تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     27-11-2024

عاجزانہ تجویز

اسلام آباد میں پل پل بدلتے منظر نامے کے پیشِ نظر اپنا لکھا ہوا بہت کچھ قلم زد کرنا پڑا۔ اب یہ ترمیم شدہ کالم آپ کی خدمت میں اس دعا کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے کہ جب آپ بدھ کے روز اسے ملاحظہ فرمائیں تو اُس وقت تک وفاقی دارالحکومت میں مفاہمت مزاحمت پر غالب آ چکی ہو اور حالات چین کی کروٹ لے چکے ہوں۔اس دوران ایک پولیس مین اور چار رینجرز اہلکار شہید ہو چکے ہیں۔ یہ جانی نقصان ایک قومی صدمہ ہے۔ پیر کی شب پی ٹی آئی کی قیادت اور حکومتی نمائندوں کے مابین مذاکرات کا ابتدائی دور ہوا جو کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکا۔ منگل کے روز تحریک انصاف کا قافلہ بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈا پور کی قیادت میں اسلام آباد سے زیرو پوائنٹ تک پہنچ چکا۔ حکومت نے اسلام آباد میں فوج طلب کر لی ہے۔ شنید ہے کہ فوج کے پاس انتشار پھیلانے والوں پر گولی چلانے کے بھی اختیارات موجود ہیں۔ گزشتہ چار پانچ روز کے درمیان ملک کو بے پناہ اقتصادی نقصان ہو چکا ہے‘ عملاً اسلام آباد سے سارا ملک کٹا ہوا ہے۔
ملک کی چھ بڑی موٹرویز مکمل طور پر بند ہیں اور ہزاروں کلومیٹر پر پھیلی ہوئی پنجاب کی سڑکیں نہ صرف اسلام آباد جانے کیلئے بند ہیں بلکہ ایک سے دوسرے شہر تک رسائی بھی ممکن نہیں۔ زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا مریض ایمبولینسوں میں بے حال نظر آئے۔ جو لوگ نہایت اہم میٹنگز اور سفارت خانوں میں ویزا انٹرویو دینے جا رہے تھے‘ وہ کہیں لاہور اور اسلام آباد کے درمیان محصور ہو کر رہ گئے۔ اسی طرح کراچی سے سارے پنجاب کیلئے پٹرول اور ڈیزل لانیوالے کنٹینروں کی سندھ اور پنجاب کی سرحد پر قطاریں لگ گئی ہیں‘ جس سے اسلام آباد‘ راولپنڈی‘ لاہور اور گوجرانوالہ بلکہ سارے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں پٹرولیم مصنوعات کی شدید قلت پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ چھوٹے شہروں اور دیہات سے بڑے شہروں کو بھیجی جانے والی اشیائے خورونوش مثلاً سبزیوں‘ پھلوں اور دودھ وغیرہ کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔
ہم تو بار بار ایسے دعائیہ کالم لکھتے رہے کہ حکومتِ وقت اور تحریک انصاف آپس میں مذاکرات کریں مگر فریقین نے کئی اطراف سے آنے والی ایسی تجاویز کو درخور اعتنا نہیں سمجھا‘ اور اب اسلام آباد میں سکیورٹی فورسز اور احتجاج کرنے والوں کے درمیان تصادم کے خطرات منڈلاتے محسوس ہوتے ہیں۔ کسی زمانے میں سیاسی جماعتیں چھوٹے بڑے شہروں میں دو چار گھنٹوں کے جلسوں اور جلوسوں میں اپنی قوت کا مظاہرہ کیا کرتی تھیں۔ وہ حکومتِ وقت کے سامنے اپنی بات خطیبانہ کمالات کے ساتھ پیش کیا کرتیں اور پھر مقررین و سامعین اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو جایا کرتے تھے۔ حکومت بھی جلسے جلوسوں کا اثر قبول کرتی اور کسی نہ کسی چینل کے ذریعے مذاکرات کا آغاز کر دیا کرتی تھی۔ حالیہ برسوں میں دھرنوں کے موجد عمران خان ہیں۔ انہوں نے 2014ء میں علامہ طاہر القادری کے ساتھ مل کر پاکستانی تاریخ میں 126 روزہ طویل ترین دھرنا دیا تھا۔ ہم اس وقت اس بحث کو ایک طرف رکھتے ہوئے کہ اس دھرنے میں بانی پی ٹی آئی کو کس کی سرپرستی حاصل تھی‘ آگے بڑھتے ہیں۔ پھر دھرنوں کی بدعت عام ہو گئی۔ کئی مذہبی و سیاسی جماعتوں نے اپنے مطالبات منوانے کیلئے اسلام آباد کے اندر یا اس کی حدود پر دھرنے دیے۔
اس وقت تحریک انصاف اور حکومت کے پاس اپنے اپنے رویوں کی توجیہات موجود ہیں۔ پی ٹی آئی والوں کا کہنا ہے کہ ہمیں آزادانہ سیاسی سرگرمیوں اور پُرامن احتجاج کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اس صورتحال میں ہمارے پاس ایک بھرپور دھرنے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں بچتا۔ حکمرانوں کا مؤقف یہ ہے کہ عوام اور حکومت کی حفاظت ہمارا اولین فرض ہے۔ ہم نے بہت زیادہ نرمی سے کام لیا ہے۔ حضرت علی المرتضیٰؓ کا قول ہے کہ مصیبت میں گھبراہٹ اس سے بڑی مصیبت بن جاتی ہے۔ حکومتِ وقت نے بروقت پیش بندی سے مذاکرات کی پیشکش کرنے کے بجائے گھبراہٹ سے کام لیا۔ بشریٰ بی بی کے مارچ کی قیادت سے مارچ کے شرکا سے زیادہ جوش و خروش دیکھنے میں آیا ہے۔ بشریٰ بی بی سیاست کی نزاکتوں سے ہرگز آگاہ نہیں‘ اس لیے یہ خدشہ اپنی جگہ موجود ہے کہ کہیں وہ تحریک انصاف کو کسی بند گلی میں لاکھڑا نہ کریں۔ دو طرفہ کشاکش سے پہلے سے لرزتی ہوئی معیشت کا بہت نقصان ہو رہا ہے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے سیاستدانوں کو متوجہ کرتے ہوئے بتایا کہ احتجاجی کال سے روزانہ 190 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ اس طرح ٹیکس وصولی میں کمی آتی ہے۔ امن برقرار رکھنے کیلئے سکیورٹی پر اضافی اخراجات آتے ہیں۔ کئی اور ماہرینِ اقتصادیات کا کہنا ہے کہ معیشت کا اس سے کہیں زیادہ خسارہ ہو رہا ہے جتنا وزیر خزانہ نے بیان کیا ہے۔ برآمدات کا یومیہ خسارہ چھ ارب جبکہ ٹیکس وصولی میں یومیہ 26 ارب روپے کی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس طرح اندرون اور بیرونِ ملک روانہ ہونے والی پروازوں میں بکنگ سے کہیں کم مسافر ہوائی اڈوں پر پہنچ رہے ہیں۔ جہازوں کے خالی جانے سے بھی ملک کو معاشی نقصان اور مسافروں کو لامحدود مشکلات کا سامنا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن ایوانوں سے باہر ایک دوسرے کو زورِ بازو دکھانے کے بجائے پارلیمنٹ میں واپس آئیں۔ سیاست اگر ایوان سے باہر ہو گی تو پارلیمنٹ کمزور ہو گی اور غیر جمہوری قوتیں ہی مضبوط تر ہوں گی۔ پارلیمنٹ کیسے مضبوط ہوگی؟ پارلیمنٹ کی طاقت کا راز حکومت اور اپوزیشن کے بہترین ورکنگ ریلیشن شپ میں مضمر ہے۔ حکومت اپنا احتساب کرے اور سوچے کہ وہ کتنی بااختیار ہے۔
دوبارہ عرض ہے کہ خان صاحب کو بھی سیاسی سوجھ بوجھ سے کام لینا پڑے گا۔ انہوں نے کوچۂ اقتدار سے باہر آکر سیاست ہی کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ کپتان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کھیل میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔ لہٰذا کسی وقتی شکست کے صدمے کو دل سے لگانا پڑتا ہے‘ جس طرح کرکٹ میں کرکٹ کے اصول و ضوابط کی پابندی کرنا ہوتی ہے۔ سیاسی ایوانوں سے باہر رہ کر کہیں اور امیدیں وابستہ کرنا نہ صرف سیاستدان کے شایانِ شان نہیں بلکہ اپنی منزل کھوٹی کرنے کے مترادف ہے۔
اس وقت امن وامان کی جو حالت بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں ہے‘ وہ ہم سب کیلئے تشویشناک ہے۔ گزشتہ دنوں بلوچستان میں قیامت ٹوٹتی رہی۔ کوئٹہ میں دس سالہ بچے محمد مصور کو اغوا ہوئے دو ہفتے ہو چکے ہیں‘ مگر ابھی تک مغوی بچے کو بازیاب نہیں کرایا جا سکا۔ دوسری طرف خیبر پختونخوا میں بیرونی دہشت گردی اور قبائلی جنگوں نے امن و امان کو تہ و بالا کر رکھا ہے۔ اس صورتحال کے تناظر میں پی ٹی آئی اور حکومت کے باہمی مذاکرات فوری طور پر ہونے چاہئیں۔ ہماری عاجزانہ تجویز یہ ہو گی کہ اس مقصد کیلئے قومی سطح پر ایک پانچ رکنی مفاہمتی کمیٹی مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں تشکیل دی جائے۔ اس کمیٹی میں مولانا کے علاوہ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری‘ سابق صدرِ مملکت جناب عارف علوی‘ محمود خان اچکزئی اور سردار ایاز صادق شامل ہوں۔ اس مصالحتی کمیٹی کا بنیادی ٹاسک یہ ہو کہ سیاستدان اپنے معاملات و مسائل باہمی گفت و شنید اور افہام و تفہیم سے حل کریں۔ اس ابتدائی مصالحت و مفاہمت کے بعد حکومت اور اپوزیشن اپنی اپنی باقاعدہ مذاکراتی ٹیمیں تشکیل دیں۔ حکومت اس بات کی ضمانت دے کہ وہ تحریک انصاف کے مطالبات بشمول عمران خان کی رہائی پر مثبت طرزِ عمل اختیار کرے گی۔ قومی سطح کی مصالحتی کمیٹی دہشت گردی کے عفریت کا خاتمہ کرنے کیلئے متفقہ قومی پالیسی بھی وضع کرے اور بدامنی کے شکار دونوں صوبوں میں امن و امان کے قیام کو یقینی بنائے۔ دیکھیے ہمارے دوستوں کو ہم سے زیادہ ہماری فکر ہے۔ پاک افغان کشیدگی کے خاتمے کیلئے چین متحرک ہو گیا ہے۔ ہم دعا گو ہیں کہ ہماری عاجزانہ تجویز حکمرانوں اور تحریک انصاف والوں کے دل میں اُتر جانے اور کامیابی سے ہمکنار ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved