تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     28-11-2024

معیشت: حکومت کیا کرے؟ …(13)

دوسرا شعبہ ہے صنعت کا۔ صنعتی شعبے پر ہنگامی بنیادوں پر توجہ دے کر معیشت کے زوال کے عمل کو روکا جا سکتا ہے۔ حکومت کا ہدف پہلے معیشت کی زوال پذیری کو روکنا اور پھر بتدریج اسے آگے بڑھانا اور ترقی دینا‘ یعنی استحکام کے گراف کو بلند کرنا ہونا چاہیے۔ صنعتی ترقی کا براہِ راست تعلق زرعی ترقی سے ہے۔ گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ حکومت کو زرعی پیداوار میں اضافے کو ترجیح دینا چاہیے کیونکہ یہ زراعت ہی کا شعبہ ہے جو قومی معیشت کو فوری سہارا فراہم کر سکتا ہے۔ زراعت میں بھی چار فصلوں کو اہمیت حاصل ہونی چاہیے: گندم‘ گنا‘ کپاس اور دھان۔ گندم اور دھان کی پیداوار میں اضافہ ہمیں خوراک میں خودکفیل بنائے گا۔ گنا ہماری چینی کی ضروریات پوری کرے گا جبکہ کپاس کی پیداوار بڑھنے سے ٹیکسٹائل سیکٹر کو بُوسٹ ملے گا۔ سرپلس پیداوار عالمی منڈی میں فروخت کر کے زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ سرپلس پیداوار نہ بھی ہو تو خوراک میں خود کفیل ہو کر کم از کم اس زرِ مبادلہ کو بچایا جا سکتا ہے جو خوراک کے طور پر استعمال ہونے والی اشیا کی درآمد پر خرچ ہوتا ہے۔ امسال مئی میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق اگست 2023ء سے مارچ 2024ء تک کے آٹھ مہینوں میں 330 ارب روپے کی گندم درآمد کی گئی۔ سابق وفاقی نگران حکومت کے دور میں 250 ارب روپے مالیت کی 28 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی تھی جبکہ موجودہ وفاقی حکومت نے 80 ارب روپے مالیت کی سات لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کی تھی۔
کپاس کی بات کی جائے تو آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے مطابق ٹیکسٹائل انڈسٹری کو سالانہ تقریباً سوا کروڑ کپاس کی گانٹھوں کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ پیداوار صرف 70 سے 90 لاکھ گانٹھیں ہے۔ (یاد رہے کہ کپاس کی ایک گانٹھ کا وزن 170 کلو گرام ہوتا ہے‘ تاہم مختلف ممالک میں کپاس کی ایک گانٹھ کا وزن مختلف بھی ہوتا ہے مثلاً امریکہ میں ایک گانٹھ کپاس سے مراد 500 پاؤنڈز کپاس ہوتا ہے) یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ ہمارے ملک میں کپاس کی پیداوار میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ اس تخفیف کی رفتار کتنی زیادہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2012ء میں پاکستان میں کپاس کی پیداوار ایک کروڑ 35 لاکھ گانٹھیں تھی جو آج کی ملکی مکمل ضرورت سے دس لاکھ گانٹھیں زیادہ ہے‘ لیکن گزشتہ دس سالوں میں پیداوار بڑھنے کے بجائے 50 فیصد تک کم ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان آج امریکی کپاس کا سب سے بڑا خریدار بن چکا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق امسال کم و بیش گیارہ لاکھ 92 ہزار کپاس کی گانٹھیں امریکہ سے درآمد کی گئی ہیں اور پوری دنیا کے دس سے زیادہ ممالک سے 30 سے 35 لاکھ گانٹھیں درآمد کرنے کے معاہدے ہو چکے ہیں جبکہ ملکی ضرورت پوری کرنے کے لیے 55 لاکھ گانٹھیں درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم صرف کپاس کی درآمد پر کتنا سرمایہ خرچ کر رہے ہیں حالانکہ یہ مقامی طور پر بہ آسانی اگائی جا سکتی ہے۔ اس وقت صرف دھان اور گنے کی فصلیں ایسی ہیں جو ملک کے لیے تھوڑا بہت زرِ مبادلہ کما رہی ہیں۔ سٹیٹ بینک اور ادارۂ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق جاری مالی سال کے پہلے چار ماہ میں چاول کی برآمدات سے ملک کو 90 کروڑ 20 لاکھ ڈالر زکا رِمبادلہ حاصل ہوا جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں تقریباً 34 فیصد زیادہ ہے۔ اسی طرح چینی کی برآمد سے بھی کچھ زرِ مبادلہ حاصل ہوا ہے۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا‘ زراعت کے ساتھ ساتھ صنعتی شعبہ ایسا ہے جو ملک کو کچھ کما کر دے سکتا اور زرِ مبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی صنعت ٹیکسٹائل تصور کی جاتی ہے۔ ٹیکسٹائل کو اگر مقامی (سستا اور معیاری) خام مال میسر آ جائے‘ توانائی کے کچھ سستے ذرائع مل جائیں تو برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ممکن ہے‘ لیکن مسئلہ پھر وہی آ جاتا ہے کہ نہ خام مال وافر میسر ہے اور نہ توانائی کے ذرائع ہی سستے دستیاب ہیں۔ حکومت اگر اگلے دو برسوں میں کپاس کی پیداوار بڑھائے اور صنعتوں کو سستی بجلی مہیا کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک کو درپیش معاشی مسائل کا حل نہ نکل سکے۔ ان خبروں میں تیزی آتی جا رہی ہے کہ فوسل فیول کے زیر زمین ذخائر سکڑ رہے ہیں اور اگر ان کے استعمال کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا یا آنے والی دہائیوں میں ان کے استعمال میں اضافہ ہو گیا تو ایک وقت ایسا آئے گا جب سب گاڑیوں‘ جہازوں اور کارخانوں کے پہیے جام ہو جائیں گے۔ ایسی خبریں منظر عام پر آنے کے بعد نہ صرف توانائی کے متبادل ذرائع کے حصول کی کوششوں میں تیزی آئی ہے بلکہ ایسی توانائی پیدا کرنے کی کوششیں بھی ہو رہی ہیں جس کے حصول کے لیے کسی قسم کا ایندھن نہ جلانا پڑے۔وَٹس ایپ اور انسٹا گرام پر ایسی وڈیو ز آتی رہتی ہیں جن میں تجرباتی طور پر کسی ایندھن کے استعمال کے بغیر بجلی پیدا کی جا رہی ہوتی ہے۔ ضروری نہیں کہ ساری ایجادات مغرب ہی میں ہوں‘ ایسی کوئی مشین‘ کوئی ماڈل پاکستان میں بھی بن سکتا ہے۔ حکومت کو ایسی کوششیں کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ ہو سکتا ہے کوئی چمتکار ہو ہی جائے۔ وفاقی ادارۂ شماریات کے مطابق اگست 2024ء میں ٹیکسٹائل کی برآمدات 13 فیصد اضافے کے ساتھ ایک ارب 64 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئیں جبکہ اگست 2023ء میں یہ ایک ارب 46 کروڑ ڈالر تھیں۔ اس کو مزید بڑھایا جا سکتا ہے۔
توانائی کی بات آئی ہے تو حکومت کو آئی پی پیز کے ساتھ بات چیت کے سلسلے کو آگے بڑھانا چاہیے تاکہ سستی بجلی کا حصول ممکن ہو سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بہت ضروری ہے کہ مہنگے اور قومی معیشت کے لیے جان لیوا معاہدے کرنے والوں کی نشاندہی کی جائے تاکہ عوام بھی ان چہروں کو پہچان سکیں جو عوام دوستی کے روپ میں عوام کشی کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے۔ ایک ترقی پذیر ملک کے غریب عوام ایسی پالیسیوں کے کیسے متحمل ہو سکتے ہیں جن میں یہ شرط رکھی گئی ہو کہ بجلی پیدا کرنے والا ایک یونٹ‘ چاہے ایک یونٹ بھی بجلی پیدا نہ کرے‘ مقررہ میعاد میں حکومت کو اسے طے کردہ قیمت ہر صورت میں ادا کرنا ہے؟ ملک اور قوم کے ساتھ اس سے بڑی غداری اور اس سے کھلی دشمنی بھی کوئی ہو سکتی ہے؟ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ جن آئی پی پیز کے معاہدوں کی مدت ختم ہو رہی ہے‘ ان کو نئے معاہدوں میں داخل نہ کیا جائے اور بتدریج ان سے نجات حاصل کی جائے۔ علاوہ ازیں سولر پینلز سے بجلی کے حصول کی پالیسی کو مزید آسان بنایا جائے۔ پاکستان میں موبائل فون بنانے والی کمپنیوں کو موبائل فون بنانے کی اجازت دی گئی۔ یہ ایک خوش آئند پیشرفت ہے اور اس کی ضرورت بھی تھی‘ لیکن اصل ضرورت یہاں مقامی سطح پر سولر پینل بنانے کے کارخانے لگانے کی ہے تاکہ ان سے سستی بلکہ ایک لحاظ سے مفت بجلی کا حصول ممکن بنایا جا سکے۔ پاکستان کے صنعتی یونٹ اگر سولر پینلز اور کچھ دوسرے ذرائع سے خود بجلی پیدا کر لیں اور کچھ حکومت ان کو سستی بجلی فراہم کر دے تو پاکستان کی مصنوعات کے لیے عالمی منڈیوں میں ترقی یافتہ ممالک کی مصنوعات کا مقابلہ کرنا مشکل نہیں رہے گا اور اس طرح ملکی برآمدات کا حجم اطمینان بخش حد تک بڑھایا جا سکے گا۔ اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ برآمدات میں اضافے کا مطلب زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved