تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     30-11-2024

سیاسی بحران کا حل آزادانہ انتخابات

دنیا میں جہاں کہیں کثیر جماعتی جمہوری نظام رائج ہے‘ وہاں سیاسی یا حکومتی بحران معمول کی بلکہ ایک ناگزیر بات ہے۔ جدید سیاست کے بانی‘ یونان کے مشہور مفکر سقراط نے تقریباً تین ہزار برس قبل کہا تھا کہ سیاست کا مطلب ہی معاشرے میں متضاد اور بعض اوقات ایک دوسرے سے متصادم مفادات کے حامل گروہوں میں اقتدار اور وسائل کی تقسیم کے لیے جدوجہد ہے۔ اس عمل میں جب ایسا مرحلہ آ جائے جہاں گروہی اختلافات مذاکرات اور 'کچھ لو اور کچھ دو‘ کے ذریعے حل نہ ہو سکیں تو آئین میں دیے گئے آپشن سے انتخابات کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد نیا عوامی مینڈیٹ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان میں اس آپشن کو متعدد بار استعمال کیا گیا لیکن ہماری بدقسمتی کہ ہر انتخاب کے بعد سیاسی استحکام قائم ہونے کے بجائے ایک نیا بحران پیدا ہوا ہے۔ یہ سلسلہ 1970ء سے چلا آ رہا ہے‘ جب قیامِ پاکستان کے 23 برس بعد ملک میں پہلے عام انتخابات ہوئے تھے۔ یہ انتخابات بالغ رائے دہی کی بنیاد پر متحدہ پاکستان کی قومی اسمبلی کی 300 نشستوں کے لیے ہوئے تھے اور ان میں تقریباً 24 سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا تھا۔ اس وقت پاکستان میں مارشل لاء نافذ تھا مگر اس کے باوجود ان انتخابات کو ملکی تاریخ کے سب سے زیادہ شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات قرار دیا جاتا ہے۔ البتہ ان انتخابات کے نتیجے میں سیاسی استحکام تو دور کی بات‘ نئی منتخب اسمبلی کا اجلاس بھی نہ بلایا جا سکا کیونکہ اس وقت کی مقتدر قوتوں نے انتخابی نتائج کو اپنے مفادات کے منافی قرار دے کر عوامی مینڈیٹ کو تسلیم کرنے سے یکسر انکار کر دیا تھا۔ اُس وقت سے پاکستان میں کوئی انتخابات ایسے نہیں ہوئے جنہیں غیر متنازع کہا جا سکے‘ کیونکہ 1970ء کے انتخابات سے ''سبق‘‘ سیکھ کر اب طاقتور حلقے ہر انتخابات میں ''مثبت نتائج‘‘ کو یقینی بنانا ضروری سمجھتے ہیں اور اس کیلئے آئین‘ قانون اور ہر اصول کو قربان کرنے پر تیار رہتے ہیں۔ یہ پاکستان میں مستقل اور مسلسل بحرانوں کی کیفیت کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ مثبت انتخابی نتائج کی تلاش میں صرف غیر جمہوری حکومتیں ہی سرگرداں نہیں رہیں بلکہ سویلین اور منتخب حکومتوں کی بھی یہی کوشش رہی کہ وہ اپنے دورِ حکومت میں مخالف سیاسی جماعتوں کو اس قابل ہی نہ چھوڑیں کہ وہ حکومتی مدت ختم ہونے کے بعد اس کی دوبارہ کامیابی کے راستے میں رکاوٹ بن سکیں۔ اس لیے وہ ہر غیر آئینی‘ غیر قانونی بلکہ غیر اخلاقی ہتھکنڈوں پر اتر آتی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو پانچویں قومی اسمبلی (1972ء تا جنوری 1977ء) میں بھاری اکثریت کے ساتھ برسراقتدار آئے۔ گو کہ ان کی حکومت کو ایک طاقتور اپوزیشن کا سامنا تھامگر اس کے باوجود وہ 1977ء کے انتخابات بآسانی جیت سکتے تھے لیکن ''مثبت نتائج‘‘ (جو ان کی نظر میں دوتہائی اکثریت کے علاوہ مخالف سیاسی پارٹیوں کی بیخ کنی تھی) کے حصول کی خاطر ان کی حکومت نے نہ صرف انتخابات سے پہلے بلکہ انتخابات کے دوران بھی ایسے ہتھکنڈے استعمال کیے جو آئین‘ قانون اور اخلاقی ضابطوں کی سراسر خلاف ورزی تھے۔ انتخابات سے پہلے مخالف سیاستدانوں اور امیدواروں کو جھوٹے اور من گھڑت مقدمات میں ملوث کیا گیا‘ میڈیا کو کنٹرول کرنے کیلئے صحافیوں کو ہراساں کیا گیا اور انتخابات کے دوران امیدواروں کے خلاف مقدمات قائم کر کے کھلے عام دھاندلی کی گئی۔ اس کام میں حکومت کی مشینری کا بھر پور استعمال کیاگیا۔ ہر وہ حربہ استعمال کیا گیا جس کے ذریعے ذوالفقار علی بھٹو مرضی کے یعنی ''مثبت نتائج‘‘ حاصل کر سکتے ہوں۔ جواب میں اپوزیشن نے انتخابی نتائج کو مسترد کر کے ایک تحریک چلائی جو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے علاوہ ملک میں تیسرے مارشل لاء کی شکل میں منتج ہوئی۔
تیسرے چیف مارشل لا اینڈمنسٹریٹر کے سامنے 1970ء کے انتخابات اور اُن کے نتائج کی مثال موجود تھی لہٰذا ان سے سبق حاصل کرتے ہوئے جنرل ضیا نے جنرل یحییٰ خان کے برعکس انتخابات کے انعقاد میں آٹھ سال لگا دیے اور جب انتخابات ہوئے تو وہ غیر جماعتی بنیادوں پر کرائے گئے۔ اس کا مقصد بھی ''مثبت نتائج‘‘ حاصل کرنا تھا۔ جنرل ضیا نے 1985ء کے انتخابات میں ''مثبت نتائج‘‘ حاصل کرنے کے بعد اپنی پسند کا وزیراعظم‘ محمد خان جونیجو وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر بٹھا دیا‘ اس کے باوجود ملک کو سیاسی استحکام نصیب نہ ہو سکا۔ تقریباً تین سال بعد (مئی 1988ء) میں جنرل ضیا نے اپنے ہی وزیراعظم کی حکومت کو برطرف کر کے اسمبلیاں تحلیل کر دیں اور ملک ایک دفعہ پھر سیاسی بحران اور غیر یقینی صور تحال سے دوچار ہو گیا۔ یہ صورتحال 1988ء سے 1999ء تک صرف گیارہ سال میں چار منتخب حکومتوں کی برطرفی کی شکل میں سامنے آئی۔ 1999ء میں ملک چوتھی دفعہ مارشل لاء کی نذر ہو گیا لیکن جنرل پرویز مشرف کی حکومت اپنے پیشروئوں سے اس لحاظ سے مختلف تھی کہ نہ تو آئین کو منسوخ کر کے باقاعدہ مارشل لاء نافذ کیا گیا اور نہ ہی سیاسی پارٹیوں پر پابندی لگائی گئی‘ تاہم سپریم کورٹ کی جانب سے مقرر کردہ تین سالہ مدت کی شرط کے تحت 2002ء کے انتخابات میں ''مثبت نتائج‘‘ حاصل کرنے کیلئے ملکی تاریخ کی بدترین پولیٹکل انجینئرنگ کا ارتکاب کیا گیا۔ سیاسی پارٹیوں میں توڑ پھوڑ کے ذریعے پرویز مشرف نے پہلے 2001ء میں صدارت کا عہدہ سنبھالا‘ پھر مسلم لیگ (ن) میں سے مسلم لیگ قائداعظم قائم کر کے 17ویں آئینی ترمیم کے ذریعے آئین کا حلیہ بگاڑ کر اسے نیم صدارتی دستاویز میں تبدیل کر دیا گیا۔ اگست 2002ء میں لیگل فرم ورک آرڈر کے تحت آئین کی دفعہ 58ٹو (بی) بحال کر دی گئی۔ یہ دفعہ جنرل ضیا نے آٹھویں آئینی ترمیم کے نام پر 1973ء کے آئین میں داخل کی تھی۔ سترہویں آئینی ترمیم کے تحت جنرل مشرف کو آئندہ پانچ سال کیلئے صدارت کے علاوہ اپنی صوابدید کے تحت حکومت کی برطرفی اور ریاست کے اہم عہدوں پر تعیناتیوں کا حق بھی مل گیا۔
اکتوبر 2002ء میں منعقدہ انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ق) قومی اسمبلی میں انفرادی طور پر سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی سیاسی جماعت بن کر ابھری تاہم وہ اس پوزیشن میں نہیں تھی کہ تنہا حکومت بنا سکتی‘ لہٰذا سیاسی انجینئرنگ سے پہلے دیگر جماعتوں میں فارورڈ بلاک بنائے گئے اور پھر ایک مخلوط قسم کی حکومت قائم کی گئی جس نے ظفر اللہ جمالی کو وزیراعظم چن لیا۔ جنرل ایوب سے جنرل مشرف تک کے ادوار میں انتخابی عمل میں براہِ راست مداخلت کے ذریعے ''مثبت‘‘ یعنی مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کیلئے جس روایت کی بنیاد ڈالی گئی تھی وہ اس کے بعد منعقد ہونے والے تمام انتخابات میں روبہ عمل نظر آتی ہے اور ابھی تک جاری ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں مسلسل سیاسی بحرانی کیفیت کی اصل اور بنیادی وجہ یہی مداخلت ہے‘ جس کی وجہ سے عوام کے بنیادی سیاسی حقوق پر ڈاکا ڈالا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے جو مینڈیٹ حاصل کیا جاتا ہے‘ اُس کی حیثیت شروع دن سے متنازع ہوتی ہے اور اس کی بنیاد پر جو حکومت تشکیل دی جاتی ہے اس کی ساکھ مشکوک ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے نہ صرف حکومت کی رِٹ کمزور اور غیر مؤثر ہوتی ہے بلکہ اس کی گورننس پر بھی اثر پڑتا ہے۔ اسی وجہ سے حکومت اور اپوزیشن میں ہمیشہ تناؤ رہتا ہے کیونکہ اپوزیشن حکومت کے مینڈیٹ کو جائز‘ قانونی اور آئینی تسلیم نہیں کرتی اور مداخلت کے اس عمل کے ذریعے وجود میں آنے والی حکومت کی غیر ملکی ساکھ بھی متاثر ہوتی ہے جس کے نتیجے میں بین الاقوامی برادری میں ملک کو وہ مقام حاصل نہیں ہو پاتا جو ایک صاف‘ شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی حکومت کوحاصل ہو سکتا ہے۔اگر پاکستان کو نہ ختم ہونے والے سیاسی بحرانوں کے سلسلے سے نجات اور دنیا میں ایک باوقار مقام دلاناہے تو جمہوریت کے سب سے اہم اور بنیادی حق یعنی آزادانہ انتخابات کو یقینی بنانا ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved