تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     02-12-2024

ہم شامِ غریباں کی سحر ہیں‘ ہمیں دیکھو

26 نومبر کے احتجاجی مظاہرے میں گولیاں کیوں چلائیں‘ کس نے چلائیں اور کس پر چلائیں‘ اس بارے میں سرکار کا مقدمہ بڑا دلچسپ ہے۔ دنیا کا شاید ہی کوئی بڑا انٹرنیشنل اخبار یا ٹی وی نیٹ ورک ایسا ہو گا جس نے سرکار کے مقدمے کو نہ جھٹلایا ہو۔ اس لیے کہ سرکار لائٹیں بجھا کر سمجھ رہی تھی کہ سب اندھیری رات میں گُم ہو جائے گا۔ جہاں 26 نومبرکی شب خالی ہاتھ‘ نہتے اور پُرامن مظاہرین پر گیس کے گولے اورگولیاں برسائی گئیں‘ اُسی جگہ موجود پلازوں میں بہت سے گلوبل ٹی وی اور نیو ز ایجنسیوں کے بیورو آفس قائم ہیں۔ پی ٹی آئی کے مظاہرین کو M1 پر‘ اسلام آباد کے راستے میں آنے والے پُلوں پر‘ کٹی پہاڑی پر اور ڈی چوک تک پہنچتے پہنچتے 11 مقامات پیش آئے۔ ان سارے سڑک توڑ ناکوں پر تاریخ کے بدترین کریک ڈائون اور ریاستی طاقت وجبروت کا اُنہیں سامنا کرنا پڑا۔ آپ مظاہرین کی تعداد کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ملک کی کوئی فورس ایسی نہیں تھی جسے سرکار نے پاکستان کے عوام کو اپنے دارالحکومت میں احتجاج کے لیے آنے سے روکنے کی ڈیوٹی نہ سونپی ہو۔ مگر اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود بھی مظاہرین نے پرسنل ڈسپلن اور سیلف کنٹرول کا بے مثال مظاہرہ کیا۔ مظاہرین صرف راستوں اور سڑکوں پہ کنٹینروں سمیت دوسری رکاوٹوں کو ہٹاتے ہوئے ڈی چوک کی طرف بڑھتے چلے گئے۔ مگرکسی بھی مقام پر نہ کسی بلڈنگ کی شیشہ ٹوٹا‘ نہ بینک لوٹے گئے‘ نہ گملا توڑا گیا‘ نہ کوئی کھڑکی زمیں بوس ہوئی‘ نہ میٹرو بس سٹیشنوں کو آگ لگائی گئی اور نہ ہی کسی سرکاری یا نجی عمارت پر مظاہرین کی جانب سے حملہ کیا گیا۔ اس کے باوجود بھی بین الاقوامی قانون کی زبان میں Unproportional use of force کانپتی ٹانگوں والی سرکار نے بڑی بے دردی اور سفاکی سے لانچ کر دیا۔
26 نومبر کے بارے میں راج دربار اور اُس سے وابستہ درباری منشی تین لائنوں پر 'سرکاری سچ‘ پھیلا رہے ہیں۔
26 نومبرکے بارے میں پہلا سرکاری سچ: پاکستان تحریک انصاف کے مظاہرین پر کسی نے گولی نہیں چلائی‘ نہ کسی اہلکار کے پاس اسالٹ رائفل تھی۔ اس سرکاری دروغ پنیری پر اب تک درجنوں وڈیوز اور انٹرنیشنل میڈیا سے کوریج کے لیے نشر ہونے والے نیوز بلیٹن ‘فوٹیج اور گولیوں کی آوازیں اور تصویریں چلا چکے ہیں۔ یہاں سادہ سا سوال یہ ہے! کیا اسلام آبادمیں حکومت نے ایف سی‘ پنجاب پولیس‘ سندھ پولیس اور اسلام آباد پولیس سے‘ سرکاری اعلان کے مطابق‘ تیس ہزار اہلکاروں کو اسلام آباد میں لاکر تعینات نہیں کیا گیا تھا؟ اسی تسلسل میں سرکار نے پہلے رینجرز‘ اُس کے بعدآئین کے آرٹیکل 245 کے تحت آرمی کو نہیں بلایا؟ کیا وزیروں نے ڈی چوک میں داخل ہونے والے مظاہرین پرShoot to kill کا حکم دے کر اس حکم کی نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا پر خود اپنے آپ مشتہری نہیں کی تھی؟ کیا Shoot to kill کے آرڈر جاری کرنے کے بعد اہلکاروں کے ہاتھوں میں کنکریاں اور غلیل پکڑائے گئے تھے؟
26 نومبرکے بارے میں دوسرا سرکاری سچ: ایک منڈلی کی جانب سے جس قدر سچ کی تذلیل کی جا رہی ہے سچی بات یہ ہے اُس کی مثال نازی جرمنی کے گوئبلز کی قبر سے مل سکتی ہے‘ زندہ انسانوں کے ہاں بالکل نہیں۔ ایک وزیر نے ٹی وی انٹرویو میں کھل کراعتراف کر لیا کہ اُن کے علاقے کا ایک بچہ 26 نومبر کی رات اسلام آباد ڈی چوک میں شہید ہوا‘ جس کی میت Release کرانے کے لیے ED پمز کے ساتھ منسٹر کی جانب سے مسلسل بات چیت کی جا رہی ہے۔ اگر آپ احترامِ آدمیت کے حوالے سے بین الاقوامی قوانین‘ انٹرنیشنل معاہدوں‘ اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور جینوا کنونشن پر نظر ڈالیں تو سب جگہ مرنے کے بعد‘ جرم چاہے کتنا ہی سنگین کیوں نہ ہو‘ عدالت سے مجرم ثابت ہو کر سزائے موت پانے والے کی میت کو بھی احترام سے فوری تدفین کا حق دیا جاتا ہے۔ یاددہانی کے لیے عرض ہے پاکستان میں کئی دفعہ اخلاقی اور سماجی جرائم میں ملزموں کو برسرِعام پھانسی دینے کا مطالبہ ہوتا آیا ہے۔ یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ برسرِ عام پھانسی دینے کے موضوع پر پارلیمنٹ میں کئی بار قانون سازی کے بل بھی داخل کیے گئے۔ ساتھ ساتھ سپریم کورٹ آف پاکستان اور مختلف ہائی کورٹس میں برسرِ عام پھانسی کا حکم جاری کرنے کی پٹیشنز بھی دائر ہوتی رہیں لیکن آئین کے آرٹیکل نمبر 14 میں احترامِ آدمیت کے تحفظ کی ریاستی گارنٹی موجود ہونے کی بنا پر ایسی سب کوششوں کو ابھی تک ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ اُسامہ بن لادن کے مارے جانے کے بعد‘ رپورٹ شدہ حقائق کے مطابق میت کا پہلے DNA ٹیسٹ کیا گیا‘ جس کا مقصد یہ تھا کہ کیا مقتول اُسامہ بن لادن ہی ہے یا کوئی اور۔ اس ٹیسٹ کے فوراً بعد اسامہ بن لادن کی میت کو امریکی بحری بیڑے پر لے جاکر سپردِ آب کر دیا گیا۔
میرے آبائی علاقے سے تین بچے ڈی چوک میں گن شاٹ فائر کے زخموں سے جاں بحق ہوئے‘ جن میں سے دو کا تعلق ستی قبیلے سے ہے۔ 26 نومبر کو غلطی کس کی تھی‘ یہ طے ہونا ابھی باقی ہے‘ جس کے لیے مقتول کارکنوں کے وارثوں کی طرف سے دو مطالبات سامنے آ چکے ہیں۔ پہلے مطالبے کی تائید میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے ہائی پاور جوڈیشل کمیشن فوری طور پر بنانے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ 26 نومبر کے احتجاجی مظاہرے میں گولیاں کیوں چلائیں‘ کس نے چلائیں اور کس پر چلائیں؟
26 نومبرکے بارے میں تیسرا سرکاری سچ: سرکار کا کہنا ہے پی ٹی آئی کے احتجاج کی وجہ سے روزانہ کی بنیاد پر 190 ارب روپے کا معاشی نقصان ہوا۔ مگر وزارتِ داخلہ کا اعلامیہ اور تین ‘چار وزیر مسلسل پریس کانفرنسز میں یہ بتانا بھول گئے کہ یہ نقصان ہوا کیسے؟ کون نہیں جانتا کہ یہ نقصان پنجاب حکومت کی طرف سے کراچی سے پنجاب اور خیبر پختونخوا جانے والی ٹریفک کو روک کر‘ بلوچستان‘ کے پی اور سندھ سے اسلام آباد آنے والی موٹر ویز‘ ہائی ویز جبری طور پر مسلسل پانچ دن کے لیے بند رکھنے سے ہوا۔ نقصان 190 ارب روزانہ کا نہیں بلکہ 290 ارب روپے روزانہ کا ہو گا۔ مگر بات یہ ہے کہ یہ نقصان پنجاب حکومت اور شہباز سپیڈ نے خود کیا۔جو منشی اس سرکاری سچ کے حامی ہیں‘ اُن سے قوم سوال کرتی ہے اتنے بڑے پیمانے پر نقل وحمل کے واحد ذریعہ بننے والی سڑکوں اور شاہراہوں کو بند کرنے کی تُک کیا تھی؟
اللہ تعالیٰ کے قانون میں انسانی جان کا قتل سب سے بڑا نقصان ہے۔ جو لاشے بے گور وکفن ہیں‘ وہ الطاف پرواز کی آواز میں یوں پکار رہے ہیں۔
نیزوں پہ اُچھالو گے تو دیکھے گا زمانہ
بے جان تنوں پر کئی سر ہیں ہمیں دیکھو
ہم ایک گناہگار اور اتنی صلیبیں
بے داد گر و سینہ سپر ہیں ہمیں دیکھو
پروازؔ یہ تنہائی مقدر ہے ہمارا
ہم شامِ غریباں کی سحر ہیں ہمیں دیکھو

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved