دہرایا کچھ بھی نہیں گیا‘ صرف تاریخ بنی ہے جس کے کچھ اوراق خون میں رنگے ہوئے ہیں اور باقی سیاہی میں۔ کالی رات میں روشنیاں بجھا کر جو لکھا جائے گا وہ کالا کرتوت کہلائے گا۔ اندھیرا کتنا ہی گہرا ہو روشنی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ اسی لیے اس وقت بھی ایک ورق مگر روشن ہے روشنی کے اونچے مینار کی طرح‘ جو اس تاریخ کے زندہ باب کے طور پہ ہمیشہ تابناک ہو کر چمکتا رہے گا۔ قیدی نمبر 804 دنیا کا وہ واحد سیاسی گرو ثابت ہوا جس کی ایک کال پر کرۂ ارض کے تمام براعظموں میں‘ 62 دارالحکومتوں اور شہروں میں ایک دن پُرامن احتجاج ہوا۔ ایسا بھرپور احتجاج جیسا ہر شہر اور ہر ملک ضمیر کے اس قیدی کا اپنا ہو۔ دوربین لگا کر بھی سیاسی تاریخ سے کسی دوسرے قیدی کی کوئی ایسی مثال نہیں ڈھونڈی جا سکتی۔ کل اسلام آباد پانچ دن بعد کھلا۔ بڑے راستوں کی سڑکیں کرش اُٹھانے والی مشینیں لگا کر کھڈے بنا دی گئی ہیں۔ شہرِ اقتدار جس رفتار سے کھلا‘ اس سے کئی گنا زیادہ رفتار سے اندھیری شب کے ظلم کی داستانیں بھی وِڈیو کلپس کے ذریعے کھل گئی ہیں۔ 26نومبر 2024ء کی شب کو لوگ کبھی نہیں بھولیں گے۔ اس لیے کہ یہ ملک قائداعظم کی قیادت میں پچھلی نسلوں نے ہمیں ورثے میں دیا تھا۔ سال 1971ء میں اس کے جغرافیے پر تلوار چلائی گئی اور قائداعظم کا ملک دو لخت کر دیا گیا۔ آج جو اس وراثت کے دعویدار ہیں‘ وہ نہ تو شریکِ سفر تھے اور نہ ان کا اپنا ورثہ اس سرزمین میں موجود ہے بلکہ وہ ورثہ آف شور کمپنیوں کے ذریعے کئی براعظموں میں پھیلا ہوا ہے۔ تقریباً 150 سال پہلے ساحر لدھیانوی کے قلم نے 'ورثہ‘ کے عنوان سے لافانی شاہکار تخلیق کیا۔ تب ہم ساکنانِ ہند تاجِ افرنگ کی غلامی میں تھے۔ انگریزی سامراج سے آزادی کے 77 سال بعد آج ہم ایلیٹ مافیا کے قبضے میں ہیں۔ انگریز کی دربانی اور قابض مافیا میں مماثلت ڈھونڈنے کیلئے ساحر کی سحر زدہ کر دینے والی نظم ورثہ میں اپنا آپ تلاش کرتے ہیں۔
یہ وطن تیری میری نسل کی جاگیر نہیں
سینکڑوں نسلوں کی محنت نے سنوارا ہے اسے
کتنے ذہنوں کا لہو‘ کتنی نگاہوں کا عرق
کتنے چہروں کی حیا‘ کتنی جبینوں کی شفق
خاک کی نذر ہوئی تب یہ نظارے بکھرے
جن پچھلی نسلوں نے تقسیمِ ہند اور آزادی مانگی تھی‘ اُن کے پیشِ نظر دو نظریے تھے۔ پہلا نظریہ مسلم اقلیت کی مذہبی آزادی سے متعلقہ تھا۔ جتنے مسلمان مشرقی اور مغربی پاکستان میں آزاد ہوئے ان سے دو گنا سے بھی زیادہ 1947ء کے بعد بھی بھارت میں غلامی کی زندگی گزارتے رہے۔ پچھلے دو دن سے کنٹینر پر چڑھ کر رب کے حضور جھکے ہوئے آزاد مسلمان کی وڈیو نے انٹرنیشنل میڈیا کے ذریعے ساری دنیا میں پاکستان کی نئی تصویر پیش کی ہے۔ تقسیمِ ہند کا دوسرا تصور معاشی آزادی لینا تھا۔
پتھروں سے تراشے ہوئے یہ اصنامِ جواں
یہ صداؤں کے خم و پیچ‘ یہ رنگوں کی زباں
چمنیوں سے یہ نکلتا ہوا پُر پیچ دھواں
تیری تخلیق نہیں ہے‘ میری تخلیق نہیں
ہم اگرضد بھی کریں اس پہ تو تصدیق نہیں
علم سولی پر چڑھا‘ تب کہیں تخمینہ بنا
زہر صدیوں نے پیا‘ تب کہیں نوشینہ بنا
سینکڑوں پاؤں کٹے‘ تب کہیں اک زینہ بنا
آج پاکستان کے آزاد نوجوان میرٹ پہ ڈگری لے سکتے ہیں‘ نوکری نہیں لے سکتے۔ یوں لگتا ہے جس طرح کوئی انہیں سبق دے رہا ہے کہ اس ملک میں تمہارا کوئی حصہ نہیں۔ اسی لیے پچھلے تین سال میں کوئی طبقہ ایسا باقی نہیں بچا جس کے لوگ ماورائے آئین اغوا نہ ہوئے۔ ان سب کا اجتماعی قصور اقوامِ عالم سے ہم قدم ہوکر باعزت زندگی کی ڈیمانڈ کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔
تیرے قدموں کے تلے یا میرے قدموں کے تلے
نوعِ انساں کے شب و روز کی تقدیر نہیں
یہ وطن تیری مری نسل کی جاگیر نہیں
سینکڑوں نسلوں کی محنت نے سنوارا ہے اسے
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اگر نظامِ عدل شہریوں کی مسلسل Un-checked اغواکاری کا سدِباب کرتا تو 26 نومبر کی خون آشام رات اس ملک کی تقدیر و تاریخ میں شامل نہ ہوتی۔
تیر اغم کچھ بھی سہی‘ میرا الم کچھ بھی سہی
اہلِ ثروت کی سیاست کا ستم کچھ بھی سہی
کل کی نسلیں بھی کوئی چیز ہیں‘ ہم کچھ بھی سہی
ان کا ورثہ ہوں کھنڈر‘ یہ ستم ایجاد نہ کر
تیری تخلیق نہیں جو اسے برباد نہ کر
ساحر لدھیانوی کا مخاطب گلوبل امپیرل ازم کا بانی سامراج تھا۔ ذرا غور سے دیکھیں تو اس ورثہ میں ہمیں بے وارث اور جعلی وارث کی تقسیم‘ ہمارا اصل مسئلہ کیا ہے‘ اس کی تفہیم سب کچھ نوشتۂ دیوار کی طرح نظر آرہا ہے۔
جس سے دہقان کو روزی نہیں ملنے پاتی؍ میں نہ دوں گا تجھے وہ کھیت جلانے کا سبق؍فصل باقی ہے تو تقسیم بدل سکتی ہے؍ فصل کی خاک سے کیا مانگے گا جمہور کا حق؍پل سلامت ہے تو تُو پار اتر سکتا ہے؍چاہے تبلیغِ بغاوت کے لیے ہی اُترے؍ ورنہ غالبؔ کی زباں میں مرے ہمدم‘ مرے دوست؍دامِ ہر موج میں ہے حلقہ صد کامِ نہنگ؍ سوچ لے پھر کوئی تعمیر گرانے جانا؍ تیری تعمیر سے ہے جنگ کہ تخریب سے جنگ؍اہلِ منصب ہیں غلط کار تو اُن کے منصب؍ تیری تائید سے ڈھالے گئے تُو مجرم ہے؍میری تائید سے ڈھالے گئے میں مجرم ہوں؍پٹریاں ریل کی‘ سٹرکوں کی بسیں‘ فون کے تار؍ تیری اور میری خطاؤں کی سزا کیوں بھگتیں؍ان پہ کیوں ظلم ہو جن کی کوئی تقصیر نہیں؍ یہ وطن تیری میری نسل کی جاگیر نہیں؍سینکڑوں نسلوں کی محنت نے سنوارا ہے اسے؍تیرا شکوہ بھی بجا‘ میری شکایت بھی درست؍ رنگِ ماحول بدلنے کی ضرورت بھی درست؍کون کہتا ہے کہ حالات پہ تنقید نہ کر؍حکمرانوں کے غلط دعووں کی تردید نہ کر؍تجھے اظہارِ خیالات کا حق حاصل ہے؍ اور یہ حق... کوئی تاریخ کی خیرات نہیں؍ تیرے اور میرے رفیقوں نے لہو دے دے کر؍ظلم کی خاک میں اس حق کا شجر بویا تھا؍سالہا سال میں جو برگ و ثمر لایا ہے
26 نومبر کو مسئلہ حل نہیں ہوا‘ شروع ہوا ہے۔ فیصلہ سازوں سے پوچھنا یہ تھا کہ موٹرویز اور ہائی ویز کی مرمت مکمل ہو گئی ہے یا ابھی کچھ بقایا ہے۔ 26 نومبرکے بعد خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں مسجدوں سے ہونے والے اعلانات کی آواز یہاں تک نہیں پہنچ رہی‘ جیسے اس سے پہلے بھی نہیں پہنچی تھی۔26نومبر کو استحکام کا جو اہتمام کیا گیا وہ اتنا ہی سچ ہے جتنا سینئر صحافی مطیع اللہ جان سے آئس کی برآمدگی۔ آزادی کے تین عشرے بعد احمد فراز نے بھی ''اے میرے سارے لوگو‘‘ کے ذریعے ہمیں یہ وارننگ دے رکھی ہے:
اب مرے دوسرے بازو پہ وہ شمشیر ہے جو
اس سے پہلے بھی مرا نصف بدن کاٹ چکی
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved