آج اتوار کا دن ہے‘ اس وقت شام کے ساڑھے پانچ بجے ہیں۔ میں وکالت نامہ لکھ رہا ہوں جبکہ اسلام آباد پولیس مظاہرین پر آنسو گیس کے گولے مار رہی ہے۔ فارم 47 سرکار نے عمران خان کی فائنل کال سے خوفزدہ ہو کر تین اعلانات کیے تھے۔
خوفزدہ سرکار کا پہلا اعلان: یہ اعلان تھا کہ ہم کسی کو بھی اسلام آباد بند کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ سُچل سرکار کا یہ وعدہ سچا ثابت ہوا۔ حکومت نے مظاہرین کے آنے سے پہلے پہلے شہرِ اقتدار کو جانے والے پورے ملک کے راستے بند کر دیے۔ سرکاری اعلان کے مطابق صرف راولپنڈی ضلع کے 127 مقامات پر کنٹینر لگائے گئے‘ کھڈے کھودے گئے اور راستے بند کیے گئے۔ 22 لاکھ کی آبادی کے شہر اسلام آباد کو 24 مقامات پر لاک ڈائون کر کے سرکار اینڈ کمپنی قلعہ بند ہو گئے۔ لاہور کے بتی چوک میں دلہن کو لینے کیلئے آنے والی گاڑی سرکاری لاک ڈائون میں پھنس گئی‘ دلہن کو موٹر سائیکل پر شاہدرہ جانا پڑا۔ رحیم یار خان کے انٹرچینج پر ہفتے کے روز جنوبی کنٹینرستان بنایا گیا‘ جس کی وجہ سے ایک معصوم مریضہ بچی کی ایمبولینس کو ہسپتال نہ پہنچنے دیا گیا۔ بچی کھڑی ایمبولینس میں تڑپتے تڑپتے جاں بحق ہو گئی۔ دریائے جہلم کا پُل دونوں طرف سے بند ہونے کی وجہ سے ایک مریض سڑک پر مر گیا‘ جس کی میت چارپائی پر رکھ کر مرحوم کے وارثوں نے گھر تک پیدل سفر طے کیا۔ دریائے چناب کے پُل پر دونوں طرف کنٹینر کھڑے ہیں‘ جہاں ایک بارات روکی گئی‘ مجبور دیہاتیوں نے دلہا کو کاندھے پر اُٹھایا اور دریا پار کر گئے۔ اسلام آباد میں ہر قسم کی ٹیکنالوجی اور رابطہ کے ذرائع بند ہیں مگر تشدد کرنے والے ذرائع کھلے ڈُلے ہیں۔ جڑواں شہروں کے سنگم فیض آباد پر گرفتاریوں کی خبریں اور مظاہرین سے پولیس کی جھڑپیں سوشل میڈیا پر دکھائی جا رہی ہیں۔ یہ ایک شہرِ اسلام آبادکے محاصرے کی بات نہیں بلکہ پورے ملک میں تازہ سبزی‘ فروٹ اور دودھ لے جانے والی گاڑیاں آج‘ دوسرے دن بھی سڑکوں پر کھڑی ہیں۔ ایسے میں موٹر وے پولیس سے اعلان کرایا گیا کہ پاکستان کی بڑی موٹر ویز اور ہائی ویز بوجہ مرمت پانچ دن کیلئے بند کر دی گئی ہیں۔ قیدی نمبر 804 سے ڈرے ہوئے نظام نے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا لاک ڈائون خود کر دکھایا۔
خوفزدہ سرکار کا دوسرا اعلان: ایک سے زیادہ وزیروں نے دوسرا اعلان یہ کیا کہ اسلام آباد میں زیادہ سے زیادہ چار شر پسند داخل ہوں گے۔ ان دنوں شرپسند سے مراد تحریک انصاف سے وابستگی ہے۔ پی ٹی آئی کے بانی نے مجھے سینٹرل سینئر وائس پریذیڈنٹ بنایا تھا‘ اس لیے ایک شرپسند تو میں ہوں‘ جو پورے کا پورا اسلام آباد میں داخل ہوں۔ تھوڑی دیر پہلے بتایا گیا صرف اسلام آباد انڈر پاس پر پی ٹی آئی کے درجنوں ورکرز گرفتار کر لیے گئے۔ اس دفعہ حیران کن بات یہ ہے کہ میرٹ کے بغیر جونیئر ہونے کے باوجود لذیذ پوسٹوں ر تعینات سرکاری ملازم اپنے وطن کے لوگوں کے خلاف نعرے وڈیو کیمروں پر لگاتے ہوئے نظر آئے۔ ساری بڑھکوں کے باوجود پنڈی اسلام آباد میں اس وقت بھی درجن سے زیادہ مقامات پر بھرپور احتجاج جاری ہے۔
خوفزدہ سرکار کا تیسرا اعلان: یہ اعلان تھا حکومت احتجاج سے ڈرتی ورتی نہیں ہے۔ ایسا ہی اعلان مرحوم ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے ریڈ زون کے ڈی چوک میں دونوں ہاتھوں کے مُکے بلندکر کے کیا تھا۔ مگر اِس تکبر کا حشر کیا ہوا‘ یہ آج کی عبرت آموز تاریخ ہے جسے سب جانتے ہیں۔
اب آئیے! تکبر کے کوہِ ہمالیہ پر چڑھے ہوئے الیکشن ہارنے والے لشکر کے خوف کی اگلی قسط کی طرف‘ جس کے مطابق اسی ہفتے کوئی اور نہیں بلکہ خالی ہاتھ شہریوں کے احتجاج روکنے کے کارِ بیکار میں مصروف سرکار خود اسلام آباد ہائیکورٹ گئی‘ جہاں سے چیف جسٹس صاحب پر مشتمل سنگل بنچ نے ایک دن کی سمری سماعت اور وفاق کے پبلک سرونٹس کو سن کر پانچ صفحے کا آرڈر جاری کیا۔ اہم بات یہ ہے کہ اس آرڈر کے حصول ووصول کیلئے وزیر داخلہ‘ سیکرٹری داخلہ برائے وفاقِ پاکستان‘ چیف کمشنر ICT‘ اسلام آباد کا انسپکٹر جنرل پولیس عدالت میں حاضر ہوئے۔ عدالتی آرڈر کے صفحہ نمبر1 کے پہلے پیراگراف میں عدالت نے لکھا: ان سب نے عدالت کو اطلاع دی کہ ایک پولیٹکل پارٹی کے ممبرز اسلام آباد کیپٹل ٹریٹری کی طرف بڑھ رہے ہیں‘ جہاں وہ احتجاج کرنا اور دھرنا دینا چاہتے ہیں۔ ساتھ پبلک سرونٹس کے اس جتھے نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے روبرو مشترکہ بیان ان لفظوں میں قلمبند کرایا۔
The respondents No.1 to 4 are making joint efforts to ensure law and order situation remains normal and no disruption is caused in the life of an ordinary person.
یہ بیانات کسی پرائیوٹ گواہ نے نہیں لکھوائے بلکہ ریاستِ پاکستان سے مراعات اور ٹیکس پیئرز کے پیسوں سے تنخواہ وصول کرنے والے سرکاری اہلکاروں نے ریکارڈ کرائے۔ عدالت کے روبرو ان بیانات کے تین نکات ریاستی اہلکاروں کی کریڈیبلٹی سمجھنے کیلئے کافی و شافی ہوں گے۔ ایک یہ کہ عام آدمی کی زندگی نارمل روٹین کے مطابق چلائے رکھنے کیلئے یہ سرکاری ملازم مشترکہ کوششیں کر رہے ہیں۔ اُس ریاست پر کون شہری اعتبار کرے گا جس کے اہلکاروں نے یہ بیان دینے کے چند گھنٹے بعد اسلام آباد کے 200 سے زیادہ گھروں میں بغیر سرچ وارنٹ چھاپے مارے۔ پھر فاتحانہ بیان جاری کیا کہ سرچ آپریشن کے ذریعے مختلف سیکٹروں سے 200 سے زیادہ مرد وخواتین شرپسند پکڑے گئے ہیں۔ گزرے جمعہ کے روز ٹرانسپورٹ اڈے‘ ہوٹل اور ہوسٹل بند کرا کے طالبعلموں‘ پرائیویٹ کمپنیوں میں کام کرنے والی خواتین اور پرائیویٹ ہسپتالوں کے ڈاکٹروں کو سڑکوں پر لا کھڑا کر دیا گیا۔ پھر یہ ہوا کہ جس مارکیٹ میں جو کوئی نوجوان نظر آیا اُسے اُٹھا لیا گیا۔ المیہ یہ ہے گرفتار ہونے والوں میں زیادہ تر گھریلو ملازم تھے‘ جو سودا سلف لینے یا نائی کی دکان پر مارکیٹ میں پائے گئے۔ ہائیکورٹ نے فیصلے کے صفحہ نمبر 4 پہ واضح طور پر کہا: احتجاج پر Restrictions, Reasonable یعنی انتہائی مناسب شرائط یا پابندیاں عائد ہونی چاہئیں۔ ساتھ ہی حکم دیا حقِ احتجاج پر عائد شرطیں Proportional یعنی انتہائی متوازن بھی ہوں۔ ریاستی اداروں نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس آرڈر کو 'لائسنس ٹُو لاء بریکنگ‘ بنا لیا ہے۔ حالانکہ اس آرڈرکا بنیادی مقصد ریاست کو احترامِ آدمیت کی یاددہانی اور رول آف لاء پر عملدرآمد کرانا تھا۔ ملاحظہ ہو ہائیکورٹ آرڈر کا متعلقہ پیراگراف:
In Writ Petitioin No.2974/2024 vide order dated 05.10.2024, observed that fundamental rights of freedom of assembly and movement are provided to the citizens of Pakistan, however they are subject to proportional and reasonable restrictions. it is also provided in the Constitution that such restrictions are only justifiable through legitimate purposes which must be in the best interest of the larger public.
جلسے‘ جلوس اور حقِ اجتماع پر نامعقول اور بے رحمانہ پابندیوں کے اس موسم میں پروین شاکر یاد آئیں‘ جو اسی محاصرہ زدہ شہر کی آتشیں ہوا سے دور ایک لحد میں آسودۂ خاک ہیں۔ پروین نے کہا:
سلگ رہا ہے مرا شہر‘ جل رہی ہے ہوا
یہ کیسی آگ ہے جس میں پگھل رہی ہے ہوا
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved