تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     01-12-2024

معیشت: حکومت کیا کرے؟ …(14)

تیسری چیز‘ جو کم وقت میں معیشت میں سدھار لانے اور اسے استحکام بخشنے کا کام کر سکتی ہے‘ توانائی کے ذرائع کا تناسب ٹھیک کرنا ہو سکتا ہے۔ ہمارے ملک میں توانائی کے ذرائع جیسے بجلی‘ گیس اور پٹرولیم مصنوعات مہنگے ہیں‘ بلکہ یہ کہنا بہتر ہو گا کہ انتہائی مہنگے ہیں اور انتہا یہ ہے کہ اس کے باوجود ان کے نرخوں میں آئے روز اضافہ ہوتا رہتا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف مہنگائی بڑھتی ہے اور لوگوں کی قوتِ خرید پر چوٹ پڑتی ہے بلکہ اس کے درآمدات و برآمدات کے حوالے سے معیشت پر منفی اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ حکومتیں بھی بار بار انہی چیزوں پر ٹیکس لگاتی‘ بڑھاتی اور نرخوں میں اضافہ کرتی ہیں جن کی قیمت ایک روپیہ بڑھنے سے مہنگائی کا گراف کئی روپے اوپر چلا جاتا ہے‘ اور اسی عجیب بات کی وجہ سے ہمارے ملک میں مہنگائی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کی کاوشوں سے مہنگائی کی شرح سنگل ڈیجٹ میں آ گئی ہے یا آنے والی ہے‘ لیکن ماہرینِ معاشیات کا خیال ہے کہ مہنگائی میں حقیقی کمی واقع نہیں ہوئی ہے‘ مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے لوگوں کی قوتِ خرید میں کمی کے باعث ٹرانزیکشنز کم ہو گئی ہیں۔ پٹرول مہنگا اس لیے ہے کہ ہمیں عالمی منڈی سے خریدنا پڑتا ہے۔ جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو کم قیمت پر پٹرولیم مصنوعات خریدنا ناممکن ہو جاتا ہے اور ظاہر ہے اس طرح حکومت مقامی سطح پر پٹرولیم کی قیمتیں بڑھانے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عالمی منڈی میں قیمتوں میں خفیف سا اضافہ بھی فوری طور پر عوام کی طرف منتقل کر دیا جاتا ہے اور عالمی سطح پر قیمتوں میں ہونے والی بڑی کمی کا فائدہ عوام کو پہنچانے میں مسلسل پس و پیش سے کام لیا جاتا ہے۔ حکومتوں کو یہ مجبوری پچھلے چند برسوں سے پیش آئی ہے ورنہ تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی بیشی سالانہ بجٹ میں ہوتی تھی اور پھر سارا سال وہی قیمت برقرار رہتی تھی۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں عالمی سطح پر ہونے والی کمی بیشی کو حکومت خود برداشت کرتی تھی۔ پھر نا جانے کس نابغہ روزگار نے تجویز پیش کی ہو گی کہ ان مصنوعات کی قیمتوں میں ماہانہ کی بنیاد پر رد و بدل ہونے لگا۔ حکومتیں خود تو پُرسکون ہو گئیں‘ لیکن عوام کو ایک عجیب سے ماہانہ خلجان میں مبتلا کر دیا گیا۔
پچھلے کالم میں عرض کیا تھا کہ آئی پی پیز کے ساتھ مہنگے معاہدے قومی معیشت کا بیڑا غرق کرنے کی پہلی وجہ تھے۔ دوسری وجہ حکومتوں اور حکمرانوں کی جانب سے بلاسوچے سمجھے ملکی و غیرملکی قرضے حاصل کرنا تھا۔ تیسری وجہ توانائی کے ذرائع پر ٹیکسوں کی بھرمار اور ان کی قیمتوں میں بے ہنگم اضافہ ہے۔ چوتھی وجہ سستی توانائی کے حصول کے لیے کوئی ٹھوس اور جامع کوشش کا نہ ہونا ہے۔ ایک کالا باغ ڈیم گیم چینجر ثابت ہو سکتا تھا لیکن قومی معیشت کے لیے لائف لائن بن سکنے والے اس منصوبے کو ہم نے ذاتی اناؤں‘ سیاسی ضدوں اور بے بنیاد مسائل کی نذر کر دیا۔ 26مئی 2008ء کو اس وقت کے وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف نے ایک اخباری بیان میں کہا تھا کہ اب کالا باغ ڈیم کبھی تعمیر نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ صوبہ خیبر پختونخوا‘ سندھ اور دوسرے متعلقہ فریقوں کی مخالفت کی وجہ سے یہ منصوبہ قابلِ عمل نہیں رہا۔ کالا باغ ڈیم میں 61لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ ہونا تھا۔ اتنے وافر پانی سے 50لاکھ ایکڑ زمین سیراب ہونا تھی۔ اس ڈیم سے پانچ ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جانی تھی جس کی قیمت دو سے ڈھائی روپے فی یونٹ پڑنی تھی۔ یہ جو آج کل ہم 60روپے فی یونٹ بجلی کی قیمت ادا کر رہے ہیں‘ ایک لحاظ سے یہ ہم کالا باغ ڈیم تعمیر نہ کرنے کا بھگتان ہی بھگت رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس ڈیم کے لیے 24ہزار 500ایکڑ اراضی پنجاب اور صرف تین ہزار ایکڑ زمین خیبر پختونخوا سے لی جانی تھی۔ اس کے باوجود یہ ڈیم بنایا نہیں جا سکا اور وجہ ہے بے بنیاد بہانے۔دوسری جانب صوبہ سندھ کا خیال بلکہ گمان ہے کہ کالا باغ ڈیم میں ذخیرہ ہونے والا پانی صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخوا کی زرعی زمینوں کو سیراب کرے گا جبکہ یہ پانی سندھ کی زرعی زمینوں کو سیراب کر رہا ہے۔ مزید یہ کہ عالمی قانون برائے تقسیمِ پانی کی رو سے دریائے سندھ پر صوبہ سندھ کا حق تسلیم کیا جانا چاہیے۔ سندھ کا گمان ہے کہ اگر ڈیم بن گیا تو سندھ کے حصے کا پانی بھی پنجاب اور خیبر پختونخوا لے اڑیں گے۔ سندھ کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ ساحلی علاقے میں دریائے سندھ کا بہنا انتہائی ضروری ہے تاکہ یہ دریا سمندری پانی کو ساحل کی طرف بڑھنے سے روک سکے۔ اگر دریائے سندھ میں پانی کے بہاؤ میں کمی واقع ہوتی ہے تو یہ سندھ کے ساحل اور اس پر موجود مینگرووز کے جنگلات اور زرعی زمینوں کو صحرا میں تبدیل کر دے گا۔ سندھ کے خیال میں یہ نہ صرف ماحول کے لیے خطرناک ہے بلکہ یہ ماحولیاتی رو سے بھی نامناسب ہے۔ خیبر پختونخوا کو کالا باغ ڈیم پر دو اعتراضات ہیں: ڈیم کا ذخیرہ صوبہ خیبر پختونخوا میں واقع ہو گا لیکن بجلی پیدا کرنے والی ٹربائنز اور تعمیرات صوبہ پنجاب میں واقع ہوں گی۔ صوبہ پنجاب وفاق سے پیدا ہونے والی بجلی پر رائلٹی کا حق دار تصور ہو گا۔ اس اعتراض کو رفع کرنے کے لیے صوبہ پنجاب نے وفاقی رائلٹی سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا تھا لیکن بات بنی نہیں۔ دوسرا اعتراض یہ کیا گیا کہ ضلع نوشہرہ کا بڑا حصہ اور اس کے مضافاتی علاقے پہلے کالا باغ بند کی تعمیر کے دوران زیر آب آ جائیں گے اور بعد میں ریت کے جمع ہونے سے ایک بڑا علاقہ بنجر ہو جائے گا۔ جن شہروں کے ڈوبنے کے متعلق تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے وہ سطح سمندر سے خاصے بلند ہیں۔ اتنے بلند کہ کالا باغ ڈیم میں پانی کی بلند ترین سطح سے زیادہ بلند ہیں‘ لہٰذا یقینی طور پر کالا باغ ڈیم کی وجہ سے صوبہ خیبر پختونخوا کا کوئی بھی قابلِ ذکر شہر نہیں ڈوب سکتا۔ لیکن ان وضاحتوں میں سے کسی نے بھی کام نہیں کیا۔ یہ ڈیم اپنی تمام تر افادیتوں کے باوجود نہیں بن سکا ہے۔
یہ ڈیم اگر بن جاتا تو پاکستان کے عوام کو ایسا مجموعی فائدہ ملنا تھا کہ سارے دلدر دور ہو جانے تھے۔ جن وجوہات کی بنا پر بھی یہ منصوبہ ترک کیا گیا یہ پاکستان کے تمام صوبوں کے لیے مشترکہ نقصان ہے‘ اور کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اس ڈیم کی تعمیر رک جانے کی وجہ سے اب تک اربوں نہیں کھربوں کا نقصان ہو چکا ہے۔ یہ نقصان ہم برداشت کر رہے ہیں‘ اور ظاہر ہے یہ نقصان ہماری آئندہ نسلوں کو برداشت کرنا پڑے گا۔ دنیا بھر کے اور پاکستان کے بھی سارے سائنسدان‘ انجینئرز اور ٹیکنالوجی کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ڈیم کی وجہ سے کسی بھی علاقے کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا‘ مگر افسوس یہ منصوبہ سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا گیا‘ جو ایک طرح سے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ ایک زمانے میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے سلسلے میں بڑے بڑے بلند بانگ دعوے کیے جاتے تھے‘ آج کوئی بھولے سے بھی اس ڈیم کا نام نہیں لیتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved