سماجی تبدیلی نہ وقت اور نہ حکمران طبقات کبھی روک سکے ہیں‘ اور نہ یہ کسی کے بس کی بات ہے۔ وقت تو ایک گہرا سمندر ہے جس میں طغیانی بھی آتی‘ مدوجزر بھی‘ اور جب طوفان آئیں تو کوئی ان کے آگے بند نہیں باندھ سکتا۔ سماجی تبدیلیوں کو سب سے پہلے نوجوان لوگ ہر نئے آنے والے وقتوں میں اپنی سوچ‘ رہن سہن اور فکری رنگ ڈھنگ میں سمو لیتے ہیں۔ پرانی نسلوں کے بزرگ‘ بڑے اور سرکاری اداروں کا نظامِ تعلیم نوجوانوں کو پرانے سماجی رنگوں میں رنگنے کے سب آزمودہ نسخے استعمال کرتا ہے‘ مگر اثرات دھبوں کی صورت رہتے ہیں اور اکثر پرانا رنگ پھیکا پڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ وقت کا دھارا اس کی روشنائی آہستہ آہستہ مدہم کرتا رہتا ہے۔ گزشتہ صدی تو انقلابوں کی صدی تھی‘ جو نظریاتی اور فکری بہائو میں پوری دنیا کو بہا لے گئی۔ بنیادی بات یہ ہے کہ سماجی تبدیلی کا محرک معیشت‘ ٹیکنالوجی اور فرد کا ریاست کے ساتھ رشتہ ہے۔ آج بھی ہم ریاست کے کردار کو نیو لبرل ازم اور فرد کے خوابوں کی تعبیر یا ان کے بکھر جانے‘ اور ریاستوں کی سکت‘ استعداد اور فکری رجحانات کے پیمانے سے ناپتے ہیں۔ حکمران طبقات ان سب کو کنٹرول کرنے کی کامیاب یا ناکام کوشش کرتے ہیں۔
جمہوری معاشروں میں حکمران عوامی منشا سے اقتدار میں آتے ہیں اور ان کی تائید حاصل ہونے تک منصب پر موجود رہتے ہیں۔ ہماری اور ہمارے جیسی دیگر ریاستوں‘ جن میں سے ایک کا صدر بھاری بھرکم وفد کے ساتھ تحریک انصاف کے دھرنے کے ہنگاموں میں اس ہفتے پاکستان کا دورہ کر رہا تھا‘ کی صورتحال یہ ہے کہ حکمران عوام کی نمائندگی کے دعووں میں کھوکھلے ہیں‘ اور اقتدار کی جائزیت ہو یا اس کا پُرامن انتقال‘ اگر وہ نمائندگی کے اصول سے مرتب نہ ہوں تو ریاستی طاقت کا تواتر سے استعمال خوف‘ تشدد اور جبر واستبداد ہی وہ حربے باقی رہ جاتے ہیں جو حکمران استعمال کرتے آئے ہیں۔ یہ صرف ہماری کہانی نہیں‘ ہر اُس ملک کی ہے جہاں حکمرانوں کی جائزیت عوام کی نظروں میں اپنا وجود نہیں رکھتی‘ یا کبھی تھی تو اب کھو چکی ہے۔ یہ درست ہے کہ جہاں کبھی جمہوری روایت نہیں بن پائی‘ وہاں کی سماجی زمین میں اس کا بیج بونا آسان نہیں۔
ہمارے ملک کا تاریخ اور سماجی نظام وہ نہیں جو مشرق وسطیٰ میں ہے‘ اگرچہ تہذیبی لحاظ سے وہاں کا مذہبی رنگ ہمارے اوپر غالب ہے۔ ہماری سیاست‘ تاریخ اور نظام ریاست جنوبی ایشیا میں انگریزی دور میں اس زمانے کی اصلاحات‘ ترقی‘ جدیدیت اور سامراج مخالف سماجی اور سیاسی تحریکوں کے امین ہیں۔ آزادیٔ فکر‘ آئینی سیاست‘ سیاسی جماعتیں‘ انتخابات اور جمہوری حکومت کی جدوجہد کی یہاں مضبوط اور پرانی روایات ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا تضاد یہ ہے کہ عوام نمائندہ حکومت چاہتے ہیں جو ان کی امنگوں کی ترجمانی کرے اور ان کے مفادات کو پیش نظر رکھ کر قانون سازی کرے‘ امن وسلامتی قائم کرکے اور قانون اور انصاف کا نظام نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ روزگار‘ صحت‘ تعلیم اور ترقی کے لیے اقدامات کرے۔ اس کے برعکس اگر ہم سب نہیں تو اکثر‘ اپنی سابق اور موجودہ اتحادی حکومت کی فکری جہت‘ جو ہمیں تو کہیں نظر نہیں آتی‘ کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو سوائے طبقاتی‘ شخصی اور سیاسی خاندانی مفادات کی اولین تقدیم کے کچھ نظر نہیں آتا۔ اکثر پاکستان کے بحرانوں میں مسلسل پھنسے رہنے کی بات کرتے ہیں‘ اوراس بارے میں ایک نہیں‘ کئی ایک نقطہ نظر آپ نے ملاحظہ فرمائے ہوں گے۔ اس درویش نے ہمیشہ ایک نکتے پر زیادہ زور دیا ہے‘ اور وہ یہ ہے کہ حکمران طبقات عوام کے نمائندہ نہ کبھی تھے اور نہ اب ہیں۔ عوام اور ان طبقات کے درمیان حائل خلیج میں ہر آنے والے دور میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا ہے۔ ان طبقات میں کبھی صرف جاگیردار طبقات کا ایک حصہ ریاستی اداروں‘ جیسے نوکر شاہی اور سلامتی کے شعبے میں بااثر اور طاقتور ہو کر حکمرانوں کے ایک بڑے اتحاد کا حصہ بن چکا ہے‘ جس میں چند میڈیا ہائوسز‘ کچھ صنعتکار گھرانے اور نئے شہر بسانے والے نو دولتیے بھی شامل ہیں۔
میرے نزدیک حکمران طبقات کا یہ وسیع تر اتحاد قومی وسائل‘ ریاستی طاقت اور سیاسی نظام پر گزشتہ نصف صدی کے لگ بھگ‘ بلکہ اس سے بھی پہلے قبضہ کر چکا ہے۔ ایسے اتحادوں میں آپ طاقت کے توازن اور اس کے اندر غلبہ اور اثر صرف ان کا دیکھیں گے جن کے ہاتھوں میں ریاست کے کلیدی ادارے ہوں گے‘ یا ان پر کسی طرح سے گرفت حاصل کی جا چکی ہو گی۔ انقلاب جہاں بھی ہوں‘ ہر نوع کے ایسے انقلابوں نے ریاستی اداروں کو کنٹرول کرکے اپنے نظریات کے مطابق معاشروں کو ازسرنو ترتیب دیا۔ خیر بات تو ہمارے اپنے طبقات کی ہو رہی ہے‘ اور ان تضادات کی جو نمائندگی کے اصول پر اب ایک بہت بڑے قومی بحران کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ اس کا مظاہرہ آپ بار بار ملک کی سیاسی تاریخ میں دیکھتے آئے ہیں‘ اور وہی کچھ آپ نے آٹھ فروری کے انتخابات کی رات اور اگلے دن دیکھا‘ اور اس کے بعد آج تک دیکھ رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی ہم دیکھتے آئے ہیں کہ عوام کی منشا کچھ اور ہے اور حکمران طبقات کے مفادات کے تقاضے کچھ اور ہیں۔ میرے خیال میں جب تک ہم میں سے کوئی اس بنیادی اور تاریخی تضاد کو ختم نہیں کرے گا‘ یا ہم مجموعی طور پر بحیثیت قوم ایسا نہیں کر سکیں گے‘ جس کی سکت آج صرف نوجوانوں میں دیکھ رہا ہوں‘ یہ بحران کبھی ختم نہیں ہوگا۔ بے شک حکمران اتحاد کے کل پرزے میڈیا پر صبح و شام‘ دن رات لکھی ہوئی تحریریں جیبوں سے نکال کراستحکام اور ترقی کے بے سود اعلان کرتے رہیں۔
آنے والے مہینوں اور سالوں میں عوام اور حکمران طبقات کے درمیان تضاد کو آپ مزید گہرا‘ تلخ اور پُرتشدد ہوتا دیکھیں گے۔ اس کی ایک جھلک آپ نے دیکھ لی ہوگی۔ اگر آپ 26 نومبر کی رات کو اس مشہور چوک کے قریب تھے یا آپ نے ان صحافیوں کی سوشل میڈیا پر گفتگو سنی ہے جو وہاں پر مظاہرین کے ساتھ تھے۔ ایک معتبر انگریزی اخبار میں چار جوانوں کی اپنی آبائی بستیوں میں دفن ہونے کی خبر پڑھی تو اس سماجی تبدیلی پر یقین مزید بڑھ گیا جس کا تمہیداً ذکر کیا تھا۔ آج پاکستان میں ہمارا نوجوان سب سے زیادہ محروم‘ مظلوم اور بے بس نظر آتاہے کہ کسی کو ووٹ ڈالتا ہے تو اس کا شمار ہی نہیں ہوتا۔ نمائندہ حکومت کا خواب دیکھتا ہے تو نصف صدی سے پالے پوسے موروثی سیاسی خاندان ملک پر بار بار مسلط کر دیے جاتے ہیں۔ پُرامن احتجاج کرنے کے لیے سڑکوں پر نکلتا ہے تو راتوں رات قوانین بدل جاتے ہیں اور رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں‘ اور پابندیاں ایسی کہ جو شاید مارشل جوزف سٹالن نے بھی نہیں لگائی تھیں۔ حکم آتا ہے کہ سب ریستوران بند‘ ہاسٹلز خالی‘ بس اڈے بند‘ راستے بند‘ پھر بھی بھوک اور کڑاکے کی سردی میں نوجوان ہزاروں کی تعداد میں سب رکاوٹیں عبور کرکے اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں جو مارچ اور مظاہروں کے لیے شہرت حاصل کر چکا ہے۔ ہم نے کبھی نہ دیکھا اور نہ سنا کہ ہزاروں پُرامن مظاہرین پر کئی گھنٹوں تک اندھا دھند آنسو گیس کے گولے برسائے گئے ہوں اور گولیوں کی گونج سے علاقہ مکینوں کو کانوں کے پردے پھٹتے محسوس ہوں۔ حکمران طبقات اور عوام کے تضاد نے نوجوانوں کے جوش اور جذبے میں جو اضافہ کیا ہے‘ اس کے نتائج شدت پسندی‘ عسکریت پسندی اور مزید عدم استحکام کی صورت میں سامنے آ سکتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved