تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     03-11-2013

سفرِ ترکی (حصہ دوم)

24 اکتوبر کو بوڈرم پہنچنے کے بعد کھا نا کھا کر ظہر اور عصر کی نمازیں ادا کیں اور کمر ے میں پہنچا تو فوراً نیند آ گئی۔ مغرب کی اذان کے ساتھ آنکھ کھلی، نماز کے بعد کچھ دیر لابی میںشرکائے سفر کے ساتھ تبادلہ خیال ہوتا رہا۔ نماز عشاء ادا کرنے کے بعد کھانے کی میز پر وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے دورئہ امریکہ کے مختلف پہلوئوں پر مختلف آراء سامنے آتی رہیں۔ شرکائے سفر وزیر اعظم کے دورئہ امریکہ سے مطمئن نہیں تھے۔ وہ مسئلہ کشمیر، ڈرون حملوں کی بندش اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی واپسی کے حوالے سے مثبت پیش ر فت نہ ہونے پر افسردہ تھے۔ ہم سب اس بات پر متفق تھے کہ پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات طویل عرصے پرمحیط ہونے کے باوجود پاکستان کی کمزور پوزیشن کا بڑا سبب پاکستان کی معیشت ہے۔ جب تک ہماری حکومتیں مالی معاملات میں آئی ایم ایف اور ورلڈبنک پر انحصار کرتی رہیں گی اس وقت تک امریکہ سے اپنے مطالبات بھر پور طریقے سے منوانا ممکن نہ ہو گا۔ اس کے بعد ہم سب اپنے اپنے کمروں میں آ کر محو خواب ہوگئے۔ نماز فجر کی ادائیگی کے بعد جمعتہ المبارک کی تیاری میں مصروف ہو گئے۔ ساڑھے بار ہ بجے ہم سب ہوٹل سے کوسٹر پر بیٹھ کر جمعۃ المبارک کے لیے روانہ ہوگئے ۔ترکی کی مساجد بالعموم نہ تو بہت بڑی ہیں اور نہ ہی زیاد ہ چھوٹی۔تقریباً ہزار افراد کی گنجائش والی مساجد تھوڑے تھوڑے فاصلے پر موجود ہیں ۔ ہم جس مسجد میں گئے وہ بہت نفیس تھی۔ خطبہ جمعہ سے پہلے مسجد بھر چکی تھی ۔اذان کے بعد خطیب نے اسلام میں تصور جمہوریت پر خطبہ دیا اور نمازیوں کے سامنے اس بات کو رکھا کہ اسلام کی سیاسی بنیاد شوریٰ پر ہے، اسلام میں شخصی آمریت کی کوئی گنجائش نہیں۔دو مختصر خطبات کے بعد نماز کھڑی ہوگئی ۔نماز کی ادائیگی کے بعد جب ہم باہر نکلے تو میرے ذہن میں خیال آرہا تھا کہ یہ اسلام کی حقانیت کی کتنی بڑی دلیل ہے کہ اس وقت دنیاکی تمام اقوام سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد مسلمان ہے ۔کسی بھی قوم سے تعلق رکنے والا کوئی بھی شخص دائر ہ اسلام میں داخل ہوسکتا ہے ۔تقویٰ اور عمل صالح کی شاہراہ پر چلتے ہوئے ہر شخص اللہ کا قرب حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ اس کے برعکس اسلام کے مقابل جتنے بھی مذاہب اس وقت دنیا میں موجود ہیں ان میں کسی نہ کسی نسل یا قوم کو امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ ہندومت اور یہودیوں میں برہمنوں اور بنی اسرائیل کے لوگوں کو جو مقام حاصل ہے وہ ان مذاہب کی نسل پرستی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔تاریخ اسلام میں اہل عجم نے اپنے علم وعمل سے جو مقام حاصل کیا اس کی درجنوں مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں اور اس کی آفاقی فکرکی وجہ سے ہر قوم کے لوگ ہر دور میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے کارہائے نمایاں انجام دیتے رہے۔ ترکیوں کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ مسلمانوں کی عالمگیر خلافت کی آخری یادگار کا تعلق ترکی کے ساتھ تھا۔ خلافت ِ عثمانیہ سے مسلمانانِ عالم کے ساتھ ساتھ برصغیر کے مسلمانوں کی بھی والہانہ وابستگی رہی۔ مولانا محمد علی جوہر رحمۃ اللہ علیہ نے احیائے خلافت کے لیے زبردست کوشش کی اور تحریک خلافت کو برصغیر کے طول وعرض میں چلایا۔ گو تحریک خلافت کامیابی سے ہمکنا ر نہ ہو سکی لیکن علی برادران اور بی اماں کے جذبات ہمیشہ کے لیے تاریخ برصغیر کا اہم باب بن گئے۔ جمعۃالمبارک کی ادائیگی کے بعد ہم ہوٹل واپس آ گئے۔ کھانا کھانے اور نمازوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ مختلف امور پر بات چیت جاری رہی۔ رات کے وقت جب میں نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھا تو حدّنظر تک پھیلی ہوئی خوبصورت جھیل روشن کشتیوں کی وجہ سے یوں محسوس ہو رہی تھی جیسے کھلے آسمان پر ستارے جگمگا رہے ہوں۔ بوڈرم کا معتدل موسم اور حسین منظر اللہ تعالیٰ کی قدرت او رکاریگری کا شاہکار محسوس ہو رہا تھا۔ 26اکتوبر کی صبح کانفرنس کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ کانفرنس صبح سے رات گئے تک جاری رہی۔ نماز، کھانے اور چائے کے وقفوں کے سوا رائونڈ ٹیبل کانفرنس مسلسل جاری رہی۔ کانفرنس میں امریکہ، سائوتھ افریقہ، ملائیشیا اور انگلستان سے دین، سماج اور دہشت گردی کے حوالے سے مہارت رکھنے والے لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ کانفرنس میں یہ ماہرین برادرم لیاقت بلوچ، مولانا ثروت اعجاز قادری، مولانا نیاز حسین نقوی، صاحبزادہ احمد رضا، مولانا مرتضیٰ علی زیدی اور راقم الحروف سے دہشت گردی کے اسباب جاننے کی کوشش کرتے رہے۔ اس دوران یہ بات سامنے آئی کہ دہشت گردی کے زیادہ اسباب سیاسی اور انتظامی نوعیت کے ہیں۔ ڈرون حملوں کا نشانہ بننے والے خاندانوں کے نوجوانوں کی بڑی تعداد انصاف نہ ملنے کی وجہ سے دہشت گردی کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔ حکومتیں اس سلسلے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتیں اور صرف بیان بازی سے اس معاملے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حکومت کو اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ دہشت گردی میں اضافہ روکا جا سکے۔ دہشت گرد ی میں اضافے کا ایک بڑا سبب احتساب کا کمزور نظام بھی ہے۔ اگر دہشت گردی میں ملوث مجرموں کو قرارِ واقعی سزا مل جائے تو دیگر دہشت گردوں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ دہشت گرد اپنی مرضی کی کارروائیاں کر لیتے ہیں اور انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں ریمنڈڈیوس کیس پر بحث کی گئی کہ کس طرح وہ سرعام پاکستانیوں کوقتل کرنے کے باوجود قانون کی گرفت سے بچ کر واپس امریکہ چلا گیا۔ حکومتی بیانات بالعموم ان معاملات میں غیر ذمہ دارانہ ہوتے ہیں اور معاشرے میں صرف نفرت اور مایوسی پھیلاتے ہیں، جرائم کی روک تھام کے لیے ان بیانات سے کوئی مدد نہیں ملتی۔ 27اکتوبر کو بھی کانفرنس کے تین سیشنز ہوئے جن میں دہشت گردی کے اسباب، طریقہ اور تدارک کے حوالے سے بحث کی گئی۔ دہشت گردی میں اضافے کے ایک بڑے سبب، سرحد پار بیٹھے ہوئے پاکستان دشمن عناصر کے بارے میں بھی کافی غوروخوض کیا گیا اور اتفاق کیا گیا کہ پاکستان کے دشمن اس طرح کی بہت سی کارروائیوں میں ملوث ہیں اور انٹیلی جنس ادارے اپنی غفلت کی وجہ سے ان تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ اگرچہ دہشت گردی کے اسباب خارجی نوعیت کے تھے لیکن بعض داخلی اسباب اور دہشت گردی کے طریقہ تدارک کو زیر بحث لایا گیا اور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ معاشروں میں حکومتی کوتاہیوں کے ساتھ ساتھ علماء کی بھی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عامۃ الناس کو یہ بات سمجھائیں کہ کسی بھی رنگ، نسل، قوم علاقے اور مذہب سے تعلق رکھنے والے انسان کا تعصب کی بنیاد پر قتل خلاف شریعت ہے۔ اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ صحابہ کرامؓ ،اہل بیت عظام اور امہات المؤمنین رضی اللہ عنہم کی توہین حرام ہے اور تمام مکاتبِ فکر کے علماء کو اپنے اپنے اجتماعات میں توہین پر مبنی گفتگو کو روکنا چاہیے۔ اگر توہین پر مبنی گفتگو رُک جائے اور مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے علماء اور افراد باہم ایک دوسرے کی تکفیر سے اجتناب کریں تو ملک میں جاری دہشت گردی کے واقعات کے داخلی اسباب پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔ ان تما م تجاویز کو بعدازاں 28 اکتوبر کو بوڈرم ڈیکلریشن کے عنوان سے مشترکہ طور پر ہوٹل کے لان میںپڑھا گیا۔ ان سے ملتی جلتی تجاویز ایک عرصہ قبل ملی یکجہتی کونسل کے ایک اجلاس میں منظور کی گئی تھیں لیکن بد قسمتی سے ان تجاویز پر مثبت پیش رفت نہ ہو سکی۔ حکومت علماء پر تنقید تو کرتی ہے لیکن ان کی مثبت تجاویز کو کبھی انتظامی اور قانونی اعتبار سے ریاست میں لاگو نہیں کرتی۔ اگر حکومت ِپاکستان سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو علماء کے فہم وفراست سے استفادہ کر کے پاکستان کو دہشت گرد ی سے پاک کر کے اس ملک کو امن و سکون کا گہوارہ بنا سکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved