تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     27-11-2024

میرا جی‘ گوجرانوالہ اور بمبئی …(2)

آل انڈیا ریڈیو دہلی میں کئی نامور ادیب کام کر رہے تھے جن میں ن م راشد‘ کرشن چندر‘ سعادت حسن منٹو‘ چراغ حسن حسرت‘ اوپندر ناتھ اشک اور اختر الایمان شامل تھے۔ یہ سال تھا 1942ء کا‘ جب میرا جی لاہور سے دہلی پہنچا۔ لاہور چھوڑنا آسان نہ تھا‘ یہاں کے گلی کوچوں سے میرا جی کو محبت تھی۔ اس کے دوست احباب لاہور میں تھے۔ اس کی مجلسیں لاہور کی شاموں سے آباد تھیں لیکن میرا جی کو اپنے بہن بھائیوں اور ماں کا خیال تھا۔ ''ادبی دنیا‘‘ سے ملنے والے تیس روپے کی تنخواہ میں اب گزارا مشکل ہو گیا تھا۔ وہ خود تو ان پیسوں میں گزارا کر لیتا لیکن ماں اور بہن بھائیوں کی معاشی مدد کی خاطر اسے بہتر روزگار کے لیے لاہور چھوڑ کر جانا پڑا۔ دہلی اس کے لیے ایک اجنبی شہر تھا لیکن اسے یہ جان کر اطمینان ہوا کہ دہلی ریڈیو میں بہت سے ادیب اور شاعر کام کر رہے تھے۔ انہی میں جدید نظم کے سربلند شاعر ن م راشد تھے۔ ن م راشد ''ادبی دنیا‘‘ کے حوالے سے میرا جی کو جانتے تھے اور اس کی صلاحیتوں سے بخوبی آگاہ تھے۔ تنخواہ کی بات ہوئی تو میرا جی نے راشد سے کہا کہ اسے ڈیڑھ سو روپے کافی ہوں گے۔ بات طے ہو گئی اور یوں میرا جی کو آل انڈیا ریڈیو دہلی میں نوکری مل گئی۔ ان دنوں شاہد احمد دہلوی دہلی میں اپنا رسالہ ''ساقی‘‘ شائع کر رہے تھے۔ میرا جی کی ان سے شناسائی تھی۔ جب میرا جی سے ملاقات میں شاہد احمد دہلوی کو پتا چلا کہ میرا جی کو دہلی میں ریڈیو پر ملازمت مل گئی ہے تو وہ بہت خوش ہوئے لیکن جب انہیں پتا چلا کہ میرا جی کی تنخواہ ڈیڑھ سو روپے مقرر ہوئی ہے تو انہیں کچھ مایوسی ہوئی‘ جس کا اظہار انہوں نے میرا جی سے بھی کیا۔ میرا جی نے شاہد احمد دہلوی کی بات سنی تو ہنس کر کہا‘ یہ تنخواہ اس کے لیے کافی ہے کیونکہ ''ادبی دنیا‘‘ کی ملازمت میں تو اسے صرف 30 روپے ملتے تھے۔ یہ سن کر شاہد احمد دہلوی حیران رہ گئے۔ میرا جی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ڈیڑھ سو روپے میرے لیے کافی ہوں گے‘ ان میں سے پچاس روپے میں لاہور میں اپنی ماں کو بھیجوں گا‘ پچاس روپے اپنی بہن کو دوں گا جس کے گھر میں رہتا ہوں اور پچاس روپے اپنے گزارے کے لیے رکھوں گا۔ یوں دہلی ریڈیو پر میرا جی نے ذوق وشوق سے کام شروع کر دیا۔
ریڈیو کے لیے میرا جی نے بہت سے گیت لکھے۔ بعد میں ان سب گیتوں کو جمع کر کے کتابی شکل میں شائع کیا گیا‘ جس کا نام ''گیت ہی گیت‘‘ ہے۔ ریڈیو پر اس نے گفتگو کا ایک پروگرام شروع کیا جس میں فن کی دنیا کے اہم لوگوں سے گفتگو ہوتی تھی۔ کیسے کیسے نامور لوگوں نے اس پروگرام میں شرکت کی۔ ان میں فیض احمد فیض‘ استاد بڑے غلام علی خاں‘ عبدالمجید سالک اور ملکہ پکھراج جیسی معروف شخصیات شامل ہیں۔ میرا جی نے دیہات میں بسنے والوں کے لیے ایک پروگرام شروع کیا جس میں سادہ زبان اور دلچسپ اسلوب میں عام مسائل کے حوالے سے گفتگو کی جاتی۔
دہلی کے دن رات لاہور سے مختلف تھے۔ میرا جی اپنے گھر والوں سے جدا تھا جو لاہور میں رہ گئے تھے۔ شام کو وقت گزارنے کے لیے وہ اکثر شاہد احمد دہلوی کے گھر چلا جاتا جہاں شہر کے دوسرے ادیب بھی آتے تھے۔ لاہور اور دہلی کے شب و روز اس حوالے سے بھی مختلف تھے کہ لاہور کا زمانہ اس کے بے پناہ مطالعہ کا زمانہ تھا جس میں اس نے دنیا جہاں کے لکھنے والوں کو پڑھا۔ شاہد احمد دہلوی لکھتے ہیں ''میرا جی کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ سنا ہے کہ لاہور دیال سنگھ لائبریری وہ چاٹ چکے تھے۔ دلّی آ کر ان کے مطالعے کا شوق غرقِ مئے ناب ہو گیا‘‘۔
دہلی کے قیام کے دوران ریڈیو کے علاوہ میرا جی شاہد احمد دہلوی کے رسالے ''ساقی‘‘ میں مستقل لکھتا رہا۔ یوں میرا جی کی تخلیقات ادبی دنیا‘ ساقی‘ خیال‘ ہمایوں اور شیرازہ میں چھپ رہی تھیں۔ ایک طرف میرا جی شاعری کے میدان میں نئے رجحانات کو متعارف کرا رہا تھا تو دوسری طرف وہ اردو تنقید کو نئے زاویوں سے آشنا کرا رہا تھا۔ میرا جی کی شخصیت کا تیسرا رُخ اس کی ترجمہ نگاری تھی۔ میرا جی نے صرف 37 برس کی عمر میں انگریزی‘ فرانسیسی اور سنسکرت کی تحریروں کو اردو زبان میں منتقل کیا۔ شاعری‘ تنقید اور ترجمے کے میدان میں میرا جی کی تصانیف دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ اتنے مختصر عرصے میں اس نے اردو ادب کو معیار اور مقدار کے لحاظ سے کتنا ثروت مند بنا دیا۔
شعری تصانیف میں میرا جی کی نظمیں (1968ء)‘ کلیاتِ میرا جی (1998ء)‘ باقیاتِ میرا جی‘ گیت مالا شامل ہیں۔ تنقیدی اور تجزیاتی تصانیف میں مشرق ومغرب کے نغمے‘ نگار خانہ اور خیمے کے آس پاس شامل ہیں۔ میرا جی نے اپنی آپ بیتی بھی لکھنا شروع کی تھی لیکن مکمل نہ ہو سکی۔ پھر ایک دن ن م راشد ایران چلا گیا تو میرا جی کو یوں لگا کہ اس کی دنیا ویران ہو گئی ہے۔ اسے دہلی ریڈیو سٹیشن میں لانے میں ن م راشد کا بنیادی کردار تھا اور پھر دونوں کا ساتھ لاہور کا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایران جانے کے بعد ن م راشد کی حالت غیر ہو گئی تھی‘ وہ دھاڑیں مار مار کر روتا تھا۔
میرا جی پر لکھی گئی اکثر تحریریں اس کے ظاہری سراپا کے اردگرد گھومتی ہیں جن میں اس کے لمبے بال‘ نوکیلی مونچھیں‘ رنگین ٹیکا‘ گلے میں تعویذ اور منکوں کی مالا اور کانوں میں بڑے بڑے بالے شامل تھے۔ یہ میرا جی کا بہروپ تھا۔ اس نے اس بہروپ کو حقیقت کا درجہ دے دیا تھا۔ منٹو نے میرا جی پر لکھے ہوئے خاکے ''تین گولے‘‘ میں میرا جی کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے ''حسن‘ عشق اور موت‘‘ کی تکون کا حوالہ دیا ہے۔
میرا جی کو تلاشِ روزگار دہلی لے آئی تھی لیکن اس کا دل ہمیشہ لاہور میں اٹکا رہا۔ لاہور کے گلی کوچے اور دوست اسے بے طرح یاد آتے۔ وہ لاہور آنے جانے والوں سے تفصیل سے وہاں کے حالات پوچھتا‘ دوستوں کے بارے میں دریافت کرتا۔ دہلی آنے کے بعد صرف ایک بار وہ چند دنوں کے لیے لاہور گیا۔ یہ مختصر وقت گھر والوں‘ دوستوں سے ملنے اور لاہور کے گلی کوچوں کو دیکھنے کے لیے ناکافی تھا مگر روزگار کی زنجیر ا سے کھینچ کر واپس دہلی لے گئی۔ پھر اپنے محبوب شہر کو وہ دوبارہ نہ دیکھ سکا۔ آخری دنوں میں طبی بیماری کے ساتھ ساتھ وہ نفسیاتی آزار میں بھی مبتلا ہو گیا تھا۔ جب بیماری نے زور کیا تو اسے ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا جہاں 3 نومبر 1949ء کو میرا جی 37 برس کی عمر میں داغِ مفارقت دے گیا۔
اپنے آخری دنوں میں وہ لاہور کو بہت یاد کرتا تھا۔ اس نے کئی بار لاہور جانے کا پروگرام بنایا لیکن اس کا یہ خواب تعبیر میں نہ ڈھل سکا۔ نسیم الظفر لکھتے ہیں کہ میرا جی کہا کرتا تھا ''میری سب سے بڑی خواہش ہے کہ کچھ تھوڑا سا روپیہ جمع ہو جائے اور میں سب سے ظالم‘ سب سے پیارے شہر لاہور لوٹ جائوں جہاں میری بوڑھی شفیق ماں ہر وقت اپنے آوارہ بیٹے کو یاد کرتی ہے‘‘۔
ایک روز میرا جی نے دوستوں کو بتایا ''میں نے 2170 روپے جمع کر لیے ہیں۔ مکالمے اور گیت کے پانچ ہزار ایک پروڈیوسر کے ساتھ طے کیے ہیں۔ کل ایک ہزار پیشگی مل جائے تو میں ایک مہینے کے لیے لاہور چلا جائوں گا‘‘۔ لیکن اس کی یہ خواہش دل ہی میں رہی۔ ساری عمر اپنے گھر اور اپنے شہر سے دور‘ نگری نگری بھٹکنے والا مسافر ایک روز اپنے ہی گھر کا رستہ بھول گیا۔ (ختم)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved