تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     27-11-2024

زوالِ نعمت

اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کو جب اس زمین پر آباد کیا تو ان کیلئے زمین پر طرح طرح کی نعمتوں کو پیدا کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیت 29 میں ارشاد فرماتے ہیں ''وہ اللہ (ہی ہے) جس نے تمہارے لیے زمین کی تمام چیزوں کو پیدا کیا‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے زمین میں انسانوں کیلئے سامانِ ضرورت اور بہت سی سہولتوں کو پیدا فرمایا۔ چنانچہ انسان کے کھانے پینے‘ لباس اور رہن سہن کی جملہ ضروریات کو اسی زمین سے پورا کیا۔ ہر شخص انفرادی سطح پر اور معاشرے اجتماعی سطح پر ان نعمتوں کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ انسان کی جدوجہد کا ایک بڑا حصہ انہی نعمتوں کے حصول میں صرف ہوتا ہے۔ ان مادی نعمتوں کے ساتھ ساتھ ہر انسان امن‘ سکون‘ راحت اور خوشی کا بھی متلاشی ہے۔ کوئی بھی شخص غمگین نہیں رہنا چاہتا لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ بہت سی ہنستی بستی بستیاں اجڑ جاتی ہیں اور بہت سے لوگ مسرت اور اطمینان کی زندگی گزارتے گزارتے غم اور مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس زوالِ نعمت کا تجزیہ مختلف علوم کے ماہرین اپنے اپنے انداز سے کرتے ہیں۔
کتاب وسنت میں زوالِ نعمت کی بہت سی وجوہات کو بیان کیا گیا ہے جن میں ایک بڑی وجہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری ہے۔ شکر اور ناشکری کے تین درجات ہیں۔ شکر گزاری کا احساس سب سے پہلے انسان کے دل میں ہونا چاہیے‘ اس کے بعد اس کو زبان سے شکر ادا کرنا چاہیے اور تیسرا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے افعال واعمال سے بھی نعمتوں پر شکر ادا کرے۔ اسی طرح ناشکری کا آغاز بھی انسان کے دل سے ہوتا ہے اور انسان اللہ کی نعمتوں کو جھٹلاتا ہے۔ ناشکری کا دوسرا درجہ زبان سے ایسے الفاظ ادا کرنا ہے جن میں اللہ کی ناشکری ہو۔ تیسرا درجہ اپنے افعال واعمال سے ناشکری کرنا ہے جس کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ نعمتوں کو چھین لیتے ہیں۔ سورۃ الانفال کی آیت 53 میں ارشاد ہوا ''اللہ ایسا نہیں کہ کسی قوم پر کوئی نعمت انعام فرما کر پھر بدل دے‘ جب تک کہ وہ خود اپنی اس حالت کو نہ بدل دیں‘ جو اُن کی اپنی تھی‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ بلاسبب انسان سے نعمتوں کو نہیں چھینتے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے چودہویں پارے میں ایک بستی کا ذکر کیا جس کو اللہ نے تین بڑی نعمتوں سے نوازا تھا۔ سورۃ النحل کی آیت 112میں ارشاد فرمایا ''اللہ اس بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جو پورے امن واطمینان سے تھی‘ اس کی روزی اس کے پاس بافراغت ہر جگہ سے چلی آ رہی تھی‘ پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کا کفر کیا تو اللہ نے اسے بھوک اور ڈر کا مزہ چکھایا جو بدلہ تھا ان کے کرتوتوں کا‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انہیں خارج میں امن‘ داخل میں اطمینان اور رزق جیسی عظیم الشان نعمتیں میسر تھیں لیکن انہوں نے اپنی ناشکری کی وجہ سے ان نعمتوں کو کھو دیا۔ اس بستی کے واقعے میں انسانوں کیلئے عبرت کا بہت سا سامان موجود ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتیں کس انداز سے ناشکری کی وجہ سے زائل ہو جاتی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں سبا کی بستی کا بھی ذکر کیا۔ سورۂ سبا کی آیت 15میں ارشاد فرمایا ''قوم سبا کے لیے اپنی بستیوں میں (قدرتِ الٰہی کی) نشانی تھی‘ ان کے دائیں بائیں دو باغ تھے (ہم نے ان کو حکم دیا تھا کہ) اپنے رب کی دی ہوئی روزی کھائو اور اس کا شکر ادا کرو‘ یہ عمدہ شہر اور وہ بخشنے والا رب ہے‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو بہت سی نعمتیں دی تھیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ اللہ کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرتے لیکن افسوس کہ انہوں نے اعراض کیا۔ چنانچہ آیات 16اور 17 میں ارشاد ہوا ''لیکن انہوں نے روگردانی کی تو ہم نے ان پر زور کے سیلاب (کا پانی) بھیج دیا اور ہم نے ان کے (ہرے بھرے) باغوں کے بدلے دو (ایسے) باغ دیے جو بدمزہ میووں والے اور (بکثرت) جھائو اور کچھ بیری کے درختوں والے تھے۔ ہم نے ان کی ناشکری کا یہ بدلہ انہیں دیا۔ ہم (ایسی) سخت سزا بڑے بڑے ناشکروں ہی کو دیتے ہیں‘‘۔ ان آیات مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب انہوں نے نعمتوں سے اعراض کیا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان سے انعامات اور اکرام کو چھین لیا اور ان پر زوالِ نعمت کی کیفیت طاری ہو گئی۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ ابراہیم کی آیت 7 میں نعمتوں کی بڑھوتری کے سبب کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں ''اگر تم شکر گزاری کرو گے تو بیشک میں تمہیں زیادہ دوں گا‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگر انسان نعمتوں کی شکر گزاری کرے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نعمتوں کو بڑھا دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ النساء کی آیت 147 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اللہ تمہیں سزا دے کر کیا کرے گا؟ اگر تم شکر گزاری کرتے رہو اور باایمان رہو‘ (تو) اللہ بہت قدر کرنے والا اور پورا علم رکھنے والا ہے‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ایمان اور شکرکے راستے پر چلنے والوں پر اپنی گرفت نہیں فرماتے۔
اگر ہم مملکتِ خداداد پر غور کریں تو سمجھ میں آتا ہے کہ اللہ نے اس میں بہت سی نعمتوں کو سمو رکھا ہے۔ اس میں ہر طرح کے موسم موجود ہیں۔ اس کی زرعی زمینیں‘ سبزہ اور فصلیں اگاتی ہیں لیکن افسوس کہ ہم بہت سی نعمتیں ہونے کے باوجود اس وقت معاشی تنگی‘ افلاس اور بدامنی کا شکار ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کی ہے۔ ہم نے اپنی انفرادی زندگی میں بداعتقادی‘ فحاشی‘ اسراف اور تبذیر جیسے معاملات کو جاری و ساری کیا اور اپنی سیاسی زندگی میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکامات کو نظر انداز کرنے والے راستوں پہ چل رہے ہیں۔ اس ملک میں سود کا لین دین عام ہے‘ جسم فروشی کے اڈے اور منشیات فروشی کی تجارت بھی جاری ہے۔ ایسے عالم میںاگر ہم بدامنی اورا فلاس کا شکار ہیں تو اس کی بنیادی وجہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری ہے۔ ہمارے ملک میں بالعموم معاملات کو بہتر بنانے کیلئے کسی مخصوص لیڈر یا مخصوص جماعت کے برسرِ اقتدار آنے کی بات کی جاتی ہے اور اس سے بڑی بڑی توقعات وابستہ کی جاتی ہیں لیکن اس بات کا مشاہدہ کرنا کچھ مشکل نہیں کہ گزشتہ کئی عشروں کے دوران بہت سی حکومتیں آئیں اور مختلف رہنمائوں کو موقع ملنے کے باوجود بھی ملک کے حالات میں خاطر خواہ بہتری نہیں آئی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم ناشکری کے راستے پر چل رہے ہیں۔ جب تک ہم شکر گزاری کا راستہ نہیں اپنائیں گے اور اپنے معاملات کی اصلاح نہیں کریں گے‘ اس وقت تک زوالِ نعمت سے نجات حاصل نہیں کر سکتے۔ ہمیں اپنے معاملات کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے لیکن اس کیلئے جس بصیرت کی ضرورت ہے اس سے عمومی اعتبار سے ہمارے سیاسی رہنما اور قائدین محروم ہیں۔ عوام الناس کی بھی اس حوالے سے مؤثر تربیت کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں قوموں کے عروج وزوال کے اسباب کو بڑے ہی احسن طریقے سے بیان کر دیا ہے لیکن افسوس کہ ہم ان باتوں پر غور و فکر کرنے پر آمادہ و تیار نہیں۔ حضرت علامہ اقبالؒ نے بجا طور پہ کہا تھا:
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
زوالِ نعمت سے چھٹکارا اور اللہ کی بے پایاں نعمتیں حاصل کرنے کے لیے ہمیں شکر گزاری کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ انفرادی‘ معاشی‘ معاشرتی اور سیاسی مسائل کے حل کی یہ بہت اہم تدبیر ہے‘ جس پر توجہ دینے کی اربابِ اختیار واقتدار کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی ضرورت ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو بصیرت سے بہرہ ور فرمائے‘ آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved