لوگوں کے ذہنوں میں ایک جیسے سوال بھی ہیں اور ایک جیسے جواب بھی کہ احتجاج‘ دھرنے اور شہر بندیوں کاسلسلہ ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔ معتوب پارٹی کے بڑے قیدی کی طرف سے ادھر اعلان ہوا کہ گھروں سے نکلو‘ اور سب کو نکال کر اسلام آباد کی طرف قدم بڑھائو‘ اُدھر سب راستے بند۔ اب تو شہرِ اقتدار‘ جسے آپ اب شہرِ احتجاج کہیں تو مناسب ہوگا کہ اقتدار کی پہاڑی کے دامن میں نہ مرکزیت دکھائی دیتی ہے اور نہ اس کی موجودگی‘ وہ کب سے کہیں اور جا بسی ہے۔ مگر وہ جہاں بھی ہو‘ جس شہر میں بھی ہو‘ انتظامیہ‘ اعلیٰ عہدیداران‘ کابینہ اور وزیراعظم سب طے شدہ پروگرام کے مطابق آئینی یا آہنی حدود میں ہیں۔ پہلی بات یہ کہ احتجاج کیوں ہوتے ہیں‘ اور ایک ہی جماعت پچھلے ایک سال سے سڑکوں پر کیوں نظر آتی ہے؟ اس کا جواب سب جانتے ہیں‘ لیکن سیاست کرنے اور اس پر بات کرنے پر ایسی پابندی ہونی چاہیے جو لڑائی جھگڑے کے خوف کے پیش نظر ہمارے دور کے کیفوں اور ریستورانوں کے اندر مالکان دیوار پر اشتہاری عبارت کی صورت لکھ دیتے تھے کہ ''سیاسی گفتگو کرنا منع ہے‘‘۔ ان کا ڈر بے جا نہیں تھا‘ کیونکہ سیاسی لڑائی جھگڑوں میں برتن انہی کے ٹوٹتے تھے‘ میزیں اور کرسیاں لکڑی کے ڈھیر میں تبدیل ہو جاتیں اور زخمیوں میں وہ خود اور ان کے ملازمین بھی شامل ہوتے تھے۔ اس کے باوجود سیاسی گفتگو جاری رہتی اور دنگا فساد بھی ہوتا۔ ہماری سیاست کا مزاج ہی کچھ ایسا رہا ہے۔ یہ آج کی بات نہیں کہ آپ ٹیلی ویژن پر کبھی کبھار سیاسی نمائندوں کو گالی گلوچ اور ایک دوسرے کو مکے مارتے دیکھتے ہیں۔ تلخ کلامی اور بدزبانی تو ہر روز ہوتی ہے۔ ہم تو پرانے وقتوں سے دیکھ رہے ہیں جب لوگوں کے پاس ٹیلی ویژن نہیں ہوا کرتے تھے اور ایک اکلوتا چینل بیکار سرکاری خبریں اور اچھے ڈرامے دکھایا کرتا تھا۔ عدم برداشت‘ باہمی احترام اور رواداری تب بھی کمزورتھی‘ مگر آج کل تو ہر شخص لڑنے مارنے پر تلا ہوا ہے۔
ہمارے ملک میں احتجاجی سیاست کی بنیاد سیاسی انجینئرنگ پر ہے۔ دوسرے معنوں میں ناجائز حکومتیں عوامی منشا اور تائید سے خالی ہوں تو وہ ریاستی طاقت کا استعمال اپنی سیاسی بقا کے لیے جب کرتی ہیں تو ان کے ذرا کمزور ہوتے ہی ردعمل مظاہروں‘ مارچوں اور دھرنوں کی صورت شروع ہو جاتا ہے۔ ماضی کی کسی بھی سیاسی اور دوسری قسم کی حکومت کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں‘ ریاستی طاقت پر انحصار آخرکار انہیں لے ڈوبا۔ جس نے جتنا زیادہ اسے استعمال کیا‘ اتنی جلدی اُسے اپنی سیاسی بساط لپیٹنا پڑی۔ یہ صرف ہماری تاریخ نہیں بلکہ کئی دیگر ممالک کی بھی تاریخ ہے کہ جہاں عوامی رائے اور عوامی مینڈیٹ کو رد کرکے کوئی حکومت مسلط کی گئی‘ وہ صرف اس وقت تک اقتدار میں رہ سکی جب تک ریاستی طاقت عوام اور حزبِ اختلاف کو دبانے میں کامیاب تھی۔ ایسی سب قوموں کے سامنے‘ اور آج ہمارے لیے بھی ایک بنیادی سوال ہے اور جب تک ہم اس کا کوئی مؤثر اور مستقل حل نہیں نکالیں گے ایک طرف احتجاج اور دوسری طرف جبر کا کھیل جاری رہے گا۔
سوال یہ ہے کہ حکومت‘ نمائندہ یا ریپبلکن‘ عوام کے ووٹوں کی بنیاد پر بنے گی یا اس کے برعکس کہیں اوپر سے عوام پر نازل ہو گی؟ ہمارے جیسے ملکوں میں جہاں حقوق‘ آزادی اور سماجی اور سیاسی تحریکوں کی گہری روایت ہے‘ جائزیت اور نمائندگی میں کمزور حکومتوں کے خلاف آوازیں اور تحریکیں بار بار اٹھتی رہی ہیں۔ یہی کچھ آج ہمارے وطن عزیز میں ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ سوال یہ بھی ہے کہ معتوب پارٹی اور اس کے بانی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر سیاسی مسائل کا حل سیاسی طریقے سے تلاش کرنے کے بجائے احتجاجی سیاست کا راستہ کیوں اختیار کر رہے ہیں؟ جب میز نہ ہو‘بیشک گول نہ سہی‘ نہ باہمی اعتماد ہو بلکہ برسوں سے ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلا جائے تو ایسی فضا میں مذاکرات نہیں ہو سکتے‘ اور اگر ہوں بھی تو نتیجہ خیز نہیں ہوں گے۔ اس سے بھی بڑا مسئلہ گزشتہ انتخابات کی صحت‘ مشکوک نتائج اور ایسی اتحادی حکومت ہے جو خود کبھی بن نہیں سکتی تھی‘ بلکہ عمومی تاثر ہے کہ بزور طاقت جوڑ توڑ کرکے اس کی اکثریت کا بھرم رکھا گیا ہے۔ اس سیاسی ترکیبِ خاص میں ایک کی نہیں‘ بہت سوں کی مصلحت پسندی‘ ذاتی مفادات کا تحفظ اور ایک مشترک خطرے کی پیش بندی سے زیادہ کچھ اور نظر نہیں آتا۔
معتوب پارٹی سب کچھ ہونے کے باوجود مرکز اور پنجاب میں ایک بڑی پارٹی ہے۔ پارلیمان ہو یا الیکشن کمیشن ‘ وہ عدالت عظمیٰ کا مخصوص نشستوں کا فیصلہ ماننے سے انکار کر رہے ہیں۔ سیاسی نظام کا مؤثر طریقے سے حصہ رہنے کا بنیادی راستہ تو شفاف انتخابات ہیں۔ عددی حیثیت کے لحاظ سے آواز اور نمائندگی کے راستے بند کر دیے جائیں تو ایک جماعت‘ جسے اپنے اعداد وشمار کے مطابق عوامی تائید حاصل ہے‘ کے پاس سیاسی طور پر اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لیے احتجاج اور دھرنوں کے علاوہ کیا راستہرہ جاتا ہے؟ کسی سابق وزیراعظم‘ بلکہ اگر ملکی تاریخ کے تمام سابق وزرائے اعظم کو شامل کر لیں‘ اتنے مقدمے کسی پر نہیں بنے جتنے معتوب سیاسی جماعت کے بانی پر بنے ہیں۔ یہ بھی شاید کبھی نہیں ہوا کہ اعلیٰ عدالتوں نے مقدمات میں ضمانت پر رہائی کا حکم دیا اورعدالت کا آرڈر عدالتی حدود سے نکلنے سے پہلے ہی اُسے کسی اور مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا۔ اعداد وشمار کسی کو معلوم نہیں مگر عوامی تاثر یہ ہے کہ ماضی کی کسی حکومت میں اتنی تعداد میں خواتین اور سیاسی قیدی اتنا عرصہ جیلوں میں بند نہیں رہے۔ حکومت کے ہرکارے جو بھی کہیں‘ ان پر کوئی اعتماد نہیں رہا۔ہماری نیم جمہوری سیاسی انجینئرنگ کی پیدوار حکومتیں صرف اور صرف بڑے حکمرانوں کی سرپرستی اور طاقت کے استعمال سے ہی کچھ عرصہ گزارتی ہیں۔ ان کا سارا وقت روزانہ برپا ہونے والے ہنگاموں‘ احتجاجوں اور دھرنوں سے نمٹنے میں صرف ہوتا ہے۔ یہی کچھ تو ہو رہا ہے۔ دیکھیں یہ تماشا کب تک جاری رہے گا۔ اس وقت تو معتوب پارٹی فیصلہ کرتی نظر آتی ہے کہ شہباز حکومت کو پرواز نہیں کرنے دینی اور یہ بھی کوئی پتا نہیں کہ کب سندھ کا شہباز‘ جس کے سہارے اتحادی حکومت قائم ہے‘ کسی اور کھیل کا حصہ بننے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔
احتجاج سے نمٹنے کے لیے شہر بند‘ موٹروے بند‘ سڑکیں بند‘ بسیں اور اڈے بند‘ انٹرنیٹ اور فون بند کرنے کی حکمت عملی حکومتی بوکھلاہٹ کو ظاہر کرتی ہے۔ اُس کے پیچھے کئی خطرات منڈلاتے نظر آتے ہیں۔ ان کا خدشہ ہے کہ بالا ہی بالا معتوب پارٹی کی کوئی بات نہ ہو جائے‘ اور اگر نہ بھی ہو‘ کہیں شہرِ احتجاج میں دھرنے کا دورانیہ اور تعداد اتنی نہ بڑھ جائے کہ طاقت کے استعمال کا ہتھیار بھی اپنی روایتی افادیت کھو بیٹھے۔ اپنے وقت کے کیفوں کا خیال آتا ہے۔ ماحول گرم ہو تو سیاسی گفتگو کرنا منع ہے‘ کا اشتہار کسی کو نظر نہیں آتا۔ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ آپ احتجاج کرنے دیتے۔ کوئی جگہ مختص کردیتے‘ وقت مقرر کردیتے‘ اعتماد سازی پر زور دیتے اور سیاسی طور پر کوئی راستہ نکالتے۔ لیکن مقصد ہی اگر کسی پارٹی کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہو تو اس کے لیے سڑکیں ہی رہ جاتی ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved