تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     27-11-2024

نوشتۂ دیوار پڑھنے میں کیا رہ گیا ہے؟

کیا بینائی سے محروم ہو گئے ہیں؟ کانوں میں جالے پڑ گئے ہیں؟ اب بھی سمجھنے میں مشکل پیش آ رہی ہے کہ حالات کہاں پہنچ چکے ہیں؟ کتنی بڑھکیں ماری گئیں کہ احتجاجی اسلام آباد داخل نہیں ہو سکیں گے۔ بڑی تفصیل سے بتایا گیا کہ بیس ہزار سے زیادہ پولیس اور دیگر اہلکار دارالحکومت کے دفاع کے لیے مامور ہو چکے ہیں۔ آنسو گیس شیل اور ربڑ کی گولیوں کا بتایا گیا۔ وزیر داخلہ نے باقاعدہ پولیس کی ایک ریلی کو خطاب کیا اور مورال اونچا کرنے کے لیے 'اللہ اکبر‘ کے نعرے لگائے گئے۔ کچھ بھی کام آیا؟ کوئی تدبیر بھی بارآور ثابت ہوئی؟ اٹک پل سے اسلام آباد تک فاصلہ خاصا لمبا ہے۔ کئی مقامات پر دفاعی پوزیشنیں لگائی گئیں‘ خیبرپختونخوا سے آنے والے جلوس کو روکنے کے لیے۔ کچھ بات نہ بنی اور چھبیس تاریخ کی صبح جب یہ سطریں لکھی جا رہی تھیں‘ احتجاجی ریلا اسلام آباد کی حدود سے اندر آ چکا تھا اور خبریں چل رہیں تھیں کہ آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت دفاعی اداروں کی مدد طلب کر لی گئی ہے۔
ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ حقیقی مینڈیٹ سے محروم حکومت احتجاجی قافلوں کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہوئی۔ یہ بھی ثابت ہو گیا کہ بائیس ہزار سے زیادہ پولیس کی نفری بھی احتجاجی ہجوم کے سامنے بے بس نکلی۔ اگر یہ باتیں ثابت ہو چکی ہیں اور پاکستان میں فیک نیوز چل رہی ہوں گی لیکن دنیا کے نشریاتی ادارے بھی بتا رہے ہیں کہ اسلام آباد کس قسم کے دباؤ کا شکار ہو چکا ہے‘ تو پھر اس صورتحال سے کچھ نتائج نہیں اخذ کرنے چاہئیں؟ عقل پر پڑے پردوں کو تھوڑا ہٹنا نہیں چاہیے؟ ہم سب نہیں چاہتے کہ ٹمپریچر تھوڑا نیچے آئے؟ ملک کی حالت دیکھ کر ہم سب دکھی نہیں؟ تو پھر عقل سے کام کیوں نہیں لیا جا رہا؟ پہلی چیز تو یہ ہے کہ تمام مقدمات میں‘ اس بات کو ایک طرف رکھتے ہیں کہ ان مقدمات میں کوئی سچائی تھی یا نہیں‘ ضمانت ہو جانے کے بعد عمران خان کو اندر رکھنے کا جواز کیا رہ جاتا ہے؟ اگر یہ خدشہ سروں پر منڈلا رہا ہے کہ وہ باہر آئے تو حالات مزید بے قابو ہو جائیں گے تو اُن سے بات کر لیں اور بنی گالہ لے جائیں۔
ساتھ ہی یاسمین راشد‘ عمر سرفراز چیمہ‘ محمود الرشید اور اعجاز چودھری جیسے پی ٹی آئی کے رہنما جو پابندِ سلاسل ہیں اور ایک سال سے زائد عرصہ ہونے کے باوجود اُن پر کوئی خاطر خواہ مقدمہ نہیں چل سکا‘ اُنہیں رہا کیا جائے۔ دیگر باتیں بعد میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ رہائیاں عمل میں آئیں تو ٹمپریچر ایک دم نیچے آ جائے گا۔ زور زبردستی سے کام چلنا ہوتا تواب تک چل چکا ہوتا‘ تمام چیزیں دب کے رہ جاتیں‘ زبانیں مکمل طور پر بند ہو جاتیں اور پی ٹی آئی میں کچھ ہمت باقی نہ رہتی۔ لیکن اب تو عقل سے مکمل طور پر عاری صاحبان بھی دیکھ سکتے ہیں کہ تمام کوششوں کے باوجود ایسا کچھ نہیں ہوا۔ معتوب جماعت نے کمزور ہونے کے بجائے زیادہ زور پکڑا ہے۔ اس کی جگہ کوئی اور قوت ہوتی تو اب تک تھکن سے چور ہو کر ہار مان چکی ہوتی۔ لیکن جب ایسا کچھ نہیں ہوا تو پھر دانش مندی کا تقاضا ہے کہ زور زبردستی کے علاوہ کوئی دوسری راہ تلاش کی جائے۔ اور دوسری راہ مفاہمت کے تقاضوں میں ہی پنہا ں ہے۔
دو سال سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے‘ ایسے ایسے ہتھکنڈے اپنائے گئے ہیں کہ اُن کا ذکر یہاں نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن کوئی پوچھے تو سہی کہ ان تدابیر سے حاصل کیا ہوا ہے؟ عوام کا موڈ سب کے سامنے ہے‘ احتجاجی قافلوں میں جوش وجذبہ نہ ہوتا تو تمام رکاوٹیں عبور کرکے اسلام آباد پہنچ سکتے تھے؟ اتنی شیلنگ اور دوسری چیزیں برداشت کر سکتے تھے؟ اب یہ ماننا پڑے گا کہ پچھلے دو سال کی پالیسیاں ناکام ہو چکی ہیں۔ اگر وطنِ عزیز کی بہتری مقصود ہے تو مفاہمت کا راستہ ہی اپنانا پڑے گا۔ اس وقت صرف اسلام آباد شورش کی زد میں نہیں‘ پورا ملک لہولہان ہے۔ کیا ہمیں ملک کا نقشہ نظر نہیں آتا؟ کے پی اور بلوچستان کی صورتحال سے ہم بے خبر ہیں؟ پاراچنار کسی اور ملک کا حصہ ہے؟ وہاں جو خون کی ہولی کھیلی گئی کسی اور ملک میں ہوتی تو اب تک کہرام مچ چکا ہوتا۔ یہاں بے حسی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اتنے بڑے واقعات ہوتے ہیں اور جیسے بھی ہے‘ زندگی چلتی رہتی ہے۔ کچھ ہمیں ملک کا خیال کرنا چاہیے۔ خواہ مخواہ کی ضد اور فضول کی اَنا سے تھوڑا پیچھے ہٹنا چاہیے۔
ملک کی یہ صورتحال ہے اور یہاں کیا کیا جا رہا ہے؟ چھبیسویں آئینی ترمیم پاس کرائی گئی اور یہ کہا گیا کہ اس سے استحکام آئے گا۔ تو کیا استحکام نصیب ہو گیا ہے؟ کس دنیا میں ہمارے افلاطون رہتے ہیں؟ بات ہو رہی ہے کہ ایک غیر ملکی مہمان اسلام آباد آئے ہوئے ہیں‘ اُن کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔ ذرا ملاحظہ تو ہو کہ قابلِ احترام مہمان کون ہیں۔ عرصۂ دراز سے اقتدار پر براجمان بیلاروس کے ڈکٹیٹر ہیں۔ حال ہی میں الیکشن ہوئے اور ہار گئے لیکن سکیورٹی فورسز کے بل بوتے پر اقتدار سے چمٹے ہوئے ہیں۔ روس کہ جن سے اُن کے تعلقات اچھے ہیں‘کے علاوہ یورپ کے کسی اور ملک جا نہیں سکتے۔
بہرحال بات ہم اپنی کرتے ہیں۔ اس دفعہ ہر چیز مختلف نظر آ رہی ہے۔ پہلے کی یلغاروں کی نسبت اس دفعہ کی تیاری بہت مختلف لگتی ہے۔ یہ ماننا پڑے گا کہ جو موبلائزیشن اس دفعہ کے پی میں ہوئی اُس میں کلیدی کردار بشریٰ بیگم کا تھا۔ پشاور میں اُن کی موجودگی کا مثبت اثر پی ٹی آئی پہ ہوا اور جماعت کے عمائدین اور ورکروں نے اُس سے حوصلہ لیا۔ اس بار جب کہا گیا کہ یہ فائنل راؤنڈ ہے تو یہ بات دلوں میں بیٹھ گئی کہ اس دفعہ واقعی مقصد حاصل کیے بغیر جدوجہد کو ختم نہیں کیا جائے گا۔ پھر بشریٰ بیگم کا وڈیو پیغام بھی ریکارڈ کرایا گیا کہ خان کی رہائی کے بغیر پی ٹی آئی چین سے نہیں بیٹھے گی۔ بشریٰ بیگم پر اعتراض کرنے والوں کی کمی نہیں لیکن اس بات سے انکار بھی ممکن نہیں کہ اُن کی وجہ سے احتجاج کا ایک نیا رنگ اُبھر کر آیا۔ خان نے اپنی جان داؤ پر لگائی ہوئی ہے‘ بشریٰ بیگم نے جیل کاٹی اور بڑی استقامت سے کاٹی۔ قافلے میں بھی شریک ہیں اور حکومتی سازندوں کے پاس اس کے سوا کچھ کہنے کو نہیں رہ گیا کہ خان اور بشریٰ بیگم کے بچے کہاں ہیں؟ مضحکہ خیزی کی بھی کوئی حد ہونی چاہیے۔
وزیر داخلہ میں اچھی بات ہے کہ گری ہوئی زبان استعمال نہیں کرتے‘ بولتے ہیں تو محتاط طریقے سے۔ لیکن وہ اس سے کچھ زیادہ بھی کر سکتے ہیں کہ فیصلہ سازوں کو صحیح صورتحال پیش کریں۔ یہ تو سب پر آشکار ہے کہ جنابِ وزیراعظم کسی گنتی میں نہیں آتے۔ جو نمائشی کام اُن کے ذمے سونپا ہوا ہے وہ ٹھیک ادا کر رہے ہیں‘ باقی فیصلے اُن کے بس کی بات نہیں۔ جاننے والے خود بھی جانتے ہوں گے لیکن وزیر داخلہ اس بات کو انڈر لائن کر سکتے ہیں کہ زور زبردستی کی سرکار اب مزید نہیں چل سکتی۔ ہٹ دھرمی سے ہٹنے کا راستہ اپنانا ہو گا۔ بشریٰ بیگم نے بڑا بروقت یہ پیغام دیا کہ خان بدلہ لینے یاحساب چکانے میں یقین نہیں رکھتا۔ قوم کے مستقبل کا مسئلہ ہے‘ سب کو بڑا دل دکھانا چاہیے۔
یہ پرانی باتیں نہیں ہیں‘ہمارے مشاہدے میں ہیں کہ غلط راستے پہ چلنے پر بڑی طاقتوں کا ریخت ہو گیا۔ کچھ تو تاریخ سے سبق سیکھ لیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved