تحریک انصاف نے اعلان کے مطابق 24 نومبر کو مختلف شہروں سے احتجاج کا آغاز کر دیا۔ ڈی چوک پی ٹی آئی کی منزل ہے‘ تاہم تادم تحریر پی ٹی آئی کے قافلے ڈی چوک نہیں پہنچے سکے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اس بار بھی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ وہ پشاور سے قافلے کی صورت میں صوابی کے لیے روانہ ہوئے‘ صوابی سے دیگر لوگ بھی ان کے قافلے میں شامل ہوئے‘ بعد ازاں یہ قافلہ صوابی سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہو گیا مگر انہیں برہان انٹرچینج سے پہلے موٹروے پر ہی رات گزارنا پڑی۔ ان سطور کی تحریر کے وقت علی امین گنڈا پور کا قافلہ اسلام آباد کیلئے رواں دواں ہے۔ بشریٰ بی بی کی بہن مریم ریاض وٹو کے بقول بشریٰ بی بی بھی علی امین گنڈاپور والے قافلے میں موجود ہیں‘ تاہم وہ قافلے کی قیادت نہیں کر رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کے سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے بھی بشریٰ بی بی کی قافلے میں موجودگی کی تصدیق کی ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ سے علی امین گنڈاپور پی ٹی آئی جلسوں کی قیادت کرتے آ رہے ہیں‘ علی امین کے اندازِ بیان سے لاکھ اختلاف سہی لیکن یہ بات تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ اس وقت وہی پی ٹی آئی کی توانا آواز ہیں۔ شاید اس کی اہم وجہ وزارتِ اعلیٰ کا عہدہ اور صوبے کے وسائل پر ان کی حکمرانی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی موجودہ حالات میں پختونخوا کو اپنا مضبوط قلعہ تصور کرتی ہے‘ حتیٰ کہ بشریٰ بی بی نے بھی رہائی کے بعد اسی مضبوط قلعے میں قیام پذیر ہونا مناسب سمجھا۔ احتجاجی قافلے میں بشریٰ بی بی کی موجودگی کا سبب یہ ہے کہ اہم معرکے میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شامل کیا جا سکے۔ پارٹی میں عام تاثر ہے کہ خان صاحب کے بعد کارکنان بشریٰ بی بی کو عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں‘ اگر بشریٰ بی بی ہوں گی تو لوگ بڑی تعداد میں احتجاج کا حصہ بنیں گے۔ پنجاب سے کتنے اور کہاں کہاں سے قافلے روانہ ہوئے ہیں‘ ہمیں اس بارے اطلاعات موصول نہیں ہو سکی ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کی علی امین گنڈاپور سے توقعات بلاوجہ نہیں ہیں۔ البتہ اسلام آباد پہنچنے تک علی امین گنڈاپور کے قافلے میں کتنے لوگ شریک ہوں گے‘ یہ اہم ہوگا۔
پی ٹی آئی کا احتجاج شروع ہونا اور حکومت کی طرف سے ریاستی قوت کے زور پر احتجاج کو روکنے کا عندیہ اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ مذاکرات کی کوششیں جو کسی سطح پر شروع ہوئی تھیں‘ بار آور ثابت نہیں ہو سکیں۔ تحریک انصاف احتجاج سے پیچھے نہیں ہٹ رہی۔ یہ واضح ہو چکا کہ اس بار کا احتجاج ماضی سے مختلف ہوگا کیونکہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ خان صاحب کی رہائی تک احتجاج ختم نہیں ہوگا‘ سو قوی امکان ہے کہ تحریک انصاف آگے بڑھتی رہے گی جبکہ حکومت احتجاجیوں کا راستہ روکنے کی کوشش کرے گی۔ یہی وہ لمحات ہوتے ہیں جب پولیس اور احتجاجیوں کے مابین بالعموم تصادم یا ٹکرائو کے خدشات پیدا ہو جاتے ہیں۔ احتجاج کے پہلے دن راولپنڈی میں فیض آباد کے مقام پر اس وقت ایسے چند مناظر دیکھنے کو ملے جب پی ٹی آئی کے کارکنوں نے اسلام آباد میں داخل ہونے کی کوشش کی‘ پولیس نے ان کا راستہ روکا تو کارکنان مشتعل ہو گئے‘ نعرے بازی شروع ہو گئی اور پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس کا استعمال کیا۔ اسی طرح پولیس نے اسلام آباد میں داخل ہونے والے کارکنوں کو گرفتار کرنا شروع کر دیا مگر جب کارکنان زیادہ تعداد میں ہوں گے تو ظاہر ہے کہ پولیس کیلئے مشکلات ہوں گی۔ ایسے میں تصادم کے خدشات مزید بڑھ جائیں گے‘ لہٰذا یہ صورتحال ملک کیلئے قطعی طور پر نیک شگون نہیں۔
اس وقت حکومت کی پی ٹی آئی کے احتجاج سے نمٹنے کی حکمت عملی یہ ہے کہ کسی قسم کی رعایت نہیں دی جائے گی جبکہ پی ٹی آئی کچھ عرصہ کیلئے اسلام آباد میں قیام کا ارادہ ظاہر کر رہی ہے۔ دریں حالات پی ٹی آئی کو دو طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ فی الوقت احتجاجی قافلے میں لوگوں کی تعداد کم ہے۔ احتجاج کا انحصار اس بات پر ہے کہ اسلام آباد پہنچنے تک لوگوں کی تعداد کیا ہوتی ہے۔ دوسرا یہ کہ وفاقی دارالحکومت میں سردی شروع ہو چکی ہے‘ ٹھنڈی راتوں میں کارکنان کو اسلام آباد میں روکے رکھنا آسان نہیں ہو گا۔ نہ ہی اس سے پہلے پی ٹی آئی کو ایسا کوئی تجربہ ہے۔ 2014ء کا دھرنا بھی شام کے وقت چند گھنٹوں کا شو ہوتا تھا‘ اس وقت موسم کافی بہتر تھا‘ شو ختم ہونے کے بعد خان صاحب بنی گالہ میں اپنی رہائش گاہ اور کارکنان اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے تھے۔ اب کی بار احتجاج کیلئے سرد موسم کا انتخاب کیا گیا ہے‘ کارکنان کو جوڑے رکھنے کیلئے خان صاحب بھی موجود نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ پی ٹی آئی بہت کچھ دائو پر لگا کر احتجاجی میدان میں اتری ہے‘ اگر اس بار احتجاج ناکام ہو جاتا ہے تو پی ٹی آئی کو آئندہ کچھ عرصے تک خاموش رہنا پڑے گا۔ اگر کچھ حاصل ہوتا ہے تو وہ توقعات کے برعکس بہت کم ہو سکتا ہے۔
اس وقت ایک اہم مسئلہ عام شہریوں کو درپیش ہے۔ جڑواں شہروں میں عام راستوں کی بندش سے عام شہری متاثر ہو رہے ہیں۔ تعلیمی ادارے بند ہیں‘ شاہراہیں بند ہونے سے مریضوں کو ہسپتال پہنچنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ انٹرنیٹ‘ موبائل سروس اور موٹرویز کو بند کیا گیا ہے۔ اہم مارکیٹوں کو انتظامیہ نے بند کرا دیا ہے‘ پاکستان ٹرانسپورٹ کونسل کا کہنا ہے کہ کنٹینرز اور ٹرک پکڑے جانے سے ہمارا روزانہ کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ اگر یہ سلسلہ مزید چند روز تک یونہی جاری رہتا ہے تو عام شہریوں کی زندگی شدید متاثر ہو گی۔ تاجر برادری آئے روز کے احتجاج سے سخت پریشان ہے کہ کاروبار شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ شہریوں کو جان ومال کا تحفظ فراہم کرنا اور معمولاتِ زندگی میں کسی قسم کا تعطل نہ آنے دینا یہ حکومت کے فرائض میں شامل ہے۔ اگر احتجاج کا سلسلہ طویل ہوتا ہے تو حکومت کیلئے اس صورتحال کا مقابلہ کرنا یقینا آسان نہیں ہو گا اس لیے مذاکرات کا دروازہ بہرصورت کھلا رکھنا ہوگا۔
یہ درست ہے کہ پی ٹی آئی نے کافی عرصہ پہلے سے احتجاج کی کال دے رکھی ہے مگر خیبر پختونخوا حکومت کُرم کے حالات سے لاتعلق نہیں رہ سکتی۔ 80 کے قریب افراد دو قبائل کی کشیدگی کی نذر ہو چکے ہیں۔ حکومتی جرگے کی کوششوں سے اگرچہ سات روز کیلئے فریقین جنگ بندی پر آمادہ ہو گئے ہیں لیکن یہ مسئلے کا مستقل حل نہیں‘ دیرپا حل بہرصورت نکالنا ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ کُرم کے سنگین حالات کے تناظر میں علی امین گنڈاپور بطور وزیر اعلیٰ کہاں کھڑے ہیں؟ اگر وہ چند روز تک احتجاج میں مصروف رہے تو صوبے کے عوام یہ سوال اٹھائیں گے کیونکہ وزیراعلیٰ ہونے کے ناتے وہ صوبے کے مسائل کو پس پشت نہیں ڈال سکتے۔
پی ٹی آئی کے احتجاج سے متعلق ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ جب بھی کسی اہم شخصیت کا دورۂ پاکستان طے پاتا ہے اور سرمایہ کاری کی بات چلنے لگتی ہے تو پی ٹی آئی احتجاج کا منصوبہ بنا لیتی ہے۔ بیلاروس کا اعلیٰ سطحی وفد پاکستان پہنچ چکا ہے‘ وفد میں وزیر خارجہ سمیت آٹھ وزرا شامل ہیں۔ 68 افراد پر مشتمل اس وفد میں 43 تجارتی افراد ہیں۔ بیلا روس صدر کے دورے کا مقصد دوطرفہ تجارت کو فروغ دینا ہے۔ بیلا روس کے اعلیٰ سطحی وفد کا دورہ حکومت کی گزشتہ کئی ماہ کی محنت کا نتیجہ ہے۔ فریقین میں زراعت‘ تجارت‘ سائنس وٹیکنالوجی اور ادویہ سازی سمیت کئی شعبوں میں مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہونے کا امکان ہے۔ پاکستان زرعی مشینری اور ٹریکٹرز کی تیاری کی صنعت میں تعاون کا خواہاں ہے‘ اس لیے حکومت سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ کو کسی صورت برداشت نہیں کرے گی۔ پی ٹی آئی بے وقت احتجاج کا آغاز کر کے بہت کچھ دائو پر لگا چکی ہے‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس احتجاج سے وہ حاصل کیا کرتی ہے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved