کے پاس تھے۔1914ء میں پہلی عالمی جنگ کا آغاز ہوا۔1918ء کے آخر پر اس کا اختتام ہوا۔ عثمانی ہار گئے تو ان کے سارے علاقے ہاتھوں سے نکل گئے۔ صرف ترکیہ نام کا ملک‘ جو آج موجود ہے‘ یہ بچ گیا۔ لبنان اور شام فرانس کے حصے میں آ گئے جبکہ عراق اور فلسطین برطانیہ کے حصے میں آ گئے۔ یہودی گزشتہ دو ہزار سالوں سے یورپ میں بڑی تعداد میں آباد تھے اور یورپی مسیحی لوگوں کے ظلم کا نشانہ بنتے تھے۔ وہ ہمہ وقت اپنی چالاکیوں اور فریب کاریوں میں مسلسل مصروف تھے۔ یورپ اب ان سے جان چھڑانا چاہتا تھا لہٰذا مسلمانوں کو یہودیوں کے ساتھ الجھا کر اپنے سے دور رکھنے کا منصوبہ سوچا گیا؛ چنانچہ برطانیہ نے یورپ اور امریکہ کی مشاورت سے ان کو فلسطین میں آباد کرنا شروع کردیا اور انہیں معاشی‘ سیاسی اور عسکری طور پر بھی مضبوط کرنا شروع کردیا۔
آل انڈیا مسلم لیگ کا تاریخی ریکارڈ بتاتا ہے کہ فلسطین کی آزادی کی حمایت میں 1933ء سے لے کر 1946ء تک 18قراردادیں مسلم لیگ کے اجلاس میں پیش اور منظور کی گئیں۔ ان قراردادوں کو برصغیر اور برطانیہ کے اشاعتی اداروں نے شائع کیا۔ یہ برٹش انڈیا کے وائسرائے اور برطانیہ کے حکمرانوں کے حوالے بھی کی گئیں۔ انڈیا بھر میں ہزار ہا جلسوں کا انعقاد کیا گیا۔ ان جلسوں اور کانفرنسوں میں پیش کی گئی قراردادیں ان کے علاوہ ہیں۔ اس جدوجہد کے ذریعے برطانیہ کی حکومت کو اس کا عہد اور وعدہ یاد دلایا گیا جو اس نے عربوں سے کیا تھا کہ پہلی عالمی جنگ میں جونہی برطانیہ کو فتح ملے گی تو ان علاقوں کی حکمرانی ان کے حوالے کر دی جائے گی۔1937ء میں‘ آل انڈیا مسلم لیگ کی جدوجہد‘ جو آزادیٔ فلسطین کیلئے 1933ء سے جاری تھی‘کو پانچ سال ہونے کو آئے تھے۔ اب حالات نے واضح کردیا تھا کہ عربوں اور اہلِ فلسطین کے ساتھ عہد شکنی ہونے جا رہی ہے۔ اس پر 11 جولائی 1937ء کو بمبئی سے حضرت قائداعظمؒ نے میڈیا کو بیان دیتے ہوئے فرمایا: ''فلسطینی رپورٹ عربوں کے ساتھ شدید ترین ناانصافی کا شاہکار ہے۔ اگر برطانوی پارلیمنٹ نے اس رپورٹ کو اپنے ایوان میں پاس کر لیا تو اس کا مطلب ہوگا کہ برطانوی قوم عہد شکنی کی مرتکب ہو گئی ہے۔ برطانیہ کو چاہیے کہ وہ اپنا کیا ہوا وعدہ نڈر ہو کر پورا کرے‘‘۔(دی ٹائمز‘12 جولائی1937ء)
مصر کے شہر قاہرہ میں آزادیٔ فلسطین کا دفتر قائم ہو گیا تھا۔ دفتر کے ناظم جناب علویہ پاشا نے حضرت قائداعظمؒ کو خط کے ذریعے آگاہ کیا کہ عالم اسلام کے نمائندے آزادیٔ فلسطین کے لیے قاہرہ میں منعقدہ اجلاس میں تشریف لا رہے ہیں‘ آپ سے گزارش ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے نمائندے بھی قاہرہ میں بھیج کر شکرگزار فرمائیں۔ حضرت قائداعظم نے مسلم لیگ کے اجلاس میں شرکا کو بتایا کہ 7 اکتوبر 1938ء کو قاہرہ میں فلسطین کے حوالے سے ایک اجلاس ہو رہا ہے۔ ہمارے تین نمائندے جناب خلیق الزمان‘ جناب عبدالرحمان اور مولانا مظہر الدین قاہرہ کے لیے روانہ ہو چکے ہیں۔ دیگر دو افراد بھی جلد روانہ ہونے والے ہیں۔ ہم نے اپنے فلسطینی بھائیوں کو یقین دلایا ہے کہ آزادیٔ فلسطین کے لیے اپنی مقدور بھر قوت کو بھر پور طریقے سے استعمال کریں گے۔(دی ٹربیون‘ ستمبر1938)۔
8 اکتوبر 1938ء کو حضرت قائداعظمؒ نے کراچی سے ایک خط لکھا جس میں اہلِ فلسطین کو آگاہ کیا گیا کہ آل انڈیا مسلم لیگ نے سارے ہندوستان میں 26 اگست کو یوم فلسطین منایا۔ ہندوستان بھر میں ہزاروں جلسوں اور کانفرنسوں کا انعقاد کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اہلِ اسلام کے دل اُس وقت شدید مجروح ہوتے ہیں جب ہم بہادر عربوں پر ظلم اور بے رحمی کی خبریں سنتے ہیں‘ ظلم پر مبنی تصاویر دیکھتے ہیں۔ (دی ٹربیون: اکتوبر 1938ء)۔ 30 جنوری 1939ء کو حضرت قائداعظمؒ نے مسلم لیگ کے اجلاس میں شرکا کو آگاہ کیا کہ انہوں نے برطانیہ کے وزیراعظم چیمبر لین‘ برطانوی نو آبادیات کے وزیر مسٹر مالکم میکڈونلڈ اور برطانوی کابینہ میں انڈین امور کے وزیر کو ٹیلی گرام ارسال کیا ہے کہ آپ لوگ فلسطین کے بارے میں 7 فروری 1939ء کو فلسطین کے مسئلے پر جس کانفرنس کا انعقاد کر رہے ہیں اس میں آل انڈیا مسلم لیگ کے وفد کو بھی شرکت کی دعوت دی جائے۔ (دی سول اینڈ ملٹری گزٹ‘ یکم فروری 1939ء)۔ 23 مارچ 1940ء کو لاہور کے تاریخی جلسے میں چار قراردادیں پیش کی گئیں۔ پہلی قرارداد پاکستان کے حصول کی قرارداد تھی اور دوسری آزادیٔ فلسطین کیلئے تھی۔ اس قرارداد میں اس بات پر تشویش کا اظہار بھی کیا گیا کہ فلسطین میں برطانوی فوج کی ایک بڑی تعداد کیوں موجود ہے؟ 17 فروری 1944ء کو حضرت قائداعظم نے نئی دہلی سے برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل کے نام ٹیلی گرام بھیجا جس میں کہا گیا کہ آپ لوگوں نے انڈین وائسرائے لارڈ لنلتھگو کے ذریعے یقین دہانی کرائی تھی کہ عربوں کے ساتھ عدل ہوگا مگر امریکی اور صہیونی ذرائع ابلاغ مذکورہ یقین دہانی کی نفی کر رہے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو سارا عالم اسلام اور مسلمانانِ ہند غم وغصے میں مبتلا ہو جائیں گے۔ (دی ڈان‘ 18 فروری 1944ء)
قارئین کرام! مفتیٔ اعظم فلسطین امین الحسینی آزادیٔ فلسطین کیلئے جدوجہد کی قیادت کر رہے تھے۔ وہ یکم جنوری 1895ء کو القدس شریف (یروشلم) میں پیدا ہوئے تھے۔ برطانیہ نے انہیں فلسطین سے نکل جانے کا حکم دیا۔ 1945ء میں جب وہ جلاوطن ہو رہے تھے تو قائداعظمؒ نے عالمی سطح پر اس جلاوطنی کی مذمت کی اور اس اقدام کو ظلم پر مبنی قرار دیا۔12 اکتوبر 1945ء کو مفتی اعظم نے حضرت قائداعظمؒ کو ایک خط لکھا‘ جس میں آزادیٔ فلسطین کیلئے مسلم لیگ کی جدوجہد کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ''مجھے جلاوطن کرنے پر آپ کی آواز پہلی اسلامی آواز تھی جو میرے کانوں تک پہنچی۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں‘‘۔
قائداعظم ؒ نے مسٹر ارنسٹ سی مارٹی (نامہ نگار یونائیٹڈ پریس امریکہ) سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ''مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے فلسطین سے برطانوی اور امریکی اثر ورسوخ کا خاتمہ ضروری ہے۔ یہاں یہودی آمد کا سلسلہ ختم کیا جائے بلکہ جو یہودی فلسطین میں لائے گئے ہیں ان کی آباد کاری کا بندوبست آسٹریلیا‘ کینیڈا یا کسی ایسے ملک میں کیا جائے جہاں وسیع گنجائش ہو۔ قائداعظمؒ نے خبردار کیا کہ یہود کو جس طرح فلسطین میں دھکیلا جا رہا ہے‘ مستقبل میں ان کے ساتھ ہٹلر کے سانحہ سے بڑا سانحہ رونما ہو سکتا ہے۔ قارئین کرام! حضرت قائداعظمؒ اپنی وفات تک اہلِ فلسطین کیلئے جدوجہد کرتے رہے۔ وفات سے محض 34دن پہلے 8اگست 1948ء کو دی پاکستان ٹائمز نے ان کا جو پیغام شائع کیا وہ یہ تھا: فلسطین اور کشمیر میں طاقت کا ڈرامہ کیا گیا۔ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کیلئے ہمیں متحد ہونا ہو گا‘‘۔ اے اللہ کریم! ہمارے قائد‘ ہمارے بابائے قوم کو جنت الفردوس عطا فرما‘ آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved