اللہ مجھے اس قوم کی غائبانہ عظمت کے گن گانے والوں کی گرفت سے محفوظ رکھے کہ میں یہ کہنے والا ہوں کہ پاکستان دنیا میں تعداد میں سب سے زیادہ گداگروں اور فقیروں کا ملک ہے۔ میں یہ بات کسی علامتی حوالے سے نہیں بلکہ صاف صاف معنوں میں لکھ رہا ہوں۔ گداگروں کی فہرست میں سبھی شامل ہیں۔ سڑکوں پر مانگنے والے‘گلی محلوں میں دروازے بجا کر مانگنے والے‘فضول اور بیکار چیزیں بیچنے کے نام پر گداگری کرنے والے‘بینظیر انکم سپورٹ میں اپنی بیگمات و رشتہ اداروں کے نام پر خیرات ہضم کرنے والے سرکاری افسران اور صاحبِ حیثیت لوگ‘کام کرنے کے نام پر معاوضے کی آڑ میں رشوت لینے والے سرکاری اہلکار‘ زکوٰۃ فنڈ سے حج کرنے والے سیاستدان اور دنیا بھر میں قرضوں کے نام پر بھیک مانگنے والے ہمارے حکمران۔ اگر ان گداگروں کی تعداد کو جمع کریں تو بندے کی آنکھیں حیرت سے پھٹ جائیں کہ اس ملک کے کتنے لوگ گداگری سے وابستہ ہیں۔
پاکستانی سوسائٹی دنیا کی شاید سب سے منفرد اور پیچیدہ سوسائٹی ہے۔ دنیا میں اتنے زیادہ تضادات اور تنوع سے بھری ہوئی سوسائٹی شاید ہی کہیں ہو۔ حج اور عمرہ کرنے والوں کی تعداد دیکھیں تو ہمارا نمبر خاصا اونچا ہے۔ کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ‘کم تولنے‘کاروبار میں جھوٹ بولنے اور خراب مال بیچنے میں ہمارے دکاندار اور کاروباری حضرات دنیا میں بہت ہی اونچے مقام پر فائز ہیں۔ اس میں دکاندار اور کاروباری حضرات کے ساتھ ساتھ گاہک حضرات بھی غچہ دینے اور چونا لگانے کا موقع ملے تو کسی سے کم نہیں۔ لیکن ہم یہ ماننے کیلئے ہی تیار نہیں کہ ہم میں خرابیاں‘کوتاہیاں‘غلطیاں اور کجیاں موجود ہیں۔ جب احساس ہی نہ ہو تو اصلاح کیا خاک ہو گی؟ یہ قوم صحیح معنوں میں مجموعۂ اضداد ہے۔ ایک طرف دنیا بھر میں سب سے زیادہ گداگر اور فقیر اس ملک میں ہیں تو دوسری طرف ان گداگروں اور فقیروں کیلئے روزگار کا باعث بننے والے سخی‘فیاض‘دریا دل اور مخیر حضرات کی سب سے بڑی تعداد بھی شاید اسی ملک میں ہے کہ اگر یہ لوگ موجود نہ ہوتے تو گداگری اپنی موت آپ مر چکی ہوتی۔ بھلا سخاوت کی عدم موجودگی میں گداگری کتنا عرصہ نکال سکتی تھی؟ گھاٹے کا کاروبار تھوڑا عرصہ تو چل سکتا ہے مگر تادیر چلنا ممکن نہیں ہے۔ اپنی آمدنی کی شرح کے حساب سے خیرات کرنے میں پاکستانی قوم دنیا میں اگر پہلے نمبر پر نہ بھی سہی تو پہلے دو تین نمبروں میں ضرور ہو گی۔ لیکن معاشرے میں نہ خوشحالی دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی گداگری میں کوئی کمی دکھائی دیتی ہے اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ اس کاروبار (جی ہاں! یہ پیشہ اب باقاعدہ کاروبار بن چکا ہے) میں ضمیر مارنے کے علاوہ اور کوئی سرمایہ کاری نہیں کرنا پڑتی لہٰذا یہ دن رات پھل پھول رہا ہے اور گداگروں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس ملک میں گداگروں کی درست تعداد وغیرہ پر لعنت بھیجیں آپ سڑکوں‘ چوراہوں‘ گلیوں‘ محلوں اور بازاروں میں کہیں چلے جائیں‘ آپ کو گداگروں کی فوج ظفر موج ملے گی۔ عمر یا جنس کی کوئی قید نہیں‘مرد وخواتین‘جوان بوڑھے اور بچے‘ہر عمر اور ہر قسم کا گداگر آپ کو ملے گا۔ صحتمند اور ہٹے کٹوں سے لے کر اصلی اور جعلی معذوروں تک‘ایک لمبی فہرست ہے۔
جیسا کہ میں اوپر لکھ چکا‘مانگنے والے بھی اس ملک میں بیشمار ہیں اور خیرات کرنے والے بھی اَن گنت ہیں۔ تاہم مانگنے اور دینے والوں کا باہمی تعاون روزانہ کی بنیاد پر اس طرح چل رہا ہے کہ مانگنے والا نہ تو اپنے پائوں پر کھڑا ہوتا ہے اور نہ ہی اپنا پیشہ ترک کرتا ہے کہ بغیر محنت اور سرمایہ کاری کے اسے دوسرا کوئی متبادل پیشہ مل ہی نہیں سکتا۔ مخیر اور دردِ دل رکھنے والوں کی نیت سے قطع نظر اس سارے نظام کا حاصل یہ ہے کہ اگر جوتے پالش کرنے والے کی دیہاڑی چار سو روپے ہے تو مانگنے والے کی دو‘تین ہزار روپے بن جاتی ہے۔ بھلا ایسے میں گداگری میں کیسے کمی ہو سکتی ہے؟ نتیجہ یہ ہے کہ اس پیشے سے منسلک افراد کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمارے ہاں گلی محلے‘سڑکوں‘چوراہوں اور بازاروں میں مانگنے والوں کو ملنے والی خیرات اور صدقات گویا گداگروں کی تعداد میں اضافے کے علاوہ معاشرے میں کوئی مستقل اور پائیدار معاشی بہتری اور خود انحصاری کو فروغ دینے میں بری طرح ناکام دکھائی دیتی ہے۔ ملک میں بہت سے ادارے اجتماعی بہتری‘تعلیمی ترقی اور بلاسود قرضوں کے ذریعے لوگوں کیلئے مستقبل کو سنوارنے اور انہیں اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے قابلِ قدر کاوشیں کر رہے ہیں‘ضرورت اس امر کی ہے کہ افرادی گداگری کے بجائے ان دوررس نتائج کیلئے کوششیں کرنے والے اداروں کو صدقات اور خیرات دی جائے تاکہ انفرادی گداگری کو جڑ سے ختم نہ بھی سہی تو کم ضرور کیا جا سکے۔
زکوٰۃ تو خیر ہر صاحبِ نصاب پر فرض ہے اور اس کی ادائیگی اپنا فرض ادا کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں لیکن صدقات‘ خیرات اور ضرورت مندوں کی مالی مدد کیلئے اپنا پیسہ ان اداروں کے ذریعے ضرورتمندوں پر خرچ کیا جائے جو انہیں گداگر کے درجے سے اٹھا کر اپنے پائوں پر کھڑا کرنے میں اپنا کردار انجام دے رہے ہیں۔ میں نام نہیں لکھ رہا مگر ایسے ادارے ایک دو نہیں‘بیسیوں کی تعداد میں ہیں اور ہم ان کی مدد کرکے مانگنے والوں کو کمانے والا بنا سکتے ہیں۔ اگر سڑکوں‘ چوراہوں اور بازاروں میں پیشہ ور مانگنے والے کو بغیر محنت کے ملنے والی خیرات بند ہو جائے تو وہ کوئی نہ کوئی کام ضرور کرے گا۔ عالم یہ ہے کہ گھروں میں کام کرنے کیلئے بندہ تلاش کریں تو ملتا نہیں اور سڑکوں پر مانگنے والوں کا ہجوم روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ یہ جنس اب دوسرے ملکوں کو برآمد بھی کی جا رہی ہے۔ متحدہ عرب امارات کی جانب سے پاکستانیوں کیلئے ویزے کی پابندی کے پیچھے دیگر کئی وجوہات کے علاوہ ہمارے ایکسپورٹ شدہ گداگر بھی ایک بہت بڑی وجہ ہیں۔ سعودی عرب نے عمرہ ویزہ پر آنے والے ہزاروں گداگروں سے تنگ آکر عمرہ ویزہ بند کرنے تک کی دھمکی دی ہوئی ہے۔
ایسے ایسے فراڈی اور جعلسازوں سے پالا پڑتا ہے کہ خدا کی پناہ۔ پرانی بات ہے‘میں ملتان میں ایس پی چوک پر اشارے پر رکا ہوا تھا کہ کسی نے میری گاڑی کے شیشے کو ہاتھ سے کھٹکھٹایا۔ میں نے دیکھا تو ایک ملنگ صورت ہٹا کٹا فقیر تھا۔ میں نے اشارے سے اسے معاف کرنے کا کہہ دیا۔ اس نے ڈھٹائی سے دوبارہ اور پہلے کی نسبت زیادہ زور سے شیشہ بجایا۔ میں نے شیشہ نیچے کیا تو وہ ایک خاص لہجے میں کہنے لگا کہ مجھے بیس روپے چاہئیں بابو! صرف بیس روپے‘نہ کم نہ زیادہ‘ بس بیس روپے دیں۔ اللہ جانے میرے دل میں کیا آئی کہ میں نے جیب سے بیس روپے نکالے اور اسے دے دیے۔ اسے پیسے دے کر میں شیشہ بند کرنے لگا تو اس نے شیشے میں ہاتھ پھنسا کر مجھے اشارہ کیا۔ میں نے شیشہ دوبارہ نیچے کرکے اس سے پوچھا کہ اب کیا بات ہے؟ وہ بڑے دبنگ لہجے میں کہنے لگا: مانگ بابو‘کیا مانگتا ہے؟ فقیر سے مانگ لے جو مانگنا ہے‘فقیر آج موج میں ہے۔ اس سے جو مانگنا ہے مانگ لے۔ مانگ کیا مانگتا ہے؟ میں نے اسے کہا کہ میں نے تم سے کیا مانگنا ہے‘ بس میرے بیس روپے مجھے واپس کر دو۔ میری بات سن کر اس نے شیشے میں ڈالا ہوا اپنا منہ باہر نکالا اور یہ کہتے ہوئے دور بھاگ گیا کہ بابو! تو بڑا چالاک ہے۔ ایسے جعلساز درویش اور فقیر ہماری ضعیف الاعتقادی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ تاہم یہ بات سب سے اہم ہے کہ گداگری پر پابندی اس وقت تک جائز نہیں جب تک سرکار بیروزگاروں کیلئے روزگار کا اہتمام نہیں کرتی۔ لیکن حکمران شارٹ ٹرم کارکردگی کے چکر میں کبھی انکم سپورٹ کا گلوکوز لگا دیتے ہیں اور کبھی پناہ گاہ کے سٹیرائیڈ سے کام چلاتے ہیں۔ ان طریقوں سے دنیا میں نہ تو غریب کم ہوئے ہیں اور ہی غربت کا خاتمہ ہوا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved