تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     26-11-2024

نیت اور ہمت

کالم لکھنے کی بات اور ہے‘ لیکن میں عام طور پر اپنے دوستوں سے مذہبی اور سیاسی بحث کرنے سے حتی الامکان بچتا ہوں کہ میں نے آج تک اس کا نتیجہ بدمزگی اور تلخی کے سوا کچھ نکلتے نہیں دیکھا۔ نہ کچھ حاصل‘ نہ کچھ وصول اور تعلق میں دو چار دن کی سردمہری۔ دو چار دن بھی اس لیے کہ میری دوستیاں پرانی ہیں اور ہم دوست اب ایک دوسرے کے بغیر رہ نہیں سکتے‘ اس لیے دو چار دن بعد پھر ایک دوسرے سے ملنے پہنچ جاتے ہیں۔ وگرنہ عدم برداشت کا جو عالم ہے معاملہ کسی حد تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ اس لحاظ سے میں ان خوش قسمت امیروں میں شمار ہوتا ہوں جن کے بارے میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ غریب وہ ہے جس کا کوئی دوست نہیں۔ یہ فقیر اس لحاظ سے رئیسِ اعظم کے درجے پر فائز ہے۔
ایک عرصہ پہلے میں نے اپنے پٹواری دوستوں سے سیاسی بحث کرنا بند کر دی تھی لیکن بعد میں جب یوتھیے دوستوں سے بحث کرنے کی حماقت کی تو اندازہ ہوا کہ کج بحثی اور عقیدت مل جائے تو اس کا توڑ کسی دلیل یا منطق کے بس میں نہیں‘ لہٰذا سیاسی بحث سے توبہ کرلی۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں کسی شخص کو سیاسی اور مذہبی بحث کے ذریعے دوسرے کو قائل کرتے یا خود قائل ہوتے نہیں دیکھا۔ قطع نظر کہ بحث کرنے والے کم پڑھے لکھے تھے یا انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ۔ بلکہ کم تعلیم یافتہ لوگوں کو نسبتاً بہتر پایا کہ انہیں شاید اپنے علم اور تعلیم کا زعم نہیں ہوتا۔ اس قحط الرجال میں چند دوست اب بھی ایسے ہیں جن سے کبھی کبھار ہلکی پھلکی سیاسی منہ ماری ہو جاتی ہے اور یہ وہ دوست ہیں کہ جن سے بندہ دست و گریبان بھی ہو جائے تو اگلے دو تین منٹوں میں ایسے بیٹھے ہوں گے جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔ یہ وہ دوست ہیں جو اللہ کی نعمت ہیں اور مالک نے اس فقیر کو عطا کر رکھے ہیں۔
چار دن پہلے لندن پہنچا تو ایئر پورٹ سے سامان اٹھا کر سیدھا ملک خالد کے پاس چلا گیا۔ ملک خالد میرا وہ دوست ہے جو ہر روز بلاناغہ مجھے فون کرتا ہے۔ صرف مجھے ہی نہیں‘ تین چار دوستوں کو وہ ہرحال میں روزانہ فون کرتا ہے۔ پاکستان میں ہو تو صبح نو بجے اس کا فون لازمی آئے گا اور اگر لندن میں ہو تو پاکستان میں سہ پہر کے وقت اس کا فون آ جائے گا۔ فون کا آغاز عموماً سرائیکی میں ایک دوسرے کو برابھلا کہنے سے ہوتا ہے۔ (یہ برا بھلا کہنا اس گفتگو کا مہذب ترجمہ ہے) اس کے بعد ملتانی دوستوں کی خیر خبر پوچھی جاتی ہے‘ شہر کے حالات معلوم کیے جاتے ہیں اور بحث سے مبرا سیاسی صورتحال پوچھی جاتی ہے‘ موسم کا حال لیا جاتا ہے اور ایک دوسرے پر تبرا کرنے کے بعد فون بند کر دیا جاتا ہے۔ عموماً یہ ساری گفتگو سرائیکی میں ہوتی ہے مگر جس روز آغاز پنجابی میں ہو جائے اس دن یہ سارا معاملہ پنجابی میں نپٹتا ہے۔
ہیتھرو سے جوبلی لائن کی ٹرین پکڑ کر لندن سینٹرل روانہ ہوا تو میرے پاس دو بیگ تھے۔ ہالبورن انڈر گرائونڈ سے مجھے جوبلی لائن کی ٹرین تبدیل کرکے ماربل آرچ کے لیے سینٹرل لائن کی ٹرین لینی تھی۔ ہالبورن اور ماربل آرچ انڈر گرائونڈ سٹیشنز پر گو کہ ایسکیلیٹرز لگے ہوئے ہیں مگر پلیٹ فارم سے ایسکیلیٹر تک پہنچنے سے پہلے درمیان میں پندرہ بیس سیڑھیاں اور ماربل آرچ سٹیشن سے باہر نکلنے کیلئے اتنی ہی سیڑھیاں دوبارہ چڑھنی پڑتی ہیں۔ ہمارے ہاں یہ تصور عام ہے کہ مغرب کے لوگ بڑے خود غرض اور صرف اپنے کام سے کام رکھنے والے ہوتے ہیں اور کسی دوسرے کی پروا کرنا شاید ان کی ڈکشنری میں نہیں لیکن اپنے اندازوں کی غلطی کا علم برطانیہ اور امریکہ وغیرہ میں جا کر ہوتا ہے۔ مجھے اپنے دونوں بیگ تین بار اٹھا کر سیڑھیاں چڑھنا اور اترنا تھا۔ ہینڈ کیری تو سات کلو کا تھا مگر دوسرا بیگ تھوڑا وزنی تھا۔ یہ سارے کا سارا دوستوں کے اس سامان سے بھرا ہوا تھا جس کی فرمائش انہوں نے کی تھی‘ میرا کردار صرف قلی کا تھا۔ اس دوران کم از کم مجھے پانچ‘ چھ نوجوانوں نے بیگ اٹھا کر اوپر لے جانے کی آفر کی جسے میں نے شکریے سے منع کر دیا۔ ایک نوجوان نے تو میرے انکار کے باوجود میرے ہاتھ سے بیگ پکڑ کر اوپر لے جانے کی کوشش کی تاہم میں نے مسکرا کر اسے کہا کہ آپ کی مہربانی! مگر مجھے سامان اٹھانے کی مشقت کا عادی رہنے دیں‘ کیا معلوم مجھے آپ جیسا مہربان ہر جگہ نہ ملے۔ وہ نوجوان مسکرایا اور چل پڑا۔ سیڑھیوں کے آخر پر پہنچ کر اس نے پلٹ کر میری طرف دیکھا اور ہاتھ ہلا کر چلا گیا۔
ملک خالد نے مجھے دیکھتے ہی زور دار نعرہ لگایا اورگلے سے لگا لیا۔ چھوٹتے ہی کہنے لگا: پہلے کافی پی لو‘ پھر چوبیس نومبر کے بارے میں اپنی رائے دو۔ ملک خالد ان دوستوں میں سے ہے جن کو سیاسی گفتگو کرنے کی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ اس کا معقول ہونا ہرگز نہیں بلکہ ثابت قدم ہونا ہے۔ دوسرے لفظوں میں آپ اسے ڈھیٹ کہہ سکتے ہیں کہ اسے جو مرضی کہتے رہیں‘ وہ اپنی کرکے رہتا ہے۔ یہ مجبوری ہے کہ اس سے سیاسی گفتگو کیے بغیر جان نہیں چھوٹ سکتی۔ آپ اسے لاکھ غچہ دیں‘ ادھر ادھر کی سنائیں‘ برا بھلا کہیں یا کریں‘ وہ مستقل مزاجی سے اپنا سوال کرتا رہے گا‘ تاوقتیکہ آپ اس سے گفتگو پر راضی نہ ہو جائیں۔ اس روز بھی یہی ہوا۔
میں نے اسے بتایا کہ اس بات سے قطع نظر کہ عوام کو‘ مخلوقِ خدا کو اور مجبور لوگوں کو اس سے کتنی دقت اور تکلیف ہوتی ہے‘ پاکستان میں احتجاج کا سب سے مو ٔثر اظہار یہ ہوتا ہے کہ راستے کتنے بند ہوئے ہیں‘ عام آدمی کوخجالت کتنی ہوئی ہے اور اس کا اثر کتنے افراد پر پڑا ہے۔ اس حساب سے عمران خان کی چوبیس نومبر کو احتجاج کی کال چویبس نومبر سے پہلے ہی کامیاب ہو جائے گی۔ حکومت نے راستے بند کرنے شروع کر دیے ہیں‘ ٹرانسپورٹ کے اڈے بند کرنے کے احکامات دے دیے ہیں۔ موٹرویز بند کرنے کی منصوبہ بندی کرلی گئی ہے‘ شاہراہوں پرکنٹینرز رکھنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے‘ کارکنوں کی گرفتاریاں شروع کر دی ہیں۔ عام آدمی احتجاجی تحریک سے پہلے خوار ہونا شروع ہو گیا ہے۔ مخلوقِ خدا کی پریشانیوں کا آغاز ہوگیا ہے‘ مجبور لوگ ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں۔ ہاں فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ جلسے جلوس کی صورت میں تکلیف کا شکار لوگ سیاسی پارٹی اور لیڈر کو دل میں کوستے ہیں لیکن جو صورت اس وقت پاکستان میں چل رہی ہے لوگ حکومت کو دل ہی دل میں نہیں بلکہ سرعام گالیاں نکال رہے ہیں۔
ملک خالد پوچھنے لگا کہ اس احتجاج کا کیا بنے گا؟ میں نے کہا: بننا کیا ہے‘ کچھ دن ملک میں ہنگامہ رہے گا‘ لوگ ذلیل ہوں گے‘ پکڑ دھکڑ کا ایک نیا سلسلہ چل پڑا ہے وہ تھوڑا عرصہ جاری رہے گا لیکن اگر اس سب کے دوررس نتائج کا جائزہ لیں تو ممکن ہے آپ میری بات سے اختلاف کریں کہ اس کا نتیجہ عمران خان کی رہائی کی صورت میں تو شاید نہ نکلے مگر یہ ساری صورتحال بہرحال عمران خان کے حق میں جائے گی اور اس کی عوامی حمایت میں مزید اضافہ ہوگا۔ لوگ اس وقت مہنگائی اور غربت کی چکی میں پس رہے ہیں‘ ان کے پاس احتجاجی تحریک میں زیادہ دیر تک حصہ لینے کا دم نہیں ہے۔ حالیہ حکومتی اقدامات عوامی ردعمل کو تو دبا سکتے ہیں مگر جذبات کو ختم نہیں کرسکتے۔ جس طرح نو مئی کے بعد والے حکومتی اقدامات کے ردعمل کے طورپر لوگ آٹھ فروری کو نکلے تھے‘ اگر عوام کو اپنے جذبات کے اظہار کا کوئی جمہوری طریقہ میسر آیا تو سرکار کو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ ملک خالد پوچھنے لگا کہ کیا ایسی صورت میں الیکشن کے کوئی امکانات ہیں؟ میں نے کہا: پارلیمنٹ لوگوں کی ریٹائرمنٹ میں تو من چاہا اضافہ کرسکتی ہے مگر وہ پارلیمنٹ کی عمر میں آئین میں دی گئی رعایت سے زیادہ ایکسٹینشن نہیں دے سکتی۔ ہاں! جمہوریت کا بستر گول ہو جائے تو پھرکچھ بھی ممکن ہے۔ مگر اس کی ہمت تو وہ بھی نہیں کریں گے جو یہ کام گزشتہ ستتر سال سے کرتے آ رہے ہیں۔ نیت اور ہمت میں بڑا فرق ہوتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved