یہ کوئی طریقہ ہے حالات کو چلانے کا؟ حالات خراب سے خراب تر ہو گئے ہیں لیکن اپنی روش نہیں بدلی۔ آنکھوں پر پٹی باندھ کر ہی چلنا ہے اور ذہنوں کو جیسے کسی چیز سے کَس کے رکھا جائے‘ یہ کیفیت ہے۔ حالات پر کنٹرول تب ہو کہ سوچ اور حکمت عملی میں یکسوئی ہو لیکن یکسوئی کہاں سے آئے جب دھیان بٹا ہوا ہے۔ دہشت گردی کا سامنا ہے اور سیاسی محاذ بھی کھلے ہوئے ہیں۔ معیشت کا وہ حال ہے کہ آئی ایم ایف شرطیں منوائی جا رہا ہے اور آئی ایم ایف پروگرام شروع نہیں ہو رہا۔ کرم کے سانحہ کا ذکر کیا کِیا جائے کیونکہ الفاظ ساتھ نہیں دیتے۔ جس طرف نظر اٹھتی ہے بیڑہ غرق ہی نظرآتا ہے۔
سیاسی محاذ کی الجھنیں ایسی ہیں کہ فیصلہ سازوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کیا کریں۔ مانگے تانگے کا حکومتی بندوبست ہے یعنی اپنے زور پر نہیں کھڑا‘ اسے ٹیک دے کر کھڑا کیا گیا ہے۔ ایسا طفیلی بندوبست کس مرض کی دوا ہو سکتا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ وزیراعظم اور وزرا کی باتیں کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا‘ ان کی باتوں پر کوئی دھیان بھی نہیں دیتا۔ انہوں نے پھر کیا کرنا ہے؟ کس کام کے یہ لوگ ہیں؟ بس قوم پر بوجھ بنے ہوئے ہیں اور دکھاوے اور نمائش کے ناٹک کرنے میں مصروف ہیں۔ لیکن ایک بات کی داد دینی پڑے گی‘ بے بسی اور لاچاری کے عالم میں بھی شرمندگی ان کے نزدیک سے بھی نہیں گزرتی۔
دہشت گردی والا مسئلہ تو ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ایک دو جوانوں کی ہلاکت ہوتی تو بڑی خبر سمجھی جاتی۔ اب یہ حالت ہے کہ آٹھ‘ دس‘ بارہ شہادتیں ہوتی ہیں اور جتنا کہرام مچنا چاہیے اتنا نہیں ہوتا کیونکہ یہ تقریباً روزمرہ کی روٹین بنتی جا رہی ہے۔ دہشت گردی کا عالم اتنی سنگینی اختیار کر چکا ہے کہ ریاست کا تمام زور‘ ریاست کے تمام وسائل‘ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے لگائے جائیں پھر بھی ناکافی ہوں۔ لیکن یہاں ایک دہشت گردی کا سامنا نہیں‘ خیبرپختونخوا میں اس کی نوعیت اور ہے اور بلوچستان میں اور۔ آئے روز حملے ہو رہے ہیں‘ خیبرپختونخوا کے جنوب کے اضلاع میں شام ڈھلے دہشت گردوں کا زور نمایاں ہو جاتا ہے۔ مزید فکر کی بات یہ بن چکی ہے کہ اُن علاقوں کے عوام جہاں دہشت گردی کا شکار ہیں وہاں دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے آپریشنوں سے بھی خائف ہیں۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ممکنہ آپریشنوں کے خلاف اُن علاقوں میں دھرنے دیے گئے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ عوام اور حکام ایک دیوار کی مانند کھڑے ہوں لیکن جو اصل صورتحال ہے‘ وہ ہم جانتے ہیں۔ سوچنا تو یہ پڑتا ہے کہ اس حالت میں ہم پہنچے کیسے؟ ایسا ہمیشہ سے تو نہ تھا۔ 2014ء میں جب وزیرستان کے علاقے میں آپریشن شروع کیے گئے تو عوام بھی ہمنوا تھے‘ سیاسی پارٹیوں کی حمایت حاصل تھی۔ سب ایک صفحے پر تھے۔ آج جو کیفیت بنی ہوئی ہے وہ کیسے پیدا ہوئی؟ اس پر کیا سوچنے کی ضرورت نہیں ہے؟
ہماری عمر بہت ہو چکی ہے۔ بہت کچھ ہم دیکھ چکے ہیں لیکن خدا گواہ ہے جو صورتحال آج کی ہے‘ پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ دیکھنا تو دور کی بات ہے ایسی صورتحال کا کبھی تصور بھی نہ کر سکتے تھے۔ لیکن قوم کی یہ صورتحال اور حالات کی سنگینی ہمارے سامنے ہے۔ ایک تو پتا نہیں ہمیں سمجھ کیوں نہیں آ رہی کہ اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے۔ بہت سارے گیند آپ ہوا میں اُچھال رہے ہوں تو کچھ دیر تو آپ کر سکتے ہیں‘ زیادہ دیر ایسا نہیں چلتا۔ یہی کیفیت ہمارے سامنے ہے۔ اسی لیے جو وحدتِ سوچ اور عمل ہونا چاہیے اس کا فقدان ہے۔ بیک وقت ہم نے بہت سی چیزوں میں اپنے ہاتھ پھنسائے ہوئے ہیں اور نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ کوئی ایک کام بھی ہم سے ٹھیک سے نہیں ہو رہا۔
یہ جو اندرونی خلفشار ہے‘ یہ تو ہمیں لے کر بیٹھ گیا ہے۔ اسلام آباد میں مختلف ممالک کے سفارت خانے ہمارے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہوں گے؟ پی ٹی آئی کی طرف سے ایک اعلان ہوتا ہے تو پورا شہر کیا خیبرپختونخوا اور پنجاب کی تمام سڑکیں بند کر دی جاتی ہیں۔ ہر جگہ کنٹینروں کو لگا دیا جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ باہر کی کوئی فوج آ رہی ہے اور اس خطرے کے پیش نظر دارالحکومت نے اپنے آپ کو محصور کر لیا ہے۔ کسی اور ملک میں ایسا نہیں ہوتا۔ اور ملکوں میں بھی پُرامن احتجاج ہوتے ہیں لیکن حکومتوں کا ردعمل ایسا نہیں ہوتا جو جہاں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ہماری حکومتوں کے پاؤں مضبوط نہیں اور جب کوئی معمولی سا خطرہ بھی اُٹھتا ہے تو حکومتیں ڈر جاتی ہیں۔ وہ جو انگریزی کا لفظ ہے‘ Panic۔ اُس کیفیت میں آ جاتی ہیں اور پھر سوائے کنٹینروں کی دیواریں کھڑی کرنے کے ان کیلئے اور کوئی چارہ نہیں رہتا۔ ایسا جب ہوتا ہے تو احتجاجی جماعت کا مقصد احتجاج کیے بغیر ہی پورا ہو جاتا ہے۔ کنٹینر لگ جائیں‘ ہزاروں اہلکار مختلف مقامات پر تعینات ہو جائیں‘ کیفیت وہ ہو جائے جو شاید بغداد کی تھی جب ہلاکو خان کی فوج اس طرف آ رہی تھی تو احتجاج کرنے والی جماعت کا اور مقصد کیا رہ جاتا ہے؟
سرکار کو اس کیفیت کا کچھ ادراک نہیں؟ جو پچھلے دو سال یا اس سے کچھ زائد عرصے سے ترکیبیں آزمائی جا رہی ہیں ان کا مقصد تو بڑا واضح تھا کہ ایک جماعت اور اس کے لیڈر کو نہ صرف دبانا ہے بلکہ بطور ایک سیاسی حقیقت کے اسے ختم کرنا ہے۔ کیا یہ مقصد پورا ہو گیا ہے؟ اڈیالہ جیل کے ایک چھوٹے سے کمرے میں ایک شخص بند ہے۔ اس بحث میں جائے بغیر کہ اسے کتنی سہولیات میسر ہیں‘ اس بات سے تو انکار ممکن نہیں کہ وہ شخص‘ جسے سیاسی طور پر ختم کرنے کیلئے اتنا کچھ کیا جا چکا ہے‘ ایک کال دیتا ہے تو صرف حکومت نہیں ملک مفلوج ہوکے رہ جاتا ہے۔ بازار یا انجمنِ تاجران ہڑتال کی کال نہیں دیتے‘ ملکی ٹرانسپورٹ کی طرف سے بند ہونے کا اعلان نہیں ہوتا۔ لیکن ایک کال اُس کوٹھڑی سے آتی ہے اور وہ بھی بذریعہ چند وکلا تو کیفیت ایسی پیدا ہوتی ہے کہ حکومتی نظام کو بخارچڑھ جاتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی جو حالت ہے وہ ہم جانتے ہیں‘ کھل کے بات نہیں کی جا سکتی۔ گھما پھرا کے مفہوم بیان کرنا پڑتا ہے۔ لیڈر کا نام لینے سے بھی اکثرکترایا جاتا ہے اور نام کی جگہ بانی پی ٹی آئی کی رَٹ لگی رہتی ہے۔ لیکن ان تمام حالات کے باوجود ایک ٹوٹا پھوٹا بیان آتا ہے اور وہ حالت ہو جاتی ہے جو اسلام آباد اور گردونواح اور ملک کی تمام موٹرویز کی ہو چکی ہے۔
اس صورتحال سے کچھ تو نتائج اخذ کرنے چاہئیں۔ یہ بیکار کی سیاسی محاذ آرائی کیوں شروع کی ہوئی ہے؟ اڈیالہ کے قیدی سے کس کو خطرہ ہے؟ جس جماعت کا قائد ہے وہ پاکستانی سیاست کا حصہ ہے‘ شاید سب سے بڑا حصہ لیکن اس تکرار میں نہیں جاتے۔ ریاست کو خطرہ تو کہیں اور سے ہے۔ خیبرپختونخوا کی صورتحال سے‘ بی ایل اے کی دہشت گردی اور حملوں سے۔ جب اصل خطرات یہ ہوں تو ہم نے یہ اندرون کی لڑائی کیوں چھیڑ رکھی ہے؟ یہ کوئی فلسفیانہ بات نہیں‘ کامن سینس کی بات ہے۔ پاکستان کو ایسے خطرات لاحق ہیں کہ ذاتی انا کی گنجائش نہیں رہتی۔ لہٰذا ذاتی انا سے نکل کر کچھ اس بیچاری قوم کا سوچنا چاہیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved