تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     29-11-2024

بیرونِ ملک قیام کی یادیں! …(1)

پاکستان کے لاکھوں لوگ بیرونِ ملک مقیم ہیں۔ کئی ملکوں میں جہاں شہریت مل سکتی ہے‘ انہوں نے وہاں کی شہریت لے رکھی ہے۔ کچھ دیگر ملکوں میں ملازمت کے بعد واپس پاکستان آ جاتے ہیں۔ مجھے جوانی میں بیرونِ ملک رہنے کا اتفاق ہوا۔ میں کسی روزگار یا ملازمت کے لیے نہیں بلکہ مولانا مودودیؒ کے حکم پر ایک اسلامی تنظیم اور اس کے تحت چلنے والے مختلف اداروں کی دیکھ بھال کے لیے کینیا گیا تھا۔ وہاں مجھے کام کا جو موقع ملا اسے میں نے اپنی ڈائری میں محفوظ کر رکھا ہے۔ ان بارہ سالوں میں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ بعض یادگار واقعات بھی آنکھوں کے سامنے آئے۔
چند یادگار واقعات میں سے ایک واقعہ کینیا کے بابائے قوم اور پہلے صدر جناب جومو کنیاٹا(Jomo Kenyatta) سے متعلق ہے۔ جومو کینیا کے سب سے بڑے قبیلے کیکویو (Kikuyu)سے تعلق رکھتے تھے۔ انگریزوں کے استعمار کے خلاف گزشتہ صدی کے پہلے نصف میں ایک بہت بڑی عوامی تحریک چلی جسے سواحلی زبان میں ''مائو مائو‘‘ تحریک کہا جاتا ہے۔ اس تحریک نے غیر ملکی استعمار کے خلاف عوام کے اندر بہت بڑی بیداری پیدا کی۔ جومو کنیاٹا اس تحریک کے روح رواں تھے۔ جومو برطانیہ‘ امریکہ اور روس کے مختلف اداروں میں پڑھتے رہے تھے اور ان کا مطالعہ اور معلومات کافی وسیع تھیں۔ ان کا زورِ خطابت بھی مثالی تھا۔ انگریزوں نے ان پر بغاوت کا مقدمہ بنایا اور جیل میں ڈال دیا۔ کافی عرصہ یہ کیس چلتا رہا‘ لیکن تحریک ختم ہونے کے بجائے تیز تر ہوتی چلی گئی۔
1963ء میں انگریزی استعمار نے سمجھ لیا کہ اب عوام قابو میں نہیں آئیں گے تو انہوں نے کینیا کو آزادی دینے کا فیصلہ کر لیا۔ آزادی کے بعد جوموکنیاٹا پر بغاوت کا مقدمہ ختم ہوا اور وہ جیل سے باہر آگئے اور ملک کے پہلے وزیراعظم اور کچھ ہفتوں کے بعد پہلے صدر منتخب ہوئے۔ اب ملک میں صدارتی نظام اور ون پارٹی رول قائم کیا گیا۔ جوموکنیاٹا حکومت کی خوبیاں اور خامیاں اب تاریخ کا حصہ ہیں‘ جن کا تجزیہ ان کی زندگی میں ہوتا تھا اور وفات کے بعد بھی ہوتا رہتا ہے۔ آنجہانی جومو کنیاٹا نے کینیا پر 1964ء سے 1978ء اپنی وفات تک‘ تقریباً 14سال بلا شرکتِ غیرے حکومت کی۔ ان کا رعب و دبدبہ بھی تھا‘ مگر اس کے ساتھ عوامی مقبولیت بھی بہت تھی۔ ہم یہاں جس بات کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں وہ ان کے قرآن اور بائبل کے بارے میں تصورات و خیالات ہیں۔
جب سواحلی زبان میں قرآن پاک کا ترجمہ مکمل ہوا تو کچھ عرصے کے بعد ایوانِ صدر میں ایک تقریب میں صدر کی خدمت میں وہ ترجمہ پیش کیا گیا۔ صدر کنیاٹا نے اس سے پہلے بھی قرآن کا انگریزی ترجمہ پڑھا ہوا تھا۔ اس موقع پر جومو کنیاٹا کا خطاب بہت یادگار اور تاریخی تھا۔ کچھ باتیں جو مجھے یاد ہیں ان میں سے ایک یہ تھی: ''قرآن کو پڑھتے ہوئے قاری محسوس کرتا ہے کہ یہ واقعتاً اللہ کی کتاب ہے ‘جبکہ بائبل کامطالعہ کرتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اللہ کا کلام نہیں بلکہ انسانوں کا کلام اور ادھر اُدھر کی باتیں ہیں‘‘۔ ایک اور اہم بات جو صدرِ کینیا نے کہی وہ یہ تھی کہ گورے لوگ جب یورپ سے افریقہ میں آئے تو بائبل ان کی بغل میں تھی جبکہ زمینوں کے مالک ہم تھے۔ کچھ ہی عرصہ گزرا تو ان شاطر لوگوں نے بائبل ہماری بغل میں دے دی اور خود ہماری زمینوں پر قابض ہو گئے۔
جوموکنیاٹا نے ایک کتاب لکھی جس کا عنوان ہے: Facing Mount Kenya‘یعنی مائونٹ کینیا کے روبرو۔ اس کتاب میں جوموکنیاٹا نے افریقی کلچر کی کئی مثبت باتیں درج کی ہیں اور مغربی حکمرانوں کے مظالم کے ساتھ ان کی ثقافت و کلچر کا بھی ناقدانہ انداز میں ذکر کیا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ون پارٹی رُول کی وجہ سے ملک میں جمہوریت نہیں بلکہ آمریت تھی‘ مگر میری ذاتی رائے یہ ہے کہ جوموکنیاٹا کے خیالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر کوئی مسلم حکمران اس سے ذاتی تعلقات قائم کرتا اور اسے اسلام کی دعوت دیتا تو شاید وہ اسلام قبول کر لیتا۔ ظاہر ہے کہ ہر شخص کو اسی کی سطح کی شخصیت مخاطب کرے تو بات اثر انگیز ہوتی ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ مسلم حکمرانوں کو اس بات کا کبھی احساس ہی نہیں ہوا کہ غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینا بھی ان کے فرائض میں سے ہے۔ جوموکنیاٹا کے کئی خطابات میڈیا پر سنے تھے‘ مگر ایوانِ صدر میں قرآن کا ہدیہ وصول کرنے کے موقع پر جو براہِ راست ان کی گفتگو سنی اس نے بہت متاثر کیا۔ میں جب بھی اس واقعہ کو یاد کرتا ہوں تو میری توجہ شاہ فیصل (شہید) کی طرف جاتی ہے۔ وہ جوموکنیاٹا کے ہم عصر تھے‘ اگر ان کی طرف سے اس معاملے میں کوئی کوشش کی جاتی تو ممکن ہے مثبت نتائج نکلتے۔ بہرحال اب تو یہ سب لوگ دنیا سے جا چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کے ساتھ اس کے ایمان و عقیدے اور عمل کے مطابق معاملہ کرے گا۔ یہ میری سوچ ہے اور سوچ پر تو کوئی پابندی نہیں نہ ہی اس سے اختلاف میں کوئی حرج ہے۔
صدر جومو کینیاٹا کی وفات اگست 1978ء میں ہوئی تو دنیا کے اکثر ممالک سے سربراہانِ مملکت تعزیت اور تدفین میں شرکت کے لیے نیروبی آئے۔ پاکستان میں اس وقت صدر ضیا الحق حکمران تھے۔ وہ بھی اپنی ٹیم کے ساتھ وہاں پہنچے۔ ان سے پاکستانی سفارتخانے میں ہمارے وفد کی ملاقات ہوئی اور ہم نے جنرل صاحب سے ملک میں حقیقی جمہوریت اور 1973ء کے دستور کے مطابق اسلامی نظام قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس پر صدر صاحب نے دھیمے انداز میں کہا کہ آپ کو معلوم نہیں ہے کہ ملک میں اس وقت بھی جمہوریت قائم ہے اور پارلیمان (مجلس شوریٰ) موجود ہے۔ اسلامی شریعت پر بھی عمل ہو رہا ہے۔ آپ کا یہ مطالبہ آپ کی عدمِ معلومات کی نشاندہی کرتا ہے۔ ہم نے کہا کہ ہمیں خوب معلوم ہے کہ ملک میں رائج یہ جمہوریت کتنی حقیقی اور کتنی مصنوعی ہے اور شریعت کے نفاذ کے دعووں کی اصل حقیقت کیا ہے؟ چونکہ وقت مختصر تھا اس لیے زیادہ گفتگو تو نہ ہو سکی؛ البتہ میں نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ جنرل صاحب آپ نے یہاں نماز ادا کی ہے جو خوش آئند بات ہے‘ مگر آپ کے ساتھ آنے والی ٹیم میں سے کسی نے بھی آپ کا ساتھ نہیں دیا‘ حالانکہ میری معلومات کی حد تک وہ سبھی مسلمان ہیں۔ ایک مسلم معاشرے اور ریاستی نظام کے اندر یہ چیز تو عجیب لگتی ہے کہ سربراہِ مملکت اکیلا نماز پڑھے اور اس کے تمام کارندے اپنی من مانی اور سگریٹ نوشی میں وقت صرف کریں۔ اس پر انہوں نے فرمایا کہ وہ لوگ بھی نماز پڑھ لیں گے‘ سفر میں کئی سہولتیں ہوتی ہیں۔ ان دنوں جنرل صاحب کی آمریت اپنے جوبن پر تھی۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ آئندہ دس سال تک کیا ہونے والا ہے۔
کینیا میں مجھے جنگلوں‘ صحرائوں‘ پہاڑوں اور سمندری جزیروں میں بار بار سفر کرنے کے مواقع ملے۔ یہ سب سفر دعوتی و تحریکی مقاصد کے لیے تھے‘ مگر اس دوران سیروسیاحت کا شوق خودبخود پورا ہو جاتا تھا۔ ایک بار میں میرو قبیلے کے علاقے میں مقامی دوستوں کے ساتھ ایک سفر پر تھا کہ گھنے جنگل کے درمیان ایک کھلی اور صاف شفاف سڑک نظر آئی۔ میں نے پوچھا یہ راستہ کہاں جاتا ہے؟ دوستوں نے کسی چھوٹے سے شہر کا نام بتایا جو میں نے پہلی بار سنا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہاں ایک چھوٹا سا مدرسہ اور ایک خوبصورت مسجد ہے۔ آبادی زیادہ نہیں‘ مگر مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے مختلف افریقی قبائل سے تعلق رکھتے ہیں۔ مسجد بھی انہی طلبہ کی وجہ سے آباد ہے۔ میں نے بورڈ پر دیکھا کہ وہ مقام زیادہ دور نہیں تھا۔ ہم سے تقریباً تیس کلومیٹر کا فاصلہ تھا۔ میں نے ساتھیوں سے کہا: ہمارے پاس وقت کافی ہے‘ اس مدرسے کو میں نے ضرور دیکھنا ہے۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved