ہم سب گھر والے دستر خوان پر بیٹھے تھے۔ کھانے کی خوشبو بیتاب کیے دیتی تھی۔ پسند کی چیزیں بنائی گئی تھیں‘ جن سے بھاپ اُٹھ کر پورے جسم میں اشتہا کی لہریں دوڑاتی تھی۔ لیکن کسی کی مجال نہیں تھی کہ ایک لقمہ بھی توڑ لے۔ بھائی جی یعنی والد صاحب کا انتظار تھا‘ جو فون پر بات کر رہے تھے اور بس ایک دو منٹ میں آیا چاہتے تھے۔ چند منٹ بعد وہ آئے اور بسم اللہ کہہ کر کھانے کا آغاز کیا۔ ان کے بعد امی نے‘ اور ان کے بعد ہم بچوں نے اپنی پلیٹوں میں کھانا نکالا۔ بچوں میں بھی بڑے سے چھوٹے کی ترتیب طے تھی‘ سو بھائی جان نے پہلے‘ باجی نے ان کے بعد اور پھر ایک ایک کرکے باقی بچوں نے کھانا شروع کیا۔
یہ کوئی انوکھی اور نرالی روایت نہیں تھی۔ ان سب وضع دار‘ تہذیب یافتہ گھرانوں میں یہی ہوا کرتا تھا جن میں مجلسی ادب آداب کی تربیت شعور کی عمر سے شروع ہو جاتی تھی۔ ان روایات اور آداب کا نہ کسی عقیدے اور مذہب سے براہ راست تعلق تھا‘ نہ معاشی تنگدستی اور خوشحالی سے‘ نہ چھوٹے بڑے گھرانے سے۔ انہی میں یہ ادب اور روایت بھی شامل تھی کہ مہمان کی موجودگی میں سب سے پہلے کھانے کی دعوت اسے دی جائے گی اور میزبان بعد میں شروع کریں گے۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ کئی ملازمین خدمت کیلئے دستر خوان پر موجود ہوں گے۔ نوابوں اور جاگیرداروں کے ہاں یقینا ایسا ہو گا لیکن متوسط اور ان سے بالا گھرانوں میں بھی یہ رواج نہیں تھا۔ ہر ایک فردکے ذمے دستر خوان کا کوئی کام تھا۔ پانی کے جگ اور گلاس رکھنا بھائی مسعود کی ذمہ داری تھی‘ پلیٹیں لگانا میری اور چھوٹی بہن کی۔ ڈونگوں اور قابوں میں کھانا نکالنا امی کا کام تھا اور انہیں دستر خوان پر قرینے سے سجانا بڑی بہنوں کا۔ کھانے میں بھی اگرچہ سب کی پسند کا خیال رکھا جاتا لیکن مجھے یاد نہیں کہ کسی نے اس وجہ سے کوئی کھانا کھانے سے انکار کیا ہو کہ اسے وہ پسند نہیں۔ گوشت‘ دال‘ سبزی ہر چیز کھانی ہوتی تھی۔ کسی ایک فرد کے لیے الگ کھانا بنانے یا بازار سے منگوانے کا تصور ہی نہ تھا۔ ایک دوسرے کی پسند سب کو پتا ہوتی تھی اور امی بھی اس سے واقف تھیں‘ تاہم علی الاعلان کسی چیز کو ناپسند کرنا ممکن نہیں تھا۔ کھانے کے بعد برتن سمیٹنے کی ذمہ داریاں بھی طے تھیں‘ آپ دستر خوان کو اسی حالت میں چھوڑ کر اٹھ نہیں سکتے تھے۔ والد صاحب کا حکم تھا کہ دن بھر میں ایک دفعہ سب گھر والے کھانے پر ضرور اکٹھے ہوں۔ ناشتے اور دوپہر کے کھانے میں یہ ممکن نہیں ہوتا تھا‘ سو رات کے کھانے میں لازم تھا کہ سب موجودہوں‘ ماسوائے یہ کہ کوئی بیمار ہو۔ کھانے کے بعد ایک طویل یا مختصر محفل بھی اسی روایت سے جڑی تھی۔ یہ روایت بھی مذہب سے جڑی ہوئی نہیں بلکہ ایک معاشرتی روایت تھی جو نسل در نسل خاندانوں میں چلی آتی تھی۔ اس کا بڑا فائدہ یہ تھا کہ گھر کے ہر فرد کے مسائل اور تعلیمی سرگرمیاں وہیں سب کے علم میں آ جاتی تھیں اور گھر کے سربراہ سے بہترین ملاقات کا وقت بھی وہی تھا۔ اس وقت شاعری اور ادب پر بات ہوتی تھی‘ کتابوں اور مصنفین کا ذکر ہوتا تھا اور ادبی نکات اور لطائف سنائے جاتے تھے۔ کسی معاملے پر بڑوں سے اختلاف بھی ممکن تھا اور اس کی ممانعت ہرگز نہ تھی‘ لیکن یہ ادب آداب کے دائرے میں ہی رہتا تھا۔ منہ در منہ بحث اور خطائے بزرگاں کو ان کے سامنے خطا کہنا‘ یہ ہرگز ممکن نہ تھا۔ بات دائرے سے نکلنے لگتی تو چھوٹا فرد سکوت اختیار کر لیتا۔ حیرت ہے کہ باقی روایات تو ایک ایک کرکے فرسودہ اور قابلِ ترک قرار پا رہی ہیں لیکن کیا یہ رواج اور روایت آج بھی عسکری‘ سرکاری اور نجی اداروں میں اسی طرح موجود نہیں ہے؟ کیا یہ آج بھی ڈسپلن اور نظم وضبط قائم رکھنے کے طور پر کسی نے ترک کیا ہے؟ شاید یہ لوگ ان اداروں میں اس کی پابندی اس لیے بھی کرتے ہیں کہ نہیں کریں گے تو بھگتیں گے۔
تین عشروں میں عام طور پر‘ اور اس آخری عشرے میں خاص طور پر ان ادب آداب اور روایات کا جس طرح کھلواڑ ہوا ہے‘ ان پر ہم جیسے لوگوں کا دل خون ہوتا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ وضع دار اور روایتی گھرانوں میں بھی تمام افراد ایک ساتھ کھانے پر اب بہت کم بیٹھتے ہیں۔ کوئی ایک وقت بھی ایسا نہیں جہاں سب موجود ہوں۔ کھانے پر کسی بڑے چھوٹے‘ مہمان کی تخصیص ختم ہوئی۔ بیٹھے اور کھانا نکال کر پیٹ بھرنا شروع کر دیا۔ کسی کو کوئی کھانا پسند نہیں تو بلاجھجھک اس کا اعلان کر دیا۔اگرچہ ہر گھرانے میں ایسا نہیں لیکن متوسط گھرانے سے متمول کنبے تک‘ ملازمین کھانا بنانے سے لگانے اور سمیٹنے تک کا سارا کام کریں گے‘ بہت سے گھرانوں میں تو اب خاتونِ خانہ باورچی خانے میں جھانکتی بھی نہیں۔
میں چند دن پہلے ایک محفل میں بطور مہمان موجود تھا۔ دیکھا کہ سامنے میزبانوں اور سامعین میں پانی کی بوتلیں‘ ٹشو پیپر وغیرہ موجود ہیں۔ لیکن خاص مہمانوں یعنی سٹیج کو بالکل نظر انداز کیا گیاہے۔ کافی دیر گزرنے کے بعد کسی کے بار بار کہنے پر ازراہ عنایت انہیں بھی نواز دیا گیا۔ محفل چل رہی تھی کہ ملازمین چائے اور لوازمات لے کر نمودار ہوئے۔ دیکھا کہ میزبان خاتون نے سب سے پہلے اپنے سامنے رکھوائے۔ پھر اپنی خاص سہیلیوں کے سامنے‘ پھر دیگر واقف کاروں کے سامنے۔ سٹیج کے مہمان انہیں چسکیاں بھرتے دیکھ رہے تھے۔ بہت دیر کے بعد ناظمِ محفل نے توجہ دلائی تو میزبان نے ہاتھ کے ایک مبہم اشارے سے ٹھنڈی چائے سٹیج پر پہنچانے کا بھی حکم دیا۔ یہ سب اعلیٰ تعلیم یافتہ میزبان تھے اور ادب‘ آرٹ اور ثقافت کے دعویدار بھی۔ لیکن تعلیم نے ان کے ذہن کا کچھ بگاڑا نہیں تھا۔ ان کے ہر عمل سے ظاہر تھا کہ انہیں آدابِ محفل کا خیال ہے نہ حفظ مراتب کا۔ یہ دونوں باتیں ان کے نزدیک فرسودہ اور غیر ضروری تھیں۔ اگر نہیں بھی تھیں تب بھی ان کی کوئی اہمیت ان کے خیال میں تھی ہی نہیں۔ اور یہ میں نے صرف ایک مثال دی ہے‘ رو ز ایسی محفلوں میں یہ سب دیکھنے میں آتا ہے اور ذائقہ خراب ہوتا ہے۔
بات تمام رواجوں‘ تمام روایات اور تمام اقدار کی ہرگز نہیں۔ ہم خود گواہ ہیں کہ کئی رواج‘ کئی روایات غلط اور فرسودہ تھیں۔ ان کا ختم ہو جانا ہی ٹھیک ہوا۔ لیکن کاش یہ ختم ہوتیں تو شعوری جدوجہد اور غلط کو درست سے تبدیل کرنے کی کوشش سے ہوتیں۔ اس بنیاد پر نہ ختم ہوتیں کہ چونکہ مغرب میں ایسا نہیں ہوتا‘ متمدن ممالک ایسا نہیں کرتے اس لیے ساری مشرقی تہذیبی روایات اور اقدار سرے سے غلط ہیں۔ اور غلط رواجوں کے ساتھ جو مثبت روایات ختم ہوئیں اور ہو رہی ہیں‘ کیا انہیں ختم کرنے والوں کو اس کا ذرا بھی احساس ہے کہ ہم نے اپنی غلامانہ ذہنیت میں اپنی شناخت‘ اپنی تہذیب اور اپنی اعلیٰ اقدار کا خون کر دیا ہے۔ کیا انہیں اندازہ ہے کہ جو آداب یہ دفن کر رہے ہیں‘ وہ نسل درنسل ارتقا کے بعد ہم تک پہنچے تھے۔ انہیں یہ بھی ادراک نہیں کہ خود یورپ کے بیشتر ممالک اپنی روایات کے آج بھی امین ہیں۔ برطانوی تو جان دے دیں لیکن اپنی روایات سے دستبردار نہ ہوں۔ کاش یہ غلام انہی تہذیبوں سے کچھ سیکھ لیتے۔ شاعری اور ادب نہ سہی‘ آرٹ نہ سہی‘ مجلسی آداب تو ہر معاشرے میں ہوتے ہی ہیں۔ ان لوگوں کے آداب کون سے ہیں یا سرے سے ہیں ہی نہیں؟ یہ کہنے دیجیے کہ جتنا تعلیم یافتہ‘ خوشحال گھرانہ ہے‘ وہ مشرقی ادب آداب کے قتلِ عام میں اتنا ہی زیادہ شریک ہوتا ہے۔ اور یہ معاملہ پورے برصغیر کا ہے‘ صرف پاکستان کا نہیں۔ ہم دوسرے کے پتھروں کو قیمتی سمجھتے اور اپنے ہیروں کو ٹوکری میں پھینکتے ہیں۔
شاید ہم وہ آخری نسل ہیں جس نے یہ روایتیں دیکھیں اور ان کی پاسداری کی۔ شاید ہم وہ آخری نسل ہیں جو خاندانی اور معاشرتی اقدار پر یقین رکھتی ہے۔ شاید ہم وہ آخری نسل ہیں جو ان ادب آداب کو قتل ہوتے دیکھتی اور اندر سے ہر روز مرتی ہے۔ شاید ہم وہ آخری نسل ہیں جنہوں نے اپنے ہیروں کو دوسرے کے پتھروں پر فوقیت دی۔ وہ ہیرے جو زمین نے لاکھوں سال کے ارتقا کے بعد بنائے تھے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved