تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     29-11-2024

وزیر داخلہ کی کامیاب حکمتِ عملی

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے بانی تحریک انصاف کی فائنل کال ناکام بنادی ہے۔ خیبر پختونخوا کے چند ہزار ورکروں کے علاوہ کہیں سے کوئی احتجاجی اسلام آباد نہیں پہنچا۔ بالخصوص پنجاب کے کسی ضلع سے کوئی احتجاجی جلوس اسلام آباد نہیں پہنچ سکا۔ وفاقی حکومت کی اولین کوشش تو یہی تھی کہ تحریک انصاف کا لانگ مارچ وفاقی دارالحکومت میں داخل نہ ہو سکے لیکن جب یہ مارچ اسلام آباد میں داخل ہوا تو حکومت کی جانب سے معاملات کو بات چیت کے ذریعے سلجھانے کی کوشش کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو سنگجانی کے مقام پر دھرنے کی پیشکش کی گئی۔ شنید ہے کہ اڈیالہ جیل سے بھی اس پیشکش کو قبول کر لیا گیا تھا لیکن مارچ کے منتظمین کی طرف سے اس پیشکش کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا گیا اور مارچ میں شامل افراد کو ڈی چوک پہنچ کر وہاں دھرنا دینے کی ہدایت کی گئی۔ اُس کے بعد وفاقی دارالحکومت میں جو بھی واقعات رونما ہوئے‘ اُن سے سبھی آگاہ ہیں۔
ملک کی موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت باہمی تعاون سے قومی معیشت کی بحالی کیلئے جو امید افزا اور نتیجہ خیز اقدامات کر رہی ہے‘ ان کی کامیابی اسی صورت ممکن ہے جب ملک میں امن و امان قائم ہو کیونکہ امن و امان کے بغیر مقامی اور بیرونی سرمایہ کار سرمایہ کاری نہیں کرتے۔ ہر باشعور‘ حساس اور درد مند پاکستانی کیلئے یہ بات باعثِ تشویش ہے کہ ایک طرف ملک دشمن طاقتوں کی جانب سے دہشت گردی کی وارداتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں‘ کُرم اور پارا چنار میں فرقہ واریت کے خون ریز واقعات بھی سنگین صورت اختیار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان حالات کے پیشِ نظر تمام سیاسی جماعتوں اور صوبائی حکومتوں کو دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نمٹنے کیلئے مشترکہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے لیکن یہاں ایک سیاسی جماعت سیاسی مفادات کی لڑائی میں ملکی مفادات اور قومی استحکام کو پس پشت ڈال چکی ہے۔ کرم ایجنسی کے ناخوشگوار واقعات کے بعد‘ جو خیبرپختونخوا میں رونما ہوئے تھے‘ پی ٹی آئی‘ بالخصوص خیبرپختونخوا حکومت کو فائنل کال کے فیصلے سے رجوع کرتے ہوئے اپنی تمام تر توجہ صوبائی صورتحال پر مرکوز کرنی چاہیے تھی‘ لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور کرم میں صورتحال ابھی تک کشیدہ ہے۔
دوسری طرف جب پی ٹی آئی کا مارچ اسلام آباد کی جانب رواں دواں تھا‘ اور پھر ڈی چوک پہنچنے کے بعد جو کچھ ہوا‘ وزیراعظم شہباز شریف منظر نامے سے غائب رہے۔ وزیراعظم کی اس لاتعلقی سے کئی سوالات نے جنم لیا۔ کئی وفاقی وزرا بھی اس صورتحال سے لاتعلق دکھائی دیے۔ صرف وزیرداخلہ محسن نقوی ہی اس ساری صورتحال کو متحرک طریقے سے سنبھالتے نظر آئے۔ حالیہ واقعات اور ان واقعات میں حکومت میں شامل افراد کے طرزِ عمل سے کئی نتائج نکل رہے ہیں‘ مثلاً یہ کہ وفاقی کابینہ برائے نام رہ گئی ہے اور سول بالادستی ختم ہوچکی ہے۔ اگر بین الاقوامی تناظر میں دیکھا جائے توحکومت کی طرف سے تحریک انصاف کے مارچ کو اسلام آباد میں داخل ہونے سے روکنے کیلئے جگہ جگہ لگائی گئی رکاوٹوں سے عمران خان کو اخلاقی ریلیف ملا ہے۔ اسلام آباد میں مقیم غیر ملکی سفارت کاروں نے اپنے اپنے ملک کو آگاہ کیا ہو گا کہ کیسے تحریک انصاف کے خوف سے پورا ملک جام کردیا گیا۔ ماضی میں احتجاج کرنے والی سیاسی جماعتیں ملک کو بند کراتی تھی لیکن اس دفعہ خود حکومت نے یہ کام کیا ہے۔ بظاہر اس بار بھی تحریک انصاف اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکی اوراس کے مظاہرین اپنے مطالبات منوائے بغیر اسلام آباد سے واپس لوٹ گئے‘ لیکن اس کے باوجود عمران خان دنیا کے سامنے اپنا موقف رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔
تحریک انصاف کی فائنل کال کی کامیابی اور ناکامی‘ اور حکومت کی اسے روکنے کی حکمت عملی میں کامیابی اور ناکامی کی بحث سے قطع نظر‘ اس احتجاج اور اسے روکنے کیلئے شاہراہوں کی بندش کی وجہ سے ملکی معیشت کو روازنہ کی بنیاد پر 190 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ احتجاجوں کی وجہ سے براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری متاثر ہوتی ہے‘شاہراہوں کی بندش کے باعث خام مال کی ترسیل متاثر ہونے سے صنعتی یونٹس بھی بندش کا شکار ہو جاتے ہیں جس کا نتیجہ پیداوار اور برآمدات میں کمی کی صورت میں نکلتا ہے۔ جلسے جلوسوں اور احتجاجوں سے دیگر کاروباری سرگرمیاں بھی متاثر ہوتی ہیں۔ آئی ٹی اور ٹیلی کام کے شعبے میں ہونے والا نقصان اس کے علاوہ ہے۔ احتجاج کے دوران امن و امان کا قیام یقینی بنانے کیلئے سکیورٹی پر بھی اضافی اخراجات آتے ہیں۔لہٰذا سیاسی کشیدگی کا حل افہام و تفہیم سے نکالا جانا چاہیے کیونکہ ایسا نہ کرنے کا مطلب تباہی کے راستے پر پیش قدمی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
ملک کو مزید تباہی اور خون ریزی سے بچانے کیلئے مقتدرہ‘ چیف جسٹس آف پاکستان‘ چاروں صوبوں‘ اسلام آباد‘ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کو اعلیٰ سطحی میٹنگ کا اہتمام کرنا چاہیے۔اس میٹنگ میں آئینی بنچوں کے سربراہوں کو بھی شریک کیا جانا چاہیے‘ جہاں سب فریقوں کو مل کر ملک کے مستقبل کا قومی لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے۔ اس گرینڈ میٹنگ میں سیاسی رہنمائوں کو شامل نہیں کرنا چاہیے کیونکہ سیاسی رہنماؤں کی وجہ سے اکثر معاملات متنازع ہو جاتے ہیں‘ قومی نوعیت کے معاملات میں بھی سیاسی رہنما سیاسی مفادات کو ہی مقدم رکھتے ہیں۔ دیکھا جائے تو اس وقت دو متحارب سیاسی گروہ ایک دوسرے کی اَنا کا امتحان لے رہے ہیں۔ کوئی بھی جھکنا نہیں چاہتا اور اس کشمکش میں سراسر نقصان ملک اور عوام کا ہو رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ سول بالادستی کیلئے کون پہلے لچک دکھاتا ہے اور درمیانی راستہ نکالنے کیلئے پہل کون کرتا ہے۔یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف کی فائنل کال کا عوام کو کیا فائدہ ہوا ہے؟ عوام کے مسائل تو جوں کے توں ہیں۔ جب سیاسی جلسے جلوسوں میں عوامی مسائل کا ذکر ہی نہیں کیا جائے گا تو ان کے حل کی کوشش کیسے کی جائے گی۔ سیاستدانوں کے اس طرزِ عمل کی وجہ سے عوام اُن سے مایوس ہوچکے ہیں اور اپنی اُمیدیں مقتدرہ سے وابستہ کر چکے ہیں۔
سہیل وڑائچ صاحب نے اپنے ایک حالیہ کالم میں عوام کی مایوسی کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ''الیکشن 2024ء سے پہلے ایسا نہیں تھا‘اُن کی امیدیں سیاسی جماعتوں سے وابستہ تھیں۔پنجاب کے دس بڑے صنعتکاروں نے الیکشن سے پہلے ایک کنسورشیم بنایا اور ہر ایک نے فی کس دس کروڑ روپے ڈالے اور پھر گروپ کی شکل میں جا کر نواز شریف کو الیکشن کیلئے ایک ارب روپے کی خطیر رقم پیش کی۔ اس کنسورشیم میں زیادہ تر (ن) لیگ کے حامی تھے مگر وہ بھی تھے جنہیں یہ امید تھی کہ (ن) لیگ آئے گی تو معیشت بہتر ہوگی اور بڑے بڑے فیصلے ہوں گے لیکن کاروباری طبقہ اب (ن) لیگ کی طرف نہیں بلکہ مقتدرہ کی طرف متوجہ ہے‘‘۔اگر واقعی ایسا ہے تو یہاں یہ آئینی اور قانونی سوال اٹھتا ہے کہ جب دس صنعتکاروں کے کنسورشیم نے نواز شریف کو ایک ارب کی خطیر رقم کا عطیہ دیا تو کیا (ن)لیگ کے اُس وقت کے صدرشہباز شریف نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مطلع کیا تھا کیونکہ الیکشن ایکٹ 2017ء کے مطابق پارٹی کو اس طرح کے عطیات ملنے کی اطلاع الیکشن کمیشن کو بھجوانا ہوتی ہے اور پارٹی کے سالانہ گوشواروں میں بھی اس کا ذکر کرنا الیکشن ایکٹ کے مطابق لازمی ہے۔نواز شریف کو بھی چاہیے تھا کہ ایک ارب روپے کی خطیر ملنے پر الیکشن کمیشن کو مطلع کرتے۔بہر حال اب یہ الیکشن کمیشن پر منحصر ہے کہ وہ اس معاملے پر قانون کے مطابق نواز شریف کو نوٹس بھجواتا ہے یا نظر انداز کر دیتا ہے۔الیکشن سے ایک روز قبل اخبارات میں '' وزیراعظم نواز شریف‘‘ کے اشتہارات لگوائے گئے تھے جو الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کے منافی ہے۔ میری اطلاع کے مطابق مقتدر حلقوں نے اس اشتہاری مہم کو پسند نہیں کیا تھا اور جب حکومت سازی کا فیصلہ ہو رہاتھا تو شہباز شریف کو آگے لایا گیا اور پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا فیصلہ بڑی مشکل سے نواز شریف نے مریم نواز کے حق میں کرایا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved