مشہور مقولہ ہے کہ ہر مرد کی کامیابی کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ تو کیا کسی مقبول رہنما کی ناکامی کے پیچھے بھی کسی عورت کا ہاتھ دریافت کیا جانا چاہیے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں وقت لگے گا لیکن اس کا جواب بالکل سامنے ہے کہ پی ٹی آئی اور خان صاحب کی ناکامیوں میں ان کی تیسری شادی کا کتنا دخل ہے۔ عمران خان کی بائیس سالہ ناکامیاں ایک طرف اور اس شادی کے سبب سیاسی ناکامیاں ایک طرف۔ سیاسی عروج کے لیے کی جانے والی یہ شادی ان کیلئے سیاسی زوال کا سبب بنی ہے۔
کسی نامور شخص کی شادی یا طلاق اس کا ذاتی معاملہ ہے لیکن اگر اس کی وجہ سے کسی سیاسی شخصیت‘ کسی بڑی جماعت اور ملک پر اثرات پڑ رہے ہوں تو نگاہ نہیں چرائی جا سکتی۔ سیاسی رہنمائوں کا شادیاں کرنا نئی بات نہیں‘ خان صاحب نے بھی جمائما خان کے بعد 2015ء میں ریحام خان سے نکاح کیا مگر یہ شادی زیادہ دیر نہیں چل سکی۔ دونوں کے سیاسی کردار کو بہت کم زیر بحث لایا گیا۔ ریحام خان کے ممکنہ سیاسی عزائم کو زیادہ وقت ہی نہیں ملا اور انہوں نے کتاب لکھ کر اپنی بھڑاس نکالی۔ فروری 2018ء میں خان صاحب کے بشریٰ بی بی سے نکاح نے سب کو حیرت میں ڈال دیا‘ جن کے پاس خان صاحب روحانی ہدایات لینے جایا کرتے تھے۔ یہ بھی سب کے سامنے ہے کہ ریاستِ مدینہ کو اپنی منزل سمجھنے‘ مسلم ہیروز کو اپنا آئیڈیل قرار دینے اور اقبال سے شدید متاثر ہونے کے اظہار کے باوجود خان صاحب کے فہمِ دین پر اعتبار نہیں کیا گیا۔ سب سے زیادہ دینی حلقوں کو خان صاحب سے متاثر ہونا چاہیے تھا لیکن ان حلقوں نے ان پر اعتماد نہیں کیا۔ اسی طرح روحانیات اور روحانی مرشد کے بارے میں خان صاحب کا جو بھی نظریہ ہو‘ اہلِ تصوف کے ہاں بھی اسے پذیرائی نہیں مل سکی۔ فروری 2018ء میں جب بشریٰ بی بی سے خان صاحب نے نکاح کیا‘ تو اسے اقتدار تک پہنچنے کی شدید خواہش کا شاخسانہ قرار دیا گیا۔ کوئی شک نہیں کہ خان صاحب اقتدار کی کرسی تک پہنچنے کے لیے بے قرار تھے اور 'امپائر‘ کو بہت پہلے سے اپنے ساتھ ملا کر کھیل رہے تھے‘ لیکن منزل ا بھی دور تھی۔ ایسے میں انہوں نے اپنی فہم کے مطابق روحانی مدد کو ان وسیلوں میں شامل کرنا چاہا‘ جن کے ذریعے اعلیٰ ترین منصب تک پہنچا جا سکتا تھا۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ تصوف باطن کی صفائی اور اسے زمینی آلائشوں سے بلند کرکے شخصیت کی تعمیر کا نام ہے۔ نیز تصوف کبھی بنیادی طور پر غیبی خبروں‘ مستقبل بینی‘ کشف کے ذریعے سیاسی موزوں افراد کا تعین جیسے معاملات کے لیے نہیں رہا۔ تصوف کو ان مقاصد کے لیے اختیار کرنا خود کج فہمی کی دلیل ہے۔
مگریہ شادی ایک عجوبے کی طرح شروع ہوئی اور اس نے شروع ہی سے خان صاحب کی مقبولیت میں شگاف ڈالنے شروع کر دیے۔ شادی میں عجلت کی گئی‘ سو عدت کا مسئلہ آ کھڑا ہوا۔ نکاح خوان اور قریبی ساتھیوں کے بیان سب کے سامنے ہیں۔ پھر خان صاحب وزیراعظم بن گئے اور بیگم صاحبہ خاتونِ اول۔ جلد یہ بات سامنے آنے لگی کہ سیاسی تقرریاں بی بی کی منظوری سے ہو رہی ہیں جن میں پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا نام بھی شامل تھا۔ بی بی کی سہیلی اور ان کے شوہر پر پنجاب حکومت کی تقرریوں میں دخل اندازی کے معاملے سامنے آئے۔ پولیس کے اعلیٰ عہدیدار کو پنجاب میں تعین کرنے کے لیے بھی انہی صاحب کے پاس بھیجا گیا‘ وغیرہ وغیرہ۔گجر خاندان کے معاملات سے لے کر توشہ خانے تک‘ بیگم صاحبہ ہر معاملے پر چھائی ہوئی تھیں۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں سے ہر واقعہ خان صاحب کو شدید نقصان پہنچا کر گزرا۔ قریبی ساتھی ان سے دور ہوتے گئے اور دور والے مزید دور ہوتے گئے۔ دیانت کا تاثر ٹوٹنے لگا اور اقربا نوازی کے قصے عام ہونے لگے۔ مقتدرہ نے خان صاحب کے اقتدار سے گورننس اورکارکردگی کا جو تصور اور توقعات قائم کی تھیں وہ بھی مسخ ہونا شروع ہوگئیں ۔ یہ طے تھا کہ بی بی کے فیصلے کے خلاف خان صاحب کسی کی کوئی بات نہیں سنتے اور نہ مانتے تھے۔ دوسروں کی بات الگ‘ خود خان صاحب کی بہنیں بھی اس شادی سے خوش نہ تھیں۔
پھر خان صاحب وزارتِ عظمیٰ سے اترے اور بی بی خاتونِ اول کے عہدے سے۔ مخالفوں کے لیے یہ وقت انتقام کی تسکین کا تھا۔ رہی سہی کسر نو مئی کے واقعات نے پوری کر دی۔ لا تعداد مقدمات خان صاحب پر قائم ہوئے اور کچھ بشریٰ بی بی پر بھی۔ ان پر کڑا وقت شروع ہو گیا۔ یہ وقت معاملات کے سکون سے تجزیے اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کا تھا۔ بشریٰ بی بی نہ سیاستدان ہیں نہ کبھی وہ سیاسی کارکن رہی ہیں‘ ان کی ساری طاقت عمران خان تھے۔ گھریلو خاتون کی طرح انہیں بہت سے سیاسی مسائل اور نزاکتوں کا احساس نہیں ہو سکتا۔ کوئی شک نہیں کہ کڑے وقت میں انہوں نے اپنے شوہر کا ساتھ نبھایا لیکن ان کی خیر خواہی اس مشکل وقت سے نکلنے کی واحدکنجی نہیں۔ انہوں نے 24 نومبر کی احتجاجی ریلی سے قبل پی ٹی آئی رہنمائوں کی ایک میٹنگ میں مبینہ طور پر سخت زبان استعمال کی۔ایک ٹی وی اینکر کے مطابق‘ انہوں نے بے شرم اور بے غیرت کے لفظ بھی استعمال کیے۔ احتجاجی ریلی سے قبل ایم این اے اور ایم پی اے حضرات کو جتنے لوگ ساتھ لانے کا حکم دیا گیا تھا وہ بھی ان کے لیے ممکن نہ تھا۔ بشریٰ بی بی پی ٹی آئی کے کسی عہدے پر نہیں پھر وہ یہ فیصلے کس حیثیت میں صادر کر رہی تھیں؟ ابھی یہ سوال ہی گونج رہا تھا کہ انہوں نے ایک خطاب میں مدینہ منورہ میں خان صاحب کے ننگے پائوں جانے کا ذکر کرتے ہوئے سعودی عرب کو بھی لپیٹ لیا۔ جنرل (ر) باجوہ نے ان کے بیان کی تردید کی مگر مخالف قوتوں کو ایک نیا موقع مل گیا۔ پی ٹی آئی کی قیادت اس بیان کی وضاحتوں میں لگ گئی‘ حالانکہ یہ وقت احتجاجی حکمت عملی کا تھا۔ احتجاج کی قیادت کے معاملے پر علی امین گنڈاپور کے بی بی سے اختلافات بھی سامنے آئے۔ معاملہ اس وقت شدت اختیار کر گیا جب مبینہ طور پر بیرسٹر گوہر اور سلمان اکرم راجہ سے گفتگو میں خان صاحب کی رضامندی اور ہدایت کے باوجود بشریٰ بی بی نے سنگجانی جانے سے انکار کر دیا اور ڈی چوک پہنچنے پر اصرار کیا۔ کہتے ہیں کہ خان صاحب کو جلوس میں بشریٰ بی بی کے شریک ہونے کی اطلاع نہیں تھی۔
بلیو ایریا میں جو کچھ ہوا‘ سب کے سامنے ہے۔ علی امین گنڈاپور کا مؤقف ہے کہ آپریشن شروع ہونے کے بعد بشریٰ بی بی کی جان خطرے میں تھی‘ اگر انہیں کچھ ہو جاتا تو میں خان صاحب کو کیا منہ دکھاتا۔ ان کے مخالف کہتے ہیں کہ وہ تو آپریشن سے پہلے ہی فرار ہو چکے تھے‘ رہیں بشریٰ بی بی‘ جو مسلسل اعلانات کرتی آئی تھیں کہ خان صاحب کو لیے بغیر ڈی چوک سے نہیں جائوں گی‘ تووہ بھی مانسہرہ پہنچ گئیں اور ایک اور میٹنگ میں پھر وہی سخت الفاظ استعمال کیے۔مگر اس بار ردعمل بھی آیا‘استعفے دیے گئے اور پارٹی میں بغاوت رونما ہونے لگی۔
کوئی دن جاتا ہے کہ یہ رہنما سارے معاملات لے کر خان صاحب کے پاس جائیں گے اور پارٹی میں بشریٰ بی بی کاکردار متعین ہو گا۔ طے کرنا پڑے گا کہ حکم کس کا ہے۔ بیگم کا یا بادشاہ کا؟ ایک بڑا سوال یہ ہے کہ کیا خان صاحب کو ادراک ہوگا کہ جس سہارے کو انہوں نے عروج تک پہنچنے کے لیے چنا وہ وہ ان کے زوال کا سب سے بڑا سبب ہے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved