سردیوں کی آمد کے ساتھ ایک اور دھرنا اسلام آباد پہنچ چکا ہے۔ اب مظاہرین کو اسلام آباد میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے حکومت نہ سنجیدگی سے مذاکرات کرتی ہے اور نہ ہی یہ کسی کی ترجیح ہے۔
برسوں سے یہاں مظاہرین آ اور جارہے ہیں لیکن حکومت جو بھی ہو‘ انہیں ہینڈل کرنے کا طریقہ وہی پرانا ہے۔ اس وقت جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں‘ اسلام آباد ڈی چوک پر پی ٹی آئی کے کارکن قبضہ کرچکے ہیں اور پولیس ان پر آنسو گیس کے شیل پھینک رہی ہے۔ آنسو گیس فائر کرنے کی آوازیں پورے اسلام آباد میں گونج رہی ہیں۔ چلیں ہم اسلام آباد کے لوگوں کی تو خیر ہے کہ اب برسوں سے اس سب کے عادی ہو چکے ہیں لیکن جس ڈی چوک سے صرف پانچ دس منٹ کی پیدل واک پر ایک بڑے ہوٹل میں بیلاروس کا صدر اپنے ساٹھ رکنی وفد کے ساتھ موجود ہے یقینا آنسو گیس شیل فائر کرنے کی آوازیں وہاں تک بھی جارہی ہوں گی۔ وزیراعظم ہاؤس‘ جہاں شہباز شریف موجود ہیں‘ وہاں بھی یہ آوازیں سنی جارہی ہوں گی۔ آنسو گیس شیل کی آواز تو بندوق کی گولی سے بھی اونچی ہوتی ہے اور عام آدمی آنسو گیس کے شیل کی فائرنگ اور اسلحہ کی فائرنگ میں فرق بھی نہیں کر سکتا۔ یوں میں سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں کہ بیلاروس کے صدر اور ان کے وفد کے ارکان مسلسل فائرنگ کی آوازوں اور آنسو گیس کی چار سو پھیلی بو کے بیچ کیا سوچ رہے ہوں گے کہ وہ کہاں آکر پھنس گئے ہیں۔
اس پورے عمل میں آپ کو وزیراعظم شہباز شریف کہیں نظر آرہے ہیں؟لگتا ہے یہ کوئی اور ملک ہے جس کا وزیراعظم کوئی اور ہے۔ دن رات ان کی ایک ہی کوشش ہے کہ مجھ سے مقتدرہ خوش رہے۔ کوئی ایسی بات منہ سے نہ نکلے جس سے یہ لگے کہ یہ بندہ وزیراعظم بن کر پرپرزے نکال رہا ہے۔ ہر وقت مقتدرہ کی تعریفوں کا یہ نقصان ہوا ہے کہ سویلین اتھارٹی‘ جس کا پہلے بھی رعب دبدبہ کم ہو رہا تھا‘ کا رہا سہا بھرم بھی اب تقریباًختم ہوچکا ہے۔ آپ لاکھ لوگوں کو معاشی اعداد وشمار مثبت بتاتے رہیں کہ سب کچھ نارمل ہے‘ باہر سے ڈالرز آرہے ہیں‘ سٹاک مارکیٹ اوپر جارہی ہے‘ ڈالر مہنگا نہیں ہورہا‘ ایکسپورٹ بڑھ گئی ہے‘ مارک اَپ کم ہورہا ہے‘ مہنگائی میں بھی کمی آئی ہے ‘عام آدمی پھر بھی ان کی بات نہیں مان رہا۔ حکومتوں کا امیج ایسابن گیا ہے کہ اچھا کام بھی کریں تو کوئی یقین نہیں کرتا۔
جس طریقے سے پی ٹی آئی کے لوگ خیبرپختونخوا سے ڈی چوک پہنچے ہیں اس پر سوالات اٹھتے ہیں کہ پھر یہ تین دن تک اسلام آباد میں کرفیو جیسی کیفیت کیوں پیدا کی گئی؟ ہر طرف کنٹینر لگا کر محاصرے کی شکل کیوں دی گئی؟ اسلام آباد کی سڑکوں پر پولیس کا فلیگ مارچ ‘ دھمکیاں اور گیدڑ بھبکیاں کس لیے؟ اگر یہی کچھ کرنا تھا تو سب راستے کھلے رکھتے اور انہیں آنے دیتے اور آپ کریڈٹ بھی لیتے کہ دیکھو ہم جمہوری لوگ ہیں اور مظاہرین کو احتجاج کرنے کا حق دیتے ہیں۔
جس طرح اہم وزارتیں محض اس وجہ سے چند لوگوں کو دی گئی ہیں کہ وہ پاکستان کے بڑے لوگوں کے ذاتی دوست ہیں‘ اس پر مجھے ایک بات یاد آئی‘ جب عمران خان وزیراعظم تھے وہ ان دنوں دھڑا دھڑ اپنے قریبی دوستوں کو کابینہ میں مشیروں کے عہدے بانٹ رہے تھے۔ میں نے ایک ٹی وی شو میں کہا کہ سمجھدار حکمران اپنی رات کی محفل کے دوستوں کو اگلے دن اپنی کابینہ میں نہیں بٹھاتا۔ کابینہ اور حکمرانی کے لیے وہ کچھ اور لوگوں کا انتخاب کرتا ہے جو ذہین اور سمجھدار ہوں اور حکمران کے لیے پیدا ہونے والی مشکل کو ہینڈل کرنے کی صلاحیت اور مضبوط اعصاب رکھتے ہوں۔ اگر انہوں نے دوستوں کو کوئی فیور کرنی بھی ہوتی ہے تو چند فائدہ مند کنٹریکٹ لے دیتے ہیں تاکہ وہ پیسہ کماتے رہیں۔ وہ اپنے عزیزوں اور دوستوں کو اہم عہدے نہیں دیتے کہ وہ فائدہ کم اور نقصان زیادہ کرتے ہیں۔ یہی کچھ اب ہورہا ہے‘ جب اہم وزارتیں ایسے لوگوں کو دی ہوئی ہیں جن کی سفارش پنڈی سے آئی تھی لہٰذا وہ وزیراعظم یا کابینہ کے سامنے خود کو جوابدہ نہیں سمجھتے۔یہی کام شریف فیملی کرتی رہی جب انہوں نے کوئی اہم عہدہ اپنے خاندان سے باہرکسی کو نہیں دیا۔ سب کچھ اپنے پاس رکھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ایک کر کے ان کی پارٹی کے اہم لوگ انہیں چھوڑ گئے لیکن ان کی سوچ نہیں بدلی۔ جاوید ہاشمی‘ چودھری نثار علی خاں‘ سردار مہتاب عباسی‘ شاہد خاقان عباسی‘ مفتاع اسماعیل وغیرہ لیکن پارٹی قیادت پر کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ پھر بھی اقتدار گھر میں ہی بانٹتے رہے۔ اب بھی نواز لیگ میں وہی فیملی فرینڈ پیکیج چل رہا ہے۔
عمران خان کی پارٹی بارے کچھ تاثر تھا کہ وہ شاید کچھ مختلف کرے گی لیکن دھیرے دھیرے وہاں بھی وہی رواج شروع ہو گیا۔ اس رنگ میں خان صاحب بھی رنگے گئے۔ بشریٰ صاحبہ نے پارٹی کو ٹیک اوور کر لیا ہے اور ان کی کامیاب سیاسی لانچنگ ہوگئی ہے۔ بہت سارے لوگ کہیں گے کہ اس طرح کے حالات بینظیر بھٹو‘ نصرت بھٹو‘ کلثوم نواز اور مریم نواز کو بھی سیاسی میدان میں لے آئے تھے جب ان کے خاندان کے افراد جیلوں میں تھے۔ لہٰذا ان حالات میں بشریٰ صاحبہ اگر پارٹی کو اپنے ہاتھوں میں لے رہی ہیں تو کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں پاکستان‘ بھارت یا بنگلہ دیش کا سماج ایسا ہے کہ یہاں حکمران جب اقتدار میں ہوتا ہے تو سب اس کے خلاف ہوتے ہیں۔ اس پر کرپشن اور اقربا پروری کے الزامات لگانے پر رولا ڈالتے ہیں۔ اسے کرسی سے نیچے اتارنے کے لیے سب حربے استعمال کرتے ہیں۔ہنگامے‘ دنگے‘ احتجاج۔ لیکن جب وہ حکمران اُتر جائے یا اتار دیا جائے اور جیل میں ڈالا جائے تو وہی عوام دکھی ہو جاتے ہیں۔ اس لیے آپ دیکھیں تو ہر حکمران کے جیل جانے کے بعد ان کے خاندان کی خواتین سامنے آئیں اور انہوں نے رو رو کر لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹیں۔ عام لوگوں کے دل اپنے سابق حکمرانوں کو مشکل میں دیکھ کر پسیج جاتے ہیں۔ وہ رونے لگ جاتے ہیں۔ وہی حکمران جو کل تک ان کے نزدیک ظالم اور بے حس تھے وہ انہیں مظلوم لگنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ان حکمرانوں کی کرپشن ہو یا جرائم‘ وہ یاد نہیں رہتے۔ انسانی یادداشت ویسے بھی کمزور ہوتی ہے۔ یوں وہ سابقہ حکمران طبقہ اور خاندان پھر اُنہی لوگوں کی ہمدردیوں کو سمیٹ کر واپس اقتدار میں آجاتا ہے۔ وہی عام لوگ جو ہمدردیاں کررہے ہوتے ہیں‘ چند ماہ بعد دوبارہ اس حکمران خاندان کے خلاف ہو جاتے ہیں اور پھر سے وہی تنقید‘ جلسے جلوس اور ہنگامے۔ پھر دو ڈھائی سال کی محنت کے بعد وہ اقتدار سے رخصت ہوتا ہے تو دوبارہ عوام کے نزدیک مظلوم بن جاتا ہے۔ اور وہی عوام ایک بار پھر اس کے ساتھ مل جاتے ہیں اوراسے واپس کرسی دلانے کے لیے اپنی جان پر کھیل جاتے ہیں۔
یہ وہ دائرہ ہے جس میں آپ کو سری لنکا‘ بھارت‘ بنگلہ دیش اور پاکستان گھومتا ہوا ملے گا۔ اس دائرے میں عمران خان کی وجہ سے بشریٰ صاحبہ اب داخل ہوئی ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ بشریٰ صاحبہ اندرا گاندھی‘ خالدہ ضیا‘ حسینہ واجد‘ بینظیر بھٹو اور چندریکاکماراٹنگا وغیرہ کی لیگ میں شامل ہوں گی یا خان کی رہائی کے بعد گھر بیٹھ جائیں گی۔تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ جس کے دل میں لوگوں پر راج کرنے کی خواہش جاگی وہ پھر گھر نہ بیٹھا کیونکہ راج نیتی کا کھیل ہی ایسا ہے جس میں جان دی بھی جاسکتی ہے اور جان لی بھی جاسکتی ہے‘ اس کھیل میں واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔ پاکستان جیسے تھرڈ ورلڈ ممالک میں سیاست بھی اٹلی کے مافیا کی طرح ہے جہاں داخل ہونے کا دروازہ تو کھلا ہے مگر واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved