سیاسی پنڈتوں میں کم وبیش اتفاق ہے کہ آج سیاست میں 'بیانیہ‘ اور ' کارکردگی‘ کا مقابلہ ہے۔ ایک فریق کے پاس بیانیہ ہے اور دوسرا اس سے محروم ہے۔ فریق ثانی کا انحصار کارکردگی پر ہے۔ اس کا خیال ہے کہ وہ بہتر حکومتی کارکردگی کو بیانیے کا متبادل بنا دے گا۔ یہ پنڈت کہتے ہیں کہ کارکردگی بیانیے کا متبادل نہیں ہو سکتی ہے‘ اس لیے دوسرا فریق جب تک کوئی بیانیہ نہیں لاتا جو پہلے بیانیے سے زیادہ پُراثر ہو‘ وہ سیاست میں کمزور تر جگہ پہ کھڑا رہے گا۔
تجزیہ کار کے پی اور پنجاب کا موازنہ کرتے اور یہ بتاتے ہیں کہ کارکردگی کے باب میں کوئی مقابلہ نہیں۔ ایک طرف کے پی ہے جہاں حکومت کو مسائل کے حل سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اس کا ہدف سیاسی مخالفین ہیں نہ کہ عوامی مسائل۔ عوام بھی نفع نقصان سے بے نیاز اور ایک فردِ واحد کی محبت کی گرفت میں ہیں۔ دوسری طرف پنجاب میں آئے دن نئے منصوبے بنتے ہیں جو عوامی مسائل کو حل کر رہے ہیں۔ اس کے باوصف‘ کے پی کی حکومت کی مقبولیت کو کوئی خطرہ درپیش نہیں اور پنجاب میں حکمران طبقہ کارکردگی کی بنیاد پر‘ ابھی تک عوام کے دل کو موم کرنے کے لیے سرگرداں ہے۔ قصہ مختصر‘ بیانیے کو کارکردگی پر تفوق حاصل ہے۔ مجھے اس تجزیے سے اتفاق نہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ اس وقت سیاست میں بیانیہ نام کی کوئی شے موجود نہیں ہے۔ بیانیہ کسی نظریے سے بنتا ہے یا کسی ترقیاتی ماڈل سے۔ آج کی سیاست میں نظریے کا کردار باقی نہیں ہے۔ جو جماعتیں ماضی میں نظریاتی ہونے کی شناخت رکھتی تھیں‘ آج ان کے پاس کوئی نظریہ نہیں۔ نظریاتی سیاست کا مطلب ہوتا ہے کسی آئیڈیالوجی کی بنیاد پر ایک سیاسی نظام کا نقشہ پیش کرنا۔ ہماری بڑی سیاسی جماعتوں میں نظریے کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ دنیا میں بھی نظریاتی سیاست ختم ہو چکی۔ نظریاتی تحریکیں تو مو جود ہیں مگر وہ عوام کی اکثریت کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکیں۔ واقعہ یہ ہے کہ سیاست میں نظریے کی حیثیت اب فیشن سے زیادہ نہیں۔ گویا 'بیانیہ‘ کی کوئی نظریاتی اساس موجود نہیں۔ سبب یہ ہے کہ ہمارے ہاں بڑی سیاسی جماعتوں میں کوئی جماعت 'نظریاتی‘ نہیں۔
بیانیے کی دوسری بنیاد کسی ملک کی سماجی و معاشی ترقی کے لیے ایک واضح روڈ میپ یا ماڈل ہے۔ مثال کے طور پر ترقی کے لیے ایک مروجہ ماڈل یہ ہے کہ پہلے ایک انفراسٹرکچر وجود میں لایا جا ئے جو سرمایے کی نشو ونما کے لیے ایک سازگار ماحول فراہم کرے۔ پھر ملک میں موجود اقتصادی پوٹینشل کی نشاندہی کی جائے اور اس کی بڑھوتری کے لیے ایک لائحہ عمل بنایا جائے۔ اس سے سرمایہ آئے گا‘ روزگار پیدا ہو گا اور نتیجے میں عوام کی خوش حالی اور سماجی ترقی کے امکانات پیدا ہوں گے۔ ایک ماڈل یہ ہے کہ پہلے عوام کی سماجی ترقی کا اہتمام کیا جائے۔ جب ان کی صحت اچھی ہو گی‘ انہیں تعلیم اور صحت کے اچھے مواقع میسر ہوں گے تو پھر ان کی تخلیقی صلاحیتیں بہتر ہوں گی اور وہ ایک ترقی یافتہ معاشرہ بنا سکیں گے۔
پاکستان کی سیاست میں اس وقت اس نوعیت کا کوئی ماڈل موجود نہیں۔ تین بڑی جماعتوں کو پچھلے تیرہ برس میں‘ کسی نہ کسی صورت میں مکمل یا جزوی‘ اقتدار حاصل رہا ہے۔ اکثر کی حکمتِ عملی میں ہمیں کوئی 'ماڈل‘ دکھائی نہیں دیتا۔ جس فریق کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ اس کے پاس ایک بیانیہ ہے‘ اسے بھی اقتدار حاصل تھا اور آج بھی اس کے پاس ایک صوبے میں اقتدار موجود ہے۔ اس نوعیت کا کوئی ماڈل کہیں نہیں پایا جاتا۔ اس لیے یہ محض ایک مفروضہ ہے کہ یہاں کسی فریق کے پاس کوئی بیانیہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کارکردگی بھی نہیں اور بیانیہ بھی نہیں ہے تو پھر اس مقبولیت کی وجہ کیا ہے؟
جسے بیانیہ کہا جا رہا ہے‘ یہ دراصل ایک کلٹ ہے۔ اس پر بار ہا بات ہو چکی۔ یہ کوئی سیاسی عمل نہیں۔ کلٹ کی تشکیل کوئی عقلی سرگرمی بھی نہیں۔ موجودہ سیاسی عمل میں کلٹ کی تمام خصوصیات پائی جا تی ہیں۔ پہلی خصوصیت تو یہ ہے کہ کلٹ کا شکار لوگ ہر مخالفانہ آواز کے لیے اپنے کان بند کر لیتے ہیں۔ وہ صرف انہی آوازوں کو سنتے ہیں جن کو وہ پسند کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں لیڈر کا کوئی تضاد‘ تضاد نہیں ہوتا۔ دوسری نشانی یہ ہے کہ یہ ایک مابعد الطبیعیاتی عمل ہے۔ اس میں لیڈر کے ساتھ تعلق کی بنیاد عقلی نہیں‘ غیر عقلی ہوتی ہے جسے 'روحانی‘ قرار دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذہب میں کلٹ زیادہ آسانی سے بنتے ہیں جو اصلًا ایک مابعد الطبیعیاتی تصور ہے۔ سیاست میں بھی جب کلٹ بنتے ہیں تو پھر دلیل وغیرہ بے معنی ہو جاتے ہیں۔ ماڈرن کلٹ کی تشکیل میں سوشل میڈیا کا اہم کردار ہے۔ بظاہر ماڈرن دکھائی دینے والے‘ جب اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں تو دو جملوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ دراصل ان کے تعلق کی اساس عقلی نہیں‘ جذباتی ہے۔ تیسری نشانی یہ ہے کہ سیاست میں 'مذہبی ٹچ‘ بھی شامل کر دیا جا تا ہے‘ جس سے کلٹ دو آتشہ ہو جاتا ہے۔
سیاست کا فطری مطالبہ یہ ہے کہ سیاسی راہنماؤں اور جماعتوں کو ان کی کارکردگی اور صلاحیت کی بنیاد پر پرکھا جائے۔ سیاست کا تعلق گورننس کے ساتھ ہے۔ سیاسی راہنماؤں اور جماعتوں کو جب یہ معلوم ہوگا کہ ان کی مقبولیت کا انحصار کارکرد گی پر ہے تو ان کی زیادہ توجہ کارکردگی پر ہو گی۔ پھر جماعتوں کے سیاسی نامۂ عمل کا موازنہ ہوگا۔ اس سے سیاسی عمل آگے بڑھتا ہے۔ اس میں جمود نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست میں کلٹ یا رومانیت کی حمایت نہیں کی جاتی۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس کو اگر کوئی عنوان دیا جا سکتا ہے تو یہ 'کلٹ بمقابلہ کارکردگی‘ ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس ساری بحث میں دلیل واستدلال بے معنی ہو چکے۔ آج سیاست میں صرف جذبات کارفرما ہیں۔ مکالمہ اس لیے ممکن نہیں کہ اس طرز کی سیاست میں گروہوں کو خیر وشر کی بنیاد پر تقسیم کیا جاتا ہے ا ور پھر ان میں ایک واضح خطِ امتیاز کھینچ دیا جاتا ہے۔ سیاست اگر فطری انداز میں آگے بڑھے تو مکالمہ اس کی ناگزیر ضرورت ہے۔
آج کی سیاست چونکہ کسی بیانیے سے خالی ہے‘ اس لیے میرے نزدیک 'بیانیہ بمقابلہ کارکردگی‘ کا یہ مقدمہ درست نہیں۔ اس کا اندازہ اس کلٹ کی احتجاج جیسی سرگرمیوں میں شریک لوگوں کے انٹرویوز سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ ان سے جب بھی ان میں شرکت کی وجہ پوچھی گئی‘ اکثر اس کا جواب ایک شخصیت سے محبت بتائی گئی۔ ان کی باتوں سے کبھی کسی بیانیے کا سراغ نہیں ملا۔ زیادہ سے زیادہ کرپشن کے بارے میں رٹایا گیا آموختہ دھرا دیا جاتا تھا۔ اکثر تو یہ بھی نہیں جانتے کہ سیاست کس چڑیا کا نام ہے اور ریاست کسے کہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے سیاسی شعور قرار دیا جاتا ہے۔
یہ تجزیہ مگر اس وقت بے معنی ہے۔ اس وقت سیاست نے ایک رخ اختیار کر لیا ہے۔ اس کا انجام بقائے باہمی میں تو دکھائی نہیں دیتا۔ اگر سماج خیر اور شر کی بنیاد پر منقسم ہے تو ان میں بقائے باہمی ممکن نہیں۔ خیر کا خیر سے تو اشتراک ہو سکتا ہے‘ شر سے نہیں۔ مکالمے کے لیے ضروری ہے کہ دوسروں کو بھی اپنے جیسا سمجھا جائے۔ کلٹ کی موجودگی میں ایسا نہیں ہو سکتا۔ اب تو ہمیں انتظار کرنا ہے کہ کون سا گروہ غالب رہتا ہے۔ حق وباطل کے معرکے کا انجام یہی ہوتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved