بانی تحریک انصاف عمران خان بشریٰ بی بی سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے سے دو سال پہلے ان سے مولانا رومی اور ابن العربی کو سمجھنے کیلئے جاتے تھے۔ خان صاحب نے متعدد بار اس بات کا اظہار بھی کیا۔ یہ بات سامنے آنے کے بعد ہم حیران رہ گئے کہ خان صاحب جس ہستی سے مولانا رومی اور ابن العربی کو سمجھنے کیلئے جاتے رہے ہیں وہ واقعی غیر معمولی صلاحیتوں کی حامل ہو گی اور ان کے تبحر علمی میں کوئی شک نہیں۔ خان صاحب 2018 ء کے شروع میں بشریٰ بی بی سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو ئے اور چند ماہ بعد پی ٹی آئی کی حکومت بھی قائم ہو گئی۔ بشریٰ بی بی نے ایک نجی چینل کو انٹرویو دیا اور تصوف پر بات کی۔ انٹرویو سننے کے بعد بشریٰ بی بی سے متعلق ہمارا بھرم ٹوٹ گیا۔ انٹرویو میں ہونے والی گفتگو ریکارڈ کا حصہ ہے۔ یہ انٹرویو دو حصوں پر مشتمل تھا‘ ایک جمہوریت اور سیاست سے متعلق جبکہ دوسرے حصے میں تصوف پر بات کی گئی تھی۔ سیاسی امور پر ہونے والی گفتگو میں چونکہ خان صاحب کے قصیدے پڑھے گئے تھے اس لیے کسی نے زیادہ تنقید نہ کی البتہ تصوف کو سمجھنے والوں نے اس گفتگو کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ہم نے اپنے ذہنوں میں جو تصور قائم کیا تھا وہ ٹوٹ۔ جو بھرم باقی تھا وہ بشریٰ بی بی کے حالیہ ویڈیو بیان سے ختم ہو گیا۔ اقتدار ختم ہونے کے بعد سائفر لہرا کر اور امریکی مداخلت کا ذکر کر کے خان صاحب نے جو کیا بشریٰ بی بی نے شاید اس سے بڑی غلطی کر دی ہے۔ بشریٰ بی بی کی لب کشائی پر ان کی اپنی پارٹی کیلئے دفاع کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ مشیرِ اطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر محمد علی سیف نے اس وڈیو بیان پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بشریٰ بی بی خود وضاحت کریں گی کہ یہ ان کا ذاتی بیان ہے یا پارٹی کا مؤقف۔ بشریٰ بی بی کے پاس پارٹی کا کوئی عہدہ اور کوئی تنظیمی ذمہ داری نہیں۔ پارٹی کا مؤقف تو پارٹی کا چیئرمین یا سیکرٹری جنرل ہی بیان کرے گا۔ پارٹی قیادت صفائی پیش کرنے کی جو بھی کوشش کرے مگر بشریٰ بی بی نے جو تیر پھینک دیا ہے پارٹی کیلئے اس سے دامن بچانا آسان نہیں ہو گا۔
پی ٹی آئی نے امریکہ کو اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا‘ کچھ عرصہ بعد غلطی کا احساس ہوا تو اس کے تدارک کی کوششیں شروع کر دیں اور 'کیا ہم کوئی غلام ہیں‘ کے بیانیے سے امریکی پرچم لہرانے تک کا سفر ہم نے کھلی آنکھوں سے دیکھا۔ اعصاب شکن کھیل میں پی ٹی آئی کی قیادت ریت کی دیوار ثابت ہوئی ۔ ایسے مواقع پر غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی۔ بروقت اور درست کارڈ کا استعمال ہی اصل کامیابی ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پارٹی قیادت کے الفاظ دو دھاری تلوار کی مانند ہوتے ہیں جو بیک وقت تخریب اور تعمیر کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ غیر محتاط بیان خشک پتوں پر چنگاری کی طرح تنازعات کی آگ کو بھڑکا تا ہے اور پارٹی کو سیاسی خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ اس طرح کے اقدام کے اثرات پارٹی اور اس کے حامیوں کے لیے شدید ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاستدانوں کی زبان قوم کے لیے ایک آئینہ کی مانند ہوتی ہے۔ سیاستدانوں کی گفتگو میں احتیاط کا درجہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ ان کی ہر بات‘ ہر لفظ‘ ہر اشارہ‘ ہر خاموشی کا سیاسی میدان میں گہرا اثر پڑتا ہے۔ ایک غلط لفظ‘ بغیر سوچے دیا ہوا ایک بیان‘ ایک غیر ضروری تبصرہ‘ ایک ناپختہ رائے‘ ایک غیر مناسب اشارہ‘ ایک بے جا خاموشی‘ سب کچھ سیاسی راہداریوں میں تہس نہس کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ بشریٰ بی بی کے ویڈیو بیان کی ٹائمنگ چیک کریں۔ پی ٹی آئی ملک گیر احتجاج کی حتمی کال دے چکی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے اور بشریٰ بی بی کے بیان کے بعد پی ٹی آئی 24 نومبر کے مارچ کے خلاف بننے والی سیاسی صورتحال سے تذبذب کا شکار ہے اور پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی کے اجلاس میں ارکان کی اکثریت مارچ کو منسوخ کرنے کے حق میں تھی۔ ان کا موقف تھا کہ حکومت سے بات چیت کو آگے بڑھنے دینا چاہیے۔پہلے انٹرویو کے بعد جب بشریٰ بی بی کی کم علمی زیر بحث آئی تو خان صاحب نے ان کے میڈیا کے سامنے آنے پر پابندی لگا دی تھی‘ اب ویڈیو بیان سامنے آنے کے بعد خان صاحب نے اپنی اہلیہ کو سیاست سے دور رہنے کی ہدایت کی ہے۔ پارٹی قیادت کو بھی بشریٰ بی بی کی سیاسی سرگرمیوں پر تشویش ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بشریٰ بی بی کا وڈیو بیان نادانستہ نہیں کیونکہ وڈیو بیان ریکارڈ شدہ تھا جس میں بالعموم غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اگر اس مفروضے کو درست تسلیم کر لیا جائے تو پھر سمجھ جانا چاہیے کہ پارٹی میں عمران خان کے متبادل قیادت کا کھیل شروع ہو چکا ہے۔ ظاہر ہے متبادل قیادت کے کئی امیدوار اور خواہش مند ہوں گے۔ خان صاحب کے بہنیں قطعی طور پر نہ چاہیں گی کہ پارٹی قیادت خاندان سے باہر چلی جائے‘ سو آنے والے وقت میں پی ٹی آئی کو اس چیلنج کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔
احتجاج پر مُصر پی ٹی آئی کیلئے خیبر پختونخوا حکومت کے وسائل بڑا سہارا ہیں۔ دوسری طرف صوبہ دہشت گردی سے شدید متاثر ہے۔ کرم میں انسانیت سوز واقعے کا تقاضا تھا کہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور سیاسی مصروفیات ترک کر کے کرم واقعے میں جاں بحق افراد کے لواحقین کی دادرسی کیلئے پہنچتے۔ 40 سے زائد افراد کا اندوہناک قتل غیرمعمولی واقعہ ہے مگر وزیر اعلیٰ کیلئے سیاسی مصروفیات زیادہ اہم ہیں۔ کرم میں انسانیت سوز واقعے کے بعد پی ٹی آئی کو احتجاج ملتوی یا مؤخر کر دینا چاہیے تھا۔ اس فیصلے سے پی ٹی آئی کا قد بڑھ جاتا اور عوام کی حمایت اسے حاصل ہوتی ‘مگر یہ اہم موقع گنوا دیا گیا۔ اب اگر پی ٹی آئی احتجاج کو ترک کر بھی دیتی ہے تو لوگ اسے بشریٰ بی بی کے بیان کی پیدا کردہ صورتحال اور پی ٹی آئی کی مجبوری سمجھیں گے۔
سکیورٹی اور دفاعی معاملات کے سلسلے میں چین اور پاکستان کے درمیان حالیہ دنوں اعلیٰ سطحی رابطے ہوئے ہیں اسی سلسلے میں جی ایچ کیو کا اعلیٰ افسران کا وفد چین کا دورہ کر چکا ہے جبکہ پیپلزلبریشن آرمی کا اعلیٰ وفد عنقریب پاکستان آ رہا ہے جو پاکستانی عسکری قیادت سے مستقبل کے سکیورٹی اور دفاعی امور پر مشاورت اور فیصلوں کا مجاز ہے۔ اس دورے کے لیے بیجنگ اور پنڈی کی سطح پر مدت سے تیاری ہو رہی ہے کیونکہ اس میں دونوں ممالک کی سلامتی اور دفاعی تعاون کے کئی اہم فیصلے متوقع ہیں۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ چینی صدر اور چینی وزیراعظم کے بعد چینی عسکری قیادت کے دورے کے قریب آتے ہی ایک جماعت پھر سڑکوں پر نکلنے کیلئے پر تول رہی ہے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved