تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     24-11-2024

معیشت: حکومت کیا کرے؟ …(12)

معیشت کے حوالے سے ہم نے پوری بحث کر لی کہ حالات اس دگرگوں نہج تک کیسے پہنچے۔ معاشی بد حالی کے ذمے داران کا محاسبہ کر لیا جائے تو ہمیں بحیثیت قوم آگے بڑھنے اور ماضی والی غلطیاں دہرانے سے بچنے کا راستہ مل سکتا ہے۔ محاسبہ نہ بھی ہو سکے تو عوام‘ ریاست اور تاریخ کبھی ان کو معاف نہیں کریں گے جنہوں نے ملک کو پائیدار ترقی کی راہ پرگامزن کرنے کے بجائے ترقی ٔمعکوس کی ڈگر پر ڈال دیا۔ اب سوچنا یہ ہے کہ جہاںہم پہنچ چکے ہیں یا جہاں ہمارے حکمرانوں نے ہمیں پہنچا دیا ہے‘ وہاں سے آگے کے سفر کو بہتراور پائیدار کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ اس سلسلے میں پہلاکام اس ڈرین کو روکنا ہے جس کے ذریعے قومی سرمایہ ضائع ہو رہا ہے۔ پیپا تو آپ نے دیکھا ہی ہو گا۔ نہیں دیکھا تو میں بتا دیتا ہوں کہ کلو کلو کے پیکٹس میں فروخت ہونے سے گھی اور خوردنی تیل پہلے ٹن کے ڈبوں میں آتے اور ملتے تھے۔ ان میں چھوٹے ٹن پیک کو تو لوگ ڈبہ ہی کہتے تھے‘ لیکن بڑے ٹن پیک‘ جو چوکور ہوتا تھا اور غالباً 16کلو گنجائش کا ہوتا تھا‘ اسے پیپا کہا جاتا تھا۔ ذرا سوچیے کہ اگر کسی پیپے یا کین کے پیندے میں سوراخ ہو تو اس میں جتنا بھی میٹریل ڈالتے جائیں‘ بہہ جائے گا۔ اسی طرح قومی وسائل کے بے مقصد اور بے دریغ استعمال کو روکنا قومی معیشت کوسدھارنے کے سلسلے کا پہلا قدم ہونا چاہیے۔ اپنے ساتھ ملائے رکھنے کے لیے عوامی نمائندوں کو نوازنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے‘ اور بلدیاتی اداروں کو بحال کر کے گلی محلے کی سطح کے مسائل اور ترقیاتی کام ان کے ذریعے کرائے جانے چاہئیں۔ جو بھی ترقیاتی منصوبہ بنے‘ خوب چھان پھٹک کر اور تمام جہتوں سے جائزہ لینے کے بعد مناسب ثابت ہونے کی صورت میں ہی کسی منصوبے پر عمل درآمد کی اجازت دی جانی چاہیے۔ منصوبے کی تکمیل کے بعد کی انسپکشن بھی سخت کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ مثالیں کئی دی جا سکتی ہیں لیکن یہ تو آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ کوئی سڑک اپنی تعمیر کے بعد دوسرے ہی سال ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی۔ آئندہ اگر سڑک مقررہ میعاد سے پہلے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو تو منظور کرنے والے‘ بنانے والے اور تکمیل کی انسپیکشن کرنے والے‘ سبھی کو انصاف کے کٹہرے میں لایاجائے۔ یہ بات میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ یہ معیار مقرر کر لیا گیا اور چند مجرموں کو قرار واقعی سزا مل گئی تو بگڑا ہوا آوا خود بخود ٹھیک ہونا شروع ہو جائے گا۔ کہنے کامطلب یہ ہے کہ کڑی نگرانی‘ احتساب اور سزا کے حوالے سے موجود قوانین پر ان کی روح کے مطابق عمل درآمد ہی افراد‘ اداروں‘ معاشرے اور ملک کو درست نہج پر رکھ سکتے ہیں۔
اب معاملہ یہ ہے کہ جب سے کرپشن کرپشن کا شور اٹھا ہے‘ ملک میں بدعنوانی کے خاتمے اور وسائل و اختیارات کا بے دریغ استعمال کرنے والوں کے احتساب کے لیے کئی اقدامات کیے گئے‘ قوانین بنائے گئے‘ ادارے وضع کیے گئے‘ لیکن حیرت کی بات ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصدا ق کرپشن کا جن شرمندہ ہو کر بوتل میں بندہونے کے بجائے کھلم کھلا پھرنے لگا‘ بلکہ میرے خیال میں تو دندنانے لگا ہے۔ بد عنوانی کا بڑا تعلق ضمیر‘ خمیر اور خوفِ خدا سے ہوتا ہے۔ کرپشن کا مطلب یہ ہے کہ آپ بہت سے لوگوں کو ساتھ ملا کر وہ کر رہے ہیں‘ قانون‘ اخلاقیات‘ روایات اور مذہب جن کی اجازت نہیں دیتا۔ کرپشن صرف وہی نہیں کرتا جو براہِ راست بدعنوانی کا مرتب ہوتا ہے بلکہ وہ بھی اتنا ہی کرپٹ ہے جو کرپشن ہوتے دیکھنے کے بعد اس کو روکنے کے بجائے اس میں سے حصہ وصول کرنے کی کوششوں میں لگ جائے۔ کرپشن کا خاتمہ اُسی وقت ممکن ہے جب ضمیر یہ آواز دے کہ خود بھی حرام نہیں کھانا اور بچوں کو بھی نہیں کھلانا۔ بہرحال میرا اندازہ یہ ہے کہ اگر ہر محکمے‘ ہر ادارے اور ہر سطح کے معاملات کے لیے موجود قوانین پر پوری طرح عمل درآمد سے کرپشن کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔ مجھے یہ بات بڑی عجیب محسوس ہوتی ہے کہ سکولوں میں اور کالجوں میں پڑھاتے اساتذہ اور لیکچررز کی تو باقاعدہ چیکنگ کی جاتی ہے اور بچوں کے سامنے ان کے اساتذہ کا امتحان لینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا لیکن باقی اداروں میں نیچے سے لے کر اوپر تک کوئی خاص انسپیکشن نہیں ہوتی‘ چیک اینڈ بیلنس کا کوئی واضح اور مؤثر نظام بر سر عمل نظر نہیں آتا۔ ایسے میں اختیارات کا ناجائز استعمال نہ ہو تو پھر کیا ہو؟ ریسورسز کے پیپے میں سے جو بیش قدر وسائل ضائع ہو رہے ہیں‘ کرپشن ان میں سر فہرست ہے۔
کیا یہ بات تعجب خیز نہیں ہے کہ کڑی محنت سے تیار کی گئی پروڈکٹس برآمد کی جاتی ہیں تو غیر ملکی زرِ مبادلہ ہاتھ آتا ہے یا پھر عالمی اقتصادی اداروں کی منتیں کر کے جو قرضے حاصل کیے جاتے ان سے زرِ مبادلہ کے ذخائر کی پوزیشن کچھ بہتر ہوتی ہے لیکن پھر یہی سرمایہ ہم پانی کی طرح بہانا شروع کر دیتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ یہ ہاتھ سے نکل گئے تو مزید کہاں سے آئیں گے۔ حکمران ایلیٹ کے اللوں تللوں سے کون واقف اور آگاہ نہیں۔ ہر حکومت عوام سے تو ہر بار قربانی مانگتی ہے لیکن حکمرانوں کی اپنی حالت یہ ہے کہ سادگی تک اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حکمران اگر خود تبدیل نہیں ہوتے تو کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ عوام بھی تبدیل ہوں گے؟ اگر تبدیلی لانی ہے‘ اگر واقعی ملک کو معاشی پستی سے نکال کر ترقی یافتہ ہونے کے عروج تک پہنچانا مقصود ہے تو ضروری ہے کہ اس کا آغاز اوپر سے یعنی حکومت اور حکمرانوں کی سطح پر کیا جائے۔ اوپر تبدیلی آئے گی تو نیچے بھی تبدیلی کے دھارے خود بخود بہنا شروع ہو جائیں گے۔
درج بالا تین کام کرنے کے بعد اگلا مرحلہ معاشی ترقی کے اقدامات شروع کرنے کا ہے۔ میری نظر میں تین شعبے ایسے ہیں جو ایک سال میں ضروری تبدیلی کے آغاز کا سبب بن سکتے ہیں۔ پہلا ہے زراعت۔ اس شعبے پر فوری حکومتی توجہ فوری نتائج کی حامل ہو سکتی ہے۔ یعنی آج اگر اچھی پلاننگ کے ساتھ گندم کی فصل کی مناسب رقبے پر کاشت یقینی بنا لی جائے تو اس کا نتیجہ اگلے سال اپریل‘ مئی میں گندم کی اچھی فصل کی صورت میں نکلے گا۔ فصل اچھی ہو گی اور ہماری خوراک کی ضروریات پوری ہو گئیں تو زرِ مبادلہ کی وہ رقم بچانے میں مدد ملے گی جو گندم کی پیداوار کم ہونے کی صورت میں یہ کمی پوری کرنے کے لیے اس جنس کی درآمد پر خرچ ہونا ہے۔ ایک خبر یہ ہے کہ حکومت گندم کی کاشت کا مقرر کیا گیا ہدف پورا کرنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ لیکن پرنٹ میڈیا کے ذریعے سامنے آنے والی دوسری رپورٹیں حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ ایک خبر کے مطابق وزارتِ غذائی تحفظ کے حکام نے کہا ہے کہ مارکیٹ میں گندم کی قیمت کم ہونے کی وجہ سے اگلے ربیع سیزن میں گندم کی پیداوار میں کمی کا خدشہ ہے۔ رواں برس حکومت کا کسان سے گندم نہ خریدنے اور گندم کی قیمت اوپن مارکیٹ پر چھوڑنے کا فیصلہ گندم کی کاشت میں کمی کا باعث بن سکتا ہے۔ بہتر ہو گا حکومت کاشت کاروں کو گندم خریدنے کی ضمانت کے ساتھ یوریا اور ڈی اے پی کھاد رعایتی نرخوں پر فراہم کرے تاکہ کاشتکار خسارے کے خوف سے بے نیاز ہو کر گندم کاشت کریں۔ابھی نومبر کا چوتھا ہفتہ شروع ہوا ہے۔ اگرچہ بہت سا وقت ضائع ہو چکا‘ لیکن اب بھی حکومت اگر توجہ دے تو حالات اور معاملات کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved